فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی مطالعاتی اور اسٹریٹیجک مراکز، حتیٰ کہ اس ریاست کے رہنما بھی “سید حسن نصراللہ” کو عرب دنیا کے واحد رہنما کے طور پر یاد کرتے ہین ایک ایسے رہنما جو ہمیشہ اپنی باتوں میں سچے رہے۔
فارس پلس گروپ:
نتن یاہو نے “سید شہید” کو ان الفاظ میں بیان کیا:
“نصراللہ صرف ایک مجاہد نہیں تھے وہ خود مزاحمت تھے محور کے اندر محور تھےاور اس کے پیچھے متحرک قوت اور جذبہ تھے۔”
یہ صرف ایک سیاسی بیان یا میڈیا پروپیگنڈہ نہیں ہے بلکہ اسرائیلی سیکیورٹی اور سیاسی اداروں کی اسٹریٹیجک سوچ کی عکاسی کرتا ہے جسے اسرائیل کی سیاسی قیادت نے اس طرح بیان کیا۔
“سید حسن نصراللہ” صرف مزاحمتی صفوں میں ایک فرد نہیں تھے، بلکہ وہ ایک اسٹریٹیجک ہتھیار تھے۔
اسرائیلی تحقیقی اور اسٹریٹیجک مراکز کی 2000 میں لبنان سے اسرائیلی پسپائی کے بعد کی گئی گہرائی سے تحقیق نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ “سید شہید” کی شخصیت میں منفرد کرشمہ تھا اور وہ نہ صرف عوام بلکہ اپنے دشمنوں کی رائے عامہ پر بھی گہرا اثر رکھتے تھے۔
اسرائیلی قومی سلامتی تحقیقی مرکز (جو صہیونی ریاست کے اہم ترین تحقیقی مراکز میں شمار ہوتا ہے) کی مطالعاتی رپورٹ کے مطابق، “سید” نے نہ صرف خطے میں اسرائیل کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر اپنی جگہ بنائی بلکہ اس ریاست کے وجود اور سلامتی کے لیے حقیقی چیلنج بن گئے۔
ان کا کردار صرف حزب اللہ کی قیادت تک محدود نہیں تھا، بلکہ ان کا اثر لبنان کی سرحدوں سے بھی آگے پہنچ چکا تھا۔
نتن یاہو کے بقول:
“وہ ایک مرکزی اور فیصلہ کن شخصیت بن چکے تھے جو خطے کی اہم اسٹریٹیجک مساوات پر اثرانداز ہو رہی تھی۔”
اسرائیلی اجتماعی شعور میں، وہ صرف فوجی خطرہ نہیں تھے بلکہ وہ سیاسی، نظریاتی اور نفسیاتی طور پر بھی اسرائیلی معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھے۔
ان کا نام اسرائیل میں عرب اور اسلامی دنیا میں مزاحمت کی آئیڈیالوجی کے ساتھ جُڑا ہوا تھا اور صہیونی ذہنیت اور منطق میں خطرے اور خوف کی علامت بن چکا تھا۔
“نصراللہ”؛ صہیونی ریاست کی نظریاتی گفتگو میں مظلوموں کے دفاع کی علامت
شہید نصرا اللہ صہیونی حکام کی نظریاتی گفتگو میں می ایک ایسی علامت اور نظریہ بن چکے تھے جو ہر اس شخص کے دفاع کی نمائندگی کرتا تھا، جسے اسرائیل اور صہیونیوں کی جارحیت کا سامنا تھا۔
اسرائیلی ماہرین کے مطابق، عرب دنیا کے تمام رہنماؤں کے برعکس، “نصراللہ” کا نام “سچائی” اور “عمل” سے عبارت تھا۔ یہاں تک کہ اسرائیلی عوام انہیں اپنے رہنماؤں سے زیادہ معتبر سمجھتے تھے۔
“صداقت” اور “اعتبار” کا یہ مقام انہیں صرف ان کی کرشماتی شخصیت اور جوشیلی تقریروں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوا، بلکہ یہ سالہا سال کی جدوجہد، مزاحمت اور قابض اسرائیلی حکومت کے خلاف ثابت قدمی کا نتیجہ تھا۔
یہی وہ حقیقت تھی جس نے اسرائیلی قیادت کے دل میں ایک گہرا ” کینہ ” پیدا کر دیا۔
2006 کی جنگ کے بعد، جب “نصراللہ” کو اسرائیل کی تاریخی شکست کا اہم ترین عامل سمجھا گیا، تو تل ابیب کے حکام نے انہیں ایک اسٹریٹیجک ہدف کے طور پر دیکھا۔ حزب اللہ کے خلاف کسی بھی کارروائی میں “نصراللہ” کا سامنا کرنا ایک مستقل ڈر بن چکا تھا۔
چونکہ وہ اسرائیل کے دشمنوں کے لیے ایک اسٹریٹیجک ہتھیار تھے، اس لیے اسرائیلی قیادت نے ان کے خلاف خاص حکمت عملی بنانے پر زور دیا۔
جنگ کے بعد “نصراللہ” نے فوری طور پر جان لیا کہ کیا کرنا ہے۔
وہ براہِ راست میڈیا میں آتے، تقریریں کرتے اور اپنی الفاظ کی طاقت سے دونوں فریقین پر گہرا اثر ڈالتے۔
یہی وہ حقیقت تھی جس کا اعتراف “اسرائیلی قومی سلامتی تحقیقی مرکز” نے بھی اپنی تحقیق میں کیا۔
تحقیق کے مطابق:
“نصراللہ کی تقریریں اتنی مؤثر تھیں کہ اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس نے ان کے بیانات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خصوصی یونٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا، کیونکہ ان کے خطابات کا اثر جنگ کے بعد بھی برقرار رہا۔”
اسرائیلیوں کی نظر میں “نصراللہ”
سید حسن نصراللہ کا حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر انتخاب، سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد کوئی معمولی یا عارضی واقعہ نہیں تھا، بلکہ اسرائیل کے خلاف ایک نئے دور کے آغاز کی علامت تھا۔
“سید” کا پہلا فیصلہ، جس نے اس نئے مرحلے کی بنیاد رکھی، اسرائیلی بستیوں پر کاتیوشا راکٹ فائر کرنا تھا۔ یہ فیصلہ محض ایک ردعمل نہیں تھا، بلکہ ایک واضح پیغام تھا:
“موسوی کے قتل سے دشمن کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوگی۔”
اسرائیل نے موسوی کو قتل کر کے حزب اللہ کو خوفزدہ کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کی تھی، تاکہ وہ مزاحمت جاری رکھنے کے قابل نہ رہے۔ مگر نصراللہ نے قیادت سنبھالتے ہی یہ پیغام دیا کہ اسرائیل کو اب ایک غیرمعمولی قیادت کا سامنا ہے، جس میں شکست کی گنجائش نہیں۔
موسوی کی شہادت کے بعد حزب اللہ کی زبردست جوابی کارروائیوں نے لبنان کے اندر اور باہر اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسیوں کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی پر مجبور کر دیا۔
اس وقت کے اسرائیلی فوجی انٹیلیجنس چیف، جنرل “اوری ساگی” نے ایک قابلِ ذکر بیان میں اعتراف کیا:
“اگر ہمیں پہلے سے معلوم ہوتا کہ ایسا ہوگا، تو ہم موسوی کو قتل کرنے کا فیصلہ نہ کرتے۔”
یہ الفاظ اسرائیل کے غلط اندازوں اور نصراللہ جیسی شخصیت کے سامنے ناکامی کا بےساختہ اعتراف تھے۔
اسرائیلی پالیسی ساز اداروں اور عوام کی نظر میں “نصراللہ” ایک بہادر، عقلمند اور پُرعزم رہنما تھے۔
یہ محض پروپیگنڈا یا میڈیا کی باتیں نہیں تھیں، بلکہ ہر محاذ پر عملی طور پر ثابت ہو چکا تھا کہ ان کی قیادت میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف جو بھی معرکہ لڑا، وہ عزم و حکمت کا امتزاج تھا۔
“نصراللہ” کی قیادت منفرد تھی، کیونکہ وہ “فیصلہ سازی میں جرات” اور “عملدرآمد میں حکمت” کو یکجا کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔
یہی وہ خصوصیت تھی جس نے اسرائیلی قیادت کو یہ باور کرا دیا کہ وہ ایک “غیرمعمولی رہنما” کے سامنے ہیں، جو ایک “واضح اسٹریٹیجک وژن” اور “مستقل اہداف” رکھتا ہے۔
نوے کی دہائی کی تبدیلیاں
سید حسن نصراللہ کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک، مزاحمت کے راستے پر ثابت قدم رہنا تھا۔
اپنی ایک تاریخی تقریر میں، جو حزب اللہ کی مرکزی کونسل کی عمارت (حارہ حریک) کے سامنے کی گئی، انہوں نے واضح الفاظ میں کہا:
“اگر ہم سب مارے جائیں اور ہمارے تمام گھروں کو زمین بوس کر دیا جائے، تب بھی ہم اسلامی مزاحمت کو ترک نہیں کریں گے۔”
یہ تقریر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے ایک نئے دور کی علامت بن گئی۔ اسرائیل نے یہ سمجھ لیا کہ اس کی تمام کوششیں مزاحمت کے عزم کو توڑنے میں ناکام رہی ہیں۔
یہ وہ لمحہ تھا جب اسرائیل نے تسلیم کیا کہ وہ ایک ایسی قیادت کا سامنا کر رہا ہے جو چیلنجوں کو مواقع میں اور دفاعی ردعمل کو زبردست حملوں میں بدل سکتی ہے۔
عملی طور پر بھی “نصراللہ” نے سید عباس موسوی کی شہادت کو لبنان کے جنوبی علاقوں کی آزادی اور مزاحمت پر عوام کے اعتماد میں اضافے کے نئے آغاز میں تبدیل کر دیا۔
یہ چند سال ایک بنیاد رکھنے والے مرحلے کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں اس عظیم رہنما نے اپنی صلاحیت ثابت کی کہ وہ بڑے چیلنجوں کا سامنا کر سکتا ہے اور کھیل کے اصولوں کو مزاحمت کے حق میں موڑ سکتا ہے۔
حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت کی تاریخ سے واقف افراد جانتے ہیں کہ 1990 کی دہائی، مزاحمت کی راہ میں ایک عظیم سنگ میل تھی۔
یہ وہ دور تھا جب، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے باوجود، مزاحمت نے اپنی حکمت عملی اور عسکری صلاحیتوں میں نمایاں ترقی کی۔
اس وقت تک حزب اللہ صرف جنوبی لبنان میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والی ایک مقامی قوت نہیں رہی، بلکہ ایک پورے خطے کی ماہر کھلاڑی بن چکی تھی۔
اب ہر حملہ جو اسرائیل کے خلاف ہوتا تھا، اس کا اثر صرف لبنان تک محدود نہیں رہتا تھا، بلکہ اس کی گونج پورے خطے اور دنیا میں سنائی دیتی تھی۔
سابق شامی وزیر خارجہ، “فاروق الشرع” کے مطابق:
“ہر مزاحمتی کارروائی کی بازگشت وائٹ ہاؤس تک سنائی دیتی تھی۔”
اسرائیل نے اپنی پالیسی سخت کر دی اور ٹارگٹ کلنگ (قاتلانہ حملوں) جیسے اقدامات اپنائے، لیکن “نصراللہ” نے ہر خطرے کو موقع میں بدل دیا۔
انہوں نے اپنی عسکری کارروائیوں سے اسرائیل کی حکمت عملی اور اہداف کو ناکام بنایا، حتیٰ کہ اسرائیل کو سال 2000 میں لبنان سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
شخصیت کی تبدیلی اور اس کا اثر
آموس مالکا، جو 1960 کی دہائی میں اسرائیلی فوجی انٹیلی جنس (امان) کے سربراہ تھے اور حزب اللہ کے خلاف کئی محاذوں کو سنبھال چکے تھے، نے ایک انٹرویو میں “یدیعوت احرونوت” (26 ستمبر 2001) سے گفتگو کرتے ہوئے سید حسن نصراللہ کی قیادت کی تعریف کی:
“مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی تنظیم کو چلانے میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی قیادت ایک زبردست امتزاج ہے—اسٹریٹیجک سوچ، مکمل کنٹرول، زبردست حربی مہارت، اور نفسیاتی پہلو سے بہترین استفادہ۔”
انہوں نے مزید کہا:
“نصراللہ ایک غیر معمولی ذہین شخصیت کے حامل ہیں، جو ہر انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ماہر کو متاثر کر سکتے ہیں۔ میں ان کی کئی ذاتی خصوصیات سے واقف ہوں، لیکن میری انٹیلی جنس پوزیشن مجھے مزید تفصیلات ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔”
یہ ممکن نہیں کہ نصراللہ کی شخصیت کی ترقی کا تجزیہ کیا جائے، بغیر اس کے کہ حزب اللہ کی ترقی اور اس کے لبنان، خطے، حتیٰ کہ خود اسرائیل پر پڑنے والے اثرات کو نظر میں رکھا جائے۔
اسی لیے نصراللہ کے بارے میں بات کرنا، 1992 سے 2024 تک حزب اللہ کی ترقی پر بات کرنے کے مترادف ہے۔
نوے کی دہائی میں، حزب اللہ نے بے مثال اسٹریٹیجک کامیابیاں حاصل کیں، حالانکہ اس دوران بے پناہ دباؤ، سخت حالات، اور بڑے چیلنجز کا سامنا تھا۔
ان فتوحات نے حزب اللہ کو ایک مضبوط علاقائی قوت کے طور پر منوایا اور اسرائیلی قیادت کی نظروں میں اس کے مقام کو مزید مستحکم کیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ، نصراللہ کی شخصیت اسرائیلی انٹیلی جنس اور قیادت کے لیے ایک پیچیدہ معمہ بن گئی۔
یہ صرف ایک عام سیاسی شخصیت کی نگرانی کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے نصراللہ کی ہر حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی۔
یہ ٹیم ان کی ہر معمولی سے معمولی سرگرمی کا تجزیہ کرتی تھی—
چاہے ان کی انگلیوں کی حرکت ہو یا ان کی گہری اسٹریٹیجک سوچ۔
یہ خصوصی ٹیم نصراللہ کی تقاریر اور بیانات کا باریک بینی سے تجزیہ کرتی تھی، نہ صرف ان کے الفاظ کا بلکہ ان کے لہجے، الفاظ کے چناؤ، ہاتھ کے اشاروں اور بحرانوں سے نمٹنے کی حکمت عملی تک کو تفصیل سے پرکھتی تھی۔
“مکڑی کے جالے” کا نظریہ
“اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے”— یہ وہ مشہور جملہ ہے جو سید حسن نصراللہ نے 2000 میں اسرائیل کے لبنان سے انخلا کے بعد بنت جبیل شہر میں کہا تھا۔
یہ جملہ بہت جلد “نظریہ مکڑی کا جال” کے نام سے مشہور ہو گیا اور اسرائیلی قیادت، انٹیلی جنس اداروں، تحقیقی مراکز اور پالیسی سازوں کے درمیان ایک اہم موضوع بن گیا۔
اسرائیل نے اس نظریے کو ایک بڑا خطرہ تصور کیا اور اسے غلط ثابت کرنے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف حکمت عملیاں بنانا شروع کر دیں۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ نظریہ اسرائیل کے دشمنوں سے زیادہ خود اسرائیلی عوام میں مقبول ہو گیا اور انہوں نے اپنے ملک کی کمزوری پر یقین کرنا شروع کر دیا۔
وقت کے ساتھ یہ نظریہ “نصراللہ” کی شخصیت کی علامت اور اسرائیل کے لیے ایک وجودی خطرہ بن گیا، کیونکہ اس نے مزاحمتی قوتوں کی اسرائیل کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کو ظاہر کر دیا تھا۔
2006 کی جنگ کے دوران بھی اسرائیلی قیادت اور میڈیا میں “مکڑی کے جال” کے نظریے کا بار بار تذکرہ ہوتا رہا۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں، جب اسرائیل خود کو ایک بڑی فتح کے قریب سمجھ رہا تھا، تب بھی نصراللہ کے “مکڑی کے جال” کے نظریے کا اثر اسرائیلی بیانات پر حاوی تھا۔
اسرائیلی لیڈر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ یہ نظریہ غلط ہے اور اسرائیل ایک “فولادی قلعہ” ہے، لیکن جنگ کے نتائج نے اس کے برعکس ثابت کر دیا۔
اسرائیلی فوج کے اُس وقت کے سربراہ “دن حالوتز” نے منصوبہ بنایا تھا کہ جنگ میں کامیابی کے بعد بنت جبیل میں جا کر نصراللہ کے نظریے کا جواب دے اور “فولادی اسرائیل” کی تقریر کرے،
لیکن اس جنگ میں اسرائیل کی شکست کے باعث یہ خواب کبھی پورا نہ ہو سکا۔
عبرانی میڈیا میں نصراللہ کا اثر
“ساتویں آنکھ” نامی جریدے کے ستمبر 2006 کے شمارے (نمبر 64) میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں، اسرائیلی اخبار “ہاآرتص” کے مشرق وسطیٰ امور کے تجزیہ کار “زوی بارل” لکھتے ہیں:
“اسرائیلی میڈیا اور عوامی شعور میں نصراللہ تین مختلف شخصیات کی علامت ہے: ایک سخت دشمن، ایک ماہر عسکری حکمت عملی، اور ایک ایسا شخص جو اسرائیلی فوج اور سوسائٹی کو گہرائی سے سمجھتا ہے۔”
اسی طرح، اسرائیلی میڈیا سوسائٹی کے تحقیقی جریدے “ماسکروت میڈیا” کے 2012 کے خزاں ایڈیشن میں ایک علمی تحقیق شائع ہوئی، جس کا عنوان تھا:
“لبنان کی دوسری جنگ میں نصراللہ کی ٹی وی پر موجودگی”
اس تحقیق میں 2006 کی جنگ کے دوران نصراللہ کے سات اہم خطابات کا تجزیہ کیا گیا، جس میں ان کے الفاظ، حرکات و سکنات، اور غیر زبانی اشاروں پر توجہ دی گئی۔
تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ:
“نصراللہ کے چہرے کے تاثرات، حرکات، اور الفاظ میں موجود صداقت، قاطعیت، صلابت، اور حکمت عملی کی گہری سمجھ بوجھ نے اسرائیلی عوام پر غیر معمولی اثر ڈالا۔”
یہ تحقیق اسرائیلی ماہرین کی ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالتی ہے، جن کی بنا پر نصراللہ کو “قابلِ اعتماد اور معتبر شخصیت” سمجھا جانے لگا۔
یہ صورتحال عرب دنیا کے دیگر رہنماؤں سے بالکل مختلف تھی، جنہیں نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ایسی ساکھ حاصل ہو سکی۔
نصراللہ کی مسلسل ٹی وی پر موجودگی اور ان کی حرکات و سکنات نے ان کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھایا۔
خاص طور پر جب ان کے الفاظ زمینی حقائق اور عملی کامیابیوں سے جُڑ جاتے تھے، تو ان کی ساکھ کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔
یہی معاملہ 2000 میں اسرائیلی انخلا سے پہلے، 2006 کی جنگ کے دوران، اور حالیہ “طوفان الاقصیٰ” جنگ میں بھی دیکھا گیا۔
اسرائیل کے اکثر اسٹریٹجک تجزیہ نگاروں نے نصراللہ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی، لیکن کبھی بھی کوئی ایسی حکمت عملی وضع نہیں کی جا سکی جو ان کی مقبولیت اور اثر کو روک سکے۔
اسی طرح، اسرائیلی میڈیا سوسائٹی کے تحقیقی جریدے “ماسکروت میڈیا” کے 2012 کے خزاں ایڈیشن میں ایک علمی تحقیق شائع ہوئی، جس کا عنوان تھا:
“لبنان کی دوسری جنگ میں نصراللہ کی ٹی وی پر موجودگی”
اس تحقیق میں 2006 کی جنگ کے دوران نصراللہ کے سات اہم خطابات کا تجزیہ کیا گیا، جس میں ان کے الفاظ، حرکات و سکنات، اور غیر زبانی اشاروں پر توجہ دی گئی۔
تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ:
“نصراللہ کے چہرے کے تاثرات، حرکات، اور الفاظ میں موجود صداقت، قاطعیت، صلابت، اور حکمت عملی کی گہری سمجھ بوجھ نے اسرائیلی عوام پر غیر معمولی اثر ڈالا۔”
یہ تحقیق اسرائیلی ماہرین کی ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالتی ہے، جن کی بنا پر نصراللہ کو “قابلِ اعتماد اور معتبر شخصیت” سمجھا جانے لگا۔
یہ صورتحال عرب دنیا کے دیگر رہنماؤں سے بالکل مختلف تھی، جنہیں نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں ایسی ساکھ حاصل ہو سکی۔
نصراللہ کی مسلسل ٹی وی پر موجودگی اور ان کی حرکات و سکنات نے ان کے اثر و رسوخ کو مزید بڑھایا۔
خاص طور پر جب ان کے الفاظ زمینی حقائق اور عملی کامیابیوں سے جُڑ جاتے تھے، تو ان کی ساکھ کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔
یہی معاملہ 2000 میں اسرائیلی انخلا سے پہلے، 2006 کی جنگ کے دوران، اور حالیہ “طوفان الاقصیٰ” جنگ میں بھی دیکھا گیا۔
اسرائیل کے اکثر اسٹریٹجک تجزیہ نگاروں نے نصراللہ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کی، لیکن کبھی بھی کوئی ایسی حکمت عملی وضع نہیں کی جا سکی جو ان کی مقبولیت اور اثر کو روک سکے۔
اسرائیل اور بیرونی دنیا میں “نصراللہ” پر ہونے والی تحقیقات
اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں سے باہر بھی “نصراللہ کے اثر و رسوخ” پر متعدد تحقیقات اور مقالات شائع ہوئے۔ ان میں سے ایک نمایاں تحقیق 18 اکتوبر 2017 کو امریکی جریدے “نیوزویک” میں شائع ہوئی، جسے “گابی سیبونی” نے تحریر کیا۔
گابی سیبونی اسرائیلی فوج کے ریزرو کرنل اور تل ابیب کے قومی سلامتی ریسرچ سینٹر میں عسکری و اسٹریٹجک امور کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔
اس تحقیق میں سیبونی نے “نصراللہ کی فکری جنگ اور اس کے اسرائیلی فوج و عوام پر منفی اثرات” پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ:
“نصراللہ کے بیانیے کا سامنا کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ جنگی اور غیر جنگی دونوں حالات میں اسرائیل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔”
سیبونی کے مطابق، “جنگ بغیر گولیوں کے” دراصل “دماغوں کی جنگ” ہے، جو ادراک، شعور اور ذہنی اثر و رسوخ پر مبنی ہوتی ہے۔
یہی وہ خاصیت ہے جو نصراللہ کے بیانیے کو منفرد اور مؤثر بناتی ہے۔
اسی لیے، سیبونی نے اسرائیلی سیاست دانوں، اسٹریٹجک ماہرین اور فیصلہ سازوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ:
“اکیسویں صدی کی جنگوں میں ذہن اور ادراک سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، اور یہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے فیصلہ کن عنصر ہے۔”
اس نے نصراللہ کو “حزب اللہ کا ایک اسٹریٹجک ہتھیار” قرار دیتے ہوئے لکھا کہ “نصراللہ ایک غیر معمولی پدیده ہے، اور اسی لیے کئی اسرائیلی رہنماؤں نے اس کے قتل کا مطالبہ کیا۔”
بالآخر، اسرائیل نے نصراللہ کو شہید کرنے میں کامیابی حاصل کی، لیکن سوال یہ ہے کہ:
“کیا نصراللہ کے قتل سے ان کے اثر و رسوخ، قیادت کی عزت عوامی حمایت، میں کچھ کمی آئی کیا مزاحمتی تحریک کم ہو گئی “
اس حوالے سے شدید شکوک و شبہات موجود ہیں، اور یہ سوال اسرائیل کے لیے اب بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں