فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ایسے وقت جبکہ جولانی نے اپنی حکومت کے حوالے سے واضح اور شفاف پالیسی اپنانے کے لیے امریکیوں کو راضی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ٹرمپ انتظامیہ نے اسے نظرانداز کرنے کو ترجیح دی ہے۔
فارس پلس گروپ: امریکہ کا شام کی عبوری حکومت کے حوالے سے مؤقف یورپ کے برخلاف ہے۔ یورپ دمشق کے زوال کے بعد کی تبدیلیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن امریکہ کا رویہ سرد مہری اور بےتوجہی پر مبنی ہے۔ اس صورتحال نے جولانی کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، جسے پہلے ہی امریکہ کی سخت پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہم ان کے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں
چونکہ دمشق کا سقوط جو بائیڈن کی صدارت کے دوران ہوا، اس لیے انہوں نے فوراً وائٹ ہاؤس کا مؤقف اس طرح بیان کیا: “شامی عوام کو اب اپنے ملک کی بحالی کا موقع ملا ہے۔” لیکن بائیڈن کی جانب سے یہ آخری بیان نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا: “ہم چوکنا رہیں گے،” اور اس بات پر زور دیا کہ “کچھ مسلح گروہوں کا دہشت گردی کا پس منظر ہے، لہٰذا ہم شام کے نئے رہنماؤں کے بیانات پر نظر رکھیں گے، اگرچہ اب تک وہ مثبت نظر آ رہے ہیں۔”
البتہ بائیڈن کے برعکس، امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک مختلف نقطہ نظر تھا۔ انہوں نے کہا: “امریکہ کو دمشق کے اچانک سقوط اور اس کے بعد کے نتائج میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،” اور مزید کہا کہ “ہمارا ملک بعد میں شام کے بارے میں اپنا مؤقف واضح کرے گا”—بغیر اس کے کہ وہ اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم کریں۔
جنوری 2025 کے آخر میں، ٹرمپ نے شام کے حوالے سے ایک نیا مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا: “ہم شام میں مداخلت نہیں کر رہے، ان کے اپنے مسائل ہیں اور وہاں پہلے ہی کافی انتشار موجود ہے، اس لیے ہمیں وہاں کسی قسم کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔”
یہ بیان اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ واشنگٹن اب بھی شام کے نئے حالات کے حوالے سے ایک نگران اور غیر مداخلتی پالیسی اپنانا چاہتا ہے۔
اسعد الشیبانی، جو الجولانی حکومت کے وزیر خارجہ ہیں، 13 فروری 2025 کو “سیاسی انتقال اور شام کے نئے دور میں درپیش بڑے سیکیورٹی اور اقتصادی چیلنجز” پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے پیرس روانہ ہوئے۔
یہ دمشق کے سقوط کے بعد تیسری اور ٹرمپ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی کانفرنس تھی، اور اس شرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ امریکہ کا شام میں کردار ابھی تک واضح نہیں ہوا ہے۔
داعش کے خلاف جنگ اور امریکہ کا محتاط رویہ
داعش نے 2014 میں شام کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا تھا، اور اس کے ایک سال بعد، امریکہ نے شامی ڈیموکریٹک فورسز (قسد) تشکیل دیں، جو عرب، کرد اور آشوری عناصر پر مشتمل تھی۔ اس کا مقصد شام میں داعش کے خلاف ایک نیابتی فورس تیار کرنا تھا۔
مارچ 2019 کے قریب، امریکہ نے شام میں داعش کی تباہی کا اعلان کیا، لیکن اس کے باوجود اپنی فوجیں شام میں برقرار رکھیں، اور آج بھی جنوبی شام میں واقع التنف فوجی اڈے پر اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
23 دسمبر 2024 کو پینٹگن نے اعلان کیا تھا کہ شام میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد 2,000 ہے، لیکن تازہ ترین رپورٹس کے مطابق، یہ تعداد بڑھ کر 10,000 ہو چکی ہے۔
مارکو روبیو، جو کہ امریکہ کے وزیر خارجہ ہیں، نے 16 فروری 2025 کو اپنی مقبوضہ فلسطین کے دورے کے دوران کہا: “دمشق کا سقوط ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی جگہ کوئی اور غیر مستحکم کرنے والی قوت نہ لے۔”
یہ بیان واضح کرتا ہے کہ امریکہ اب بھی شام کے حوالے سے محتاط پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ عملی طور پر بھی یہ دیکھا گیا کہ واشنگٹن نے 2011 سے شام پر جو سخت مالی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں، وہ الجولانی کے اقتدار میں آنے کے باوجود برقرار ہیں اور ان میں کوئی نرمی نہیں کی گئی۔
7 جنوری 2025 کو، امریکی محکمہ خزانہ نے شام میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے 6 ماہ کے لیے پابندیوں میں معمولی نرمی کا اعلان کیا، لیکن یہ اقدام ناکافی ثابت ہوا۔
ماہر خلیل الحسن، جو الجولانی حکومت میں وزیر تجارت ہیں، کے مطابق، امریکی پابندیوں کی شدت کے باعث دمشق بہت سی ضروری درآمدات جیسے کہ ایندھن، گندم اور دیگر بنیادی اشیاء کی خریداری سے قاصر ہے، حالانکہ کئی ممالک، بشمول خلیجی عرب ریاستیں، شام کو امداد فراہم کرنا چاہتی ہیں۔
شام، ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل نہیں
الجولانی حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام پر پابندیوں کے تسلسل نے دیگر غیرملکی طاقتوں کے اثر و رسوخ کے لیے راستہ ہموار کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، اسد حکومت کے زوال کے بعد، امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ پابندیاں ختم کرکے شام میں غیرملکی سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے۔
یہ پابندیاں اس وقت بھی برقرار رہیں، جب 20 دسمبر 2024 کو، دمشق میں اسد حکومت کے خاتمے کے 12 دن بعد، امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے مشرق وسطیٰ باربارا لیف کی سربراہی میں ایک امریکی وفد دمشق پہنچا اور الجولانی سے ملاقات کی۔
اسی طرح، 8 جنوری 2025 کو ایک اور امریکی وفد نئی امریکی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے دمشق گیا اور الجولانی سے ملاقات کی۔
الجولانی نے ان دونوں امریکی وفود کے دورے کو واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے مرحلے کے آغاز اور شام پر ایک دہائی سے عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے کی امید کے طور پر دیکھا۔ وہ اس مقصد کے لیے امریکی حکام کو کسی بھی طرح کی یقین دہانی کرانے کے لیے تیار تھا۔
تاہم، اب تک وائٹ ہاؤس نے کوئی بھی پابندی ختم نہیں کی، اور ٹرمپ اور ان کی حکومت کا شام (بعد از اسد) کے حوالے سے مؤقف اب بھی غیر واضح اور مبہم ہے۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ الجولانی کی بھرپور کوششوں، امریکہ سے وفاداری کے عہد، حتیٰ جنوبی شام کو صہیونی قبضے میں دینے کی رضامندی کے باوجود، شام امریکی خارجہ پالیسی میں کوئی ترجیح نہیں رکھتا۔ واشنگٹن، دمشق کو محض خطے کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ شام کو اپنے علاقائی اتحادیوں، جیسے کہ خلیجی عرب ممالک اور ترکی کے حوالے کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور خود فاصلے سے حالات کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت، پابندیاں اور الجولانی پر عدم اعتماد برقرار رہیں گے۔ درحقیقت، جب تک امریکہ شام میں موجود رہتے ہوئے اس کے تیل کے وسائل کو لوٹ سکتا ہے اور الجولانی پر پابندیاں عائد رکھ کر اسے دباؤ میں رکھ سکتا ہے، تب تک اپنی پالیسی میں تبدیلی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
الجولانی پر بداعتمادی برقرار
“مائیکل سینگ”، جو کہ امریکی انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے بورڈ ممبر اور سینیٹ کی نمائندگی کرتے ہیں، کا ماننا ہے کہ “امریکہ کو چاہیے کہ وہ صبر، عملیت پسندی اور اپنے مفادات کی بنیاد پر ہیئت تحریر الشام اور ابو محمد الجولانی کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔”
یہی پالیسی ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت میں اپنائی تھی، جب الجولانی ادلب پر حکمرانی کر رہا تھا۔ اس بار بھی، اس مؤقف پر زور دیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن کے الجولانی اور ہیئت تحریر الشام کے بارے میں مؤقف میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔
سینگ کا خیال ہے کہ امریکہ کو الجولانی کے ساتھ مشترکہ مفادات تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ان مفادات کے ذریعے نئے شامی حکمرانوں کے ساتھ اعتماد کے پل تعمیر کرنے چاہئیں۔
ان کے مطابق، سلامتی سے متعلق معلومات کا تبادلہ—جس میں سرحدی تحفظ، دہشت گردی، شام میں ایران کے حمایت یافتہ نیٹ ورکس اور ایرانی خطرات شامل ہیں—وہ کلیدی امور ہیں، جن پر وائٹ ہاؤس اور الجولانی کے درمیان اعتماد سازی شروع ہو سکتی ہے۔
جہاں تک شام میں حکومتی نظام کا تعلق ہے، امریکی پالیسی یہ ہے کہ یہ معاملہ خود شامی عوام کے سپرد ہونا چاہیے۔ واشنگٹن کے لیے شام میں طائفہ پر مبنی حکومت ہو یا آمرانہ نظام، اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا—اصل چیز یہ ہے کہ شامی حکومت مغرب کی حامی ہو۔
اسی لیے، امریکہ کا کردار صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنی خواہشات اور مطالبات نئے حکمرانوں تک پہنچائے۔ اس کے بعد، نئی شامی حکومت کی کارکردگی کا مرحلہ وار جائزہ لینے کے بعد، واشنگٹن آہستہ آہستہ پابندیاں ہٹانے پر غور کرے گا۔
امریکی سختگیریوں کے خلاف ایک اور نقطہ نظر
اس مؤقف کے برخلاف، ایک اور نظریہ بھی موجود ہے جو امریکہ کی سخت پالیسیوں کے تسلسل پر تنبیہ کرتا ہے۔ اس نظریے کے حامیوں کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ اپنی سختی جاری رکھتا ہے، تو الجولانی اپنے حریفوں، خصوصاً روس کے قریب ہو سکتا ہے۔
یہ خدشہ اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کہ الجولانی کو توانائی، صنعت اور تجارت جیسے اہم شعبوں میں فوری مدد درکار ہے، جو اسے ماسکو کی طرف جھکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
امریکہ میں اس نقطہ نظر کو اس وقت مزید تقویت ملی، جب ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں ایک متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے غیر ملکی امداد کو معطل کر دیا—جس میں شام بھی شامل ہے۔
یہ ایک اہم پیش رفت ہے، کیونکہ شام ان ممالک میں شامل تھا جو امریکی امداد کے سب سے بڑے وصول کنندگان میں سے ایک تھے، اور یہ امداد سالانہ سینکڑوں ملین ڈالر تک پہنچتی تھی۔
تاہم، ان تمام معاملات کے باوجود، ایسا لگتا ہے کہ نئی امریکی حکومت نے شام کے بارے میں ابھی تک کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا۔
اگرچہ الجولانی نے دمشق کے تمام دروازے واشنگٹن کے لیے کھول دیے ہیں، لیکن ٹرنپ کی جانب سے اب بھی انہیں نظرانداز کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے
اس نظریے کو تقویت دینے والے عوامل
اس نقطہ نظر کو مزید مضبوط کرنے والی چیز 15 فروری 2025 کو امریکی عربی زبان کے چینل “الحرة” پر ریپبلکن پارٹی کے کانگریس رکن “جو ویلسن” کے بیانات ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ “کیا نئی امریکی حکومت الجولانی کو تسلیم کرے گی؟ اور کیا امریکہ شام کے نئے حکمرانوں کی کارکردگی سے مطمئن ہے؟” تو انہوں نے جواب دیا:
“ایسا لگتا ہے کہ امریکہ الجولانی کو تسلیم کر لے گا، اور شام کے نئے حکمرانوں کی کارکردگی پر بھی اطمینان پایا جاتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ امریکی حکومت ترجیح دیتی ہے کہ شام میں براہ راست مداخلت کے بجائے سعودی عرب اور ترکی جیسے کھلاڑیوں کو کردار ادا کرنے کا موقع دے، خاص طور پر جب کہ یہ دونوں ممالک شام کے نئے نظم و نسق میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ رہے ہیں۔”
مصنف : فاران خصوصی ماخذ : ترجمہ زیدی
تبصرہ کریں