فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صیہونیوں کی جانب سے لبنان کی پانچ سرحدی چوٹیوں پر قبضہ خفیہ مقاصد کے تحت کیا گیا ہے، لیکن اس اقدام کے نتیجے میں تل ابیب کو بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
صیہونیوں کی لبنان سے پسپائی کے وجوہات
یہ واضح ہے کہ قابض صیہونی ریاست نے لبنان سے پسپائی کا فیصلہ مزاحمت کے ردعمل کے خوف کی وجہ سے کیا۔ صیہونیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر وہ جنوبی لبنان میں موجود رہتے ہیں تو حزب اللہ دوبارہ اپنی کارروائیاں شروع کر سکتا ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ صیہونی حکومت کا لبنان پر جنگ مسلط کرنے کا بنیادی مقصد یعنی مزاحمت کو ختم کرنا یا کمزور کرنا ناکام رہا۔ اس کے علاوہ، صیہونی اس بات میں بھی ناکام رہے کہ وہ مزاحمت کو لبنان کے داخلی سیاسی منظرنامے سے باہر نکال سکیں۔ جنگ کے دوران، صیہونیوں نے زمینی محاذ پر مزاحمت کے جنگجوؤں کی بے مثال استقامت کا مشاہدہ کیا، جو ان کی امیدوں کے برعکس ثابت ہوا۔
جنگ بندی کے بعد دو ممکنہ صورتحال پیدا ہوئیں:
جنوبی لبنان میں صیہونی فوج کے لیے ایک “سیکیورٹی بیلٹ” بنانے کی کوشش، جس پر صیہونی ماہرین اور فوجی حکام بات کر رہے تھے۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق لبنان کی سرحدوں کے پیچھے صیہونی فوج کی مکمل واپسی۔
آخرکار، قابض فوج کو لبنان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی اور اس طرح “سیکیورٹی بیلٹ” منصوبہ ناکام ہوگیا۔ اس کے بدلے، صیہونی فوج نے لبنان میں پانچ اسٹریٹجک سرحدی چوٹیوں پر قبضہ برقرار رکھا۔ تاہم، اسرائیلی حلقے اس فیصلے پر نالاں نظر آتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان چند سرحدی چوٹیوں پر قبضہ “سیکیورٹی بیلٹ” کے متبادل کے طور پر کارگر ثابت نہیں ہوگا۔
سرحدی چوٹیوں پر قبضے کے مقاصد اور اثرات
لبنان سے پسپائی کے باوجود صیہونی فوج نے ان پانچ اہم چوٹیوں پر کیوں قبضہ برقرار رکھا؟ اس سوال کا جواب ان مقامات کی اسٹریٹجک اہمیت میں مضمر ہے۔ یہ سرحدی علاقے جنوبی لبنان اور شمالی مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) پر نظر رکھنے کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
الحمامص بلندی
العویضہ
جبل بلاط
اللبونہ
العزیہ
اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ ان چوٹیوں پر موجودگی انہیں لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقے میں ہونے والی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں مدد دے گی اور وہ شمالی محاذ پر “طوفان الاقصی” جیسے واقعات کو روک سکیں گے۔ اس لیے یہ قبضہ عسکری اور سیکیورٹی اعتبار سے ایک برتری سمجھی جا رہی ہے۔
دوسری طرف، یہ قبضہ صیہونی حکومت کے ان اہداف کے حصول کا ذریعہ بھی ہے، جن میں وہ جنگ کے دوران ناکام رہے تھے۔ مزید برآں، آتش بس کے باوجود اسرائیلی جارحیت جاری ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لبنان سے فوجی انخلا کے بعد بھی اسرائیلی تجاوزات رک جائیں گی۔
بعض اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ لبنان میں ان چوٹیوں پر موجودگی ایک بڑی غلطی ہے، جس کی قیمت بعد میں تل ابیب کو چکانی پڑے گی۔ فوجی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ حزب اللہ کسی بھی وقت ان چوٹیوں پر قابض اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنا سکتی ہے، کیونکہ ان کا وہاں موجود ہونا براہ راست قبضے کے زمرے میں آتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی جائز ہے۔
ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اسرائیل واقعی شمالی مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کے مکینوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتا ہے تو اسے لبنان کی سرحد پر اقوام متحدہ کی امن فوج (یونیفل) کو تعینات کرنا چاہیے۔
لبنان کے پاس اب بھی راستے موجود ہیں
اگر لبنانی حکومت دانشمندی سے کام لے اور صیہونی ریاست کے بین الاقوامی سرپرستوں کے دباؤ کے خلاف جرأت مندانہ فیصلہ کرے، تو لبنان کے پاس اب بھی کچھ ایسے امکانات موجود ہیں جنہیں وہ بروئے کار لا سکتا ہے۔ اس وقت لبنانی حکام سفارتی طریقے پر توجہ دے رہے ہیں، مگر یہ تبھی مؤثر ہوگا جب لبنان کے پاس دباؤ ڈالنے کے لیے مضبوط کارڈز ہوں۔
ماضی کے تجربات سے ثابت ہے کہ صرف عسکری مزاحمت ہی جنوبی لبنان میں صیہونی قبضے کو روکنے میں کامیاب رہی ہے، اور کوئی دوسرا راستہ مؤثر نہیں رہا۔ لہٰذا، لبنانی حکومت کو امریکہ کے دباؤ میں آنے کے بجائے، قومی مفادات کے مطابق حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں