سید حسن نصراللہ کا لبنان میں متحدہ سماجی شناخت کی تشکیل میں کردار

سید حسن نصراللہ کی سیاسی مہارت نے ان کی تقاریر کو لبنان کے مختلف مذاہب، مسالک اور فرقوں کے درمیان اتحاد کا ایک محرک بنا دیا تھا۔ ان کے باعث، سالوں کی فرقہ وارانہ تقسیم اور اختلافات کے بعد، لبنان میں ایک مشترکہ سماجی شناخت کی بنیاد رکھی گئی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سید حسن نصراللہ کی سیاسی مہارت نے ان کی تقاریر کو لبنان کے مختلف مذاہب، مسالک اور فرقوں کے درمیان اتحاد کا ایک محرک بنا دیا تھا۔ ان کے باعث، سالوں کی فرقہ وارانہ تقسیم اور اختلافات کے بعد، لبنان میں ایک مشترکہ سماجی شناخت کی بنیاد رکھی گئی۔

لبنان: مشترکہ شناخت سے محروم ملک

لبنان ہمیشہ سے ایک متحدہ سماجی شناخت کے فقدان کا شکار رہا ہے۔ ایسی شناخت جو لبنانی عوام کے لیے ایک بنیادی فریم ورک بن سکے اور جس کے ذریعے وہ خود کو متعارف کرا سکیں۔ جبکہ استعمار، جنگوں اور غیر ملکی مداخلت نے لبنانی شہریوں کی قومی شناخت کے تصور پر گہرے اور وسیع اثرات مرتب کیے ہیں۔

فرقہ واریت: قومی شناخت کی راہ میں رکاوٹ

فرقہ واریت اور مسلکی تقسیم لبنان میں قومی شناخت کو کمزور کرنے کے اہم اسباب میں شامل ہیں۔

لبنان کی ثقافتی تقسیم  اور مسلکی تنوع جو کہ درحقیقت ملک کے لیے ایک مثبت پہلو کی نشاندہی کے اسباب میں ہونا چاہیئے تھا، تقسیم اور انتشار کا سبب بن گئے

اس فرقہ وارانہ تقسیم نے لبنانی عوام کی قومی شناخت کی تشکیل پر منفی اثرات مرتب کیے۔

سماجی شناخت اور اس کا فرد کی زندگی میں کردار

سماجی شناخت فرد کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہے، جو درج ذیل عوامل پر مشتمل ہوتی ہے:

فرد کی اپنے گروہ، فرقے یا طائفے سے وابستگی کا شعور

اس وابستگی سے حاصل ہونے والے جذباتی اور اقداری فوائد

یہ وابستگی محض زبانی یا نظریاتی نہیں ہوتی، بلکہ عملی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔

کسی فرقے یا گروہ کے افراد کی مشترکہ سوچ اور واقعات کی یکساں تشریح، ان کے متحدہ رویوں اور مشترکہ طرزِ عمل کو جنم دیتی ہے۔

یہی عوامل ایک متحدہ سماجی شناخت کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔

رہنماؤں کا کردار: شناخت کی تشکیل یا تقسیم؟

سماجی شناخت کی تشکیل سے متعلق نظریات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ:

ایک فرد کی کسی مخصوص گروہ سے وابستگی، اس کے رویے اور طرزِ عمل پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

ایک رہنما کا کردار کس طرح اس شناخت کو مستحکم یا کمزور کر سکتا ہے۔

رہنما کا طرزِ عمل کسی فرد کے سماجی شناخت کے احساس کو کیسے مضبوط یا ختم کر سکتا ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنی قیادت اور بیانات کے ذریعے، لبنان میں ایک متحدہ سماجی شناخت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، جو فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر تھی۔

تحریکی قیادت: فخر اور عزت کا سبب

تحریکی قیادت فرد پر گہرا اثر ڈالتی ہے، جس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ فرد کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ ایک گروہ کا حصہ ہے، اور یہ شمولیت اسے اس گروہ کے دائرہ کار میں عمل کرنے کا پابند بناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، تحریکی قیادت انفرادی شناخت پر زور دینے کے بجائے ایک مشترکہ سماجی شناخت کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔

جب ایک رہنما اپنی توجہ تفریق اور اختلافات پیدا کرنے کے بجائے قومی شناخت کو مضبوط کرنے اور گروہی انتساب پر مرکوز کرتا ہے، تو وہ دراصل فرد کو اس کے گروہ میں اس کی داخلی قدر کا احساس دلاتا ہے۔ اس سے فرد میں  میں کی جگہ”ہم” کا احساس پیدا ہوتا ہے اور بالآخر ایک “مشترکہ شناخت” کا شعور اجاگر ہوتا ہے۔

قومی شناخت کے احساس کو مستحکم کرنے کے بعد، ایک رہنما “فخر اور عزت” کو گروہ کے افراد کا لازمی جزو بنا سکتا ہے، جس سے ہر فرد اپنے گروہ سے وابستگی پر فخر محسوس کرے اور قومی شناخت کو ایک مثبت قدر کے طور پر دیکھے۔

یہی وہ چیز ہے جو سید حسن نصر اللہ نے “تحریکی فتوحات” کے ذریعے تمام لبنانی عوام، خواہ وہ کسی بھی گروہ، طبقے یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، میں پیدا کی۔ انہوں نے سن 2000 میں اسرائیل کے لبنان سے انخلا اور 33 روزہ جنگ میں کامیابی کو نہ صرف “قومی فتح” قرار دیا بلکہ لبنانی عوام کو “باعزت ترین قوم” کہہ کر ان میں قومی فخر کے جذبات کو تقویت بخشی۔

یہی وجہ تھی کہ 33 روزہ جنگ میں تاریخی فتح کے بعد، ہر لبنانی، خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ، فرقے یا طبقے سے ہو، اس کامیابی پر خوش تھا اور خود کو اس معاشرے کا حصہ سمجھتا تھا، جسے “نصر اللہ” نے “باعزت ترین قوم” قرار دیا تھا۔ انہیں اس بات پر فخر تھا کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں جس نے “اسرائیل” کو شکست دی اور بغیر کسی امن معاہدے پر دستخط کیے اسے اپنے ملک سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

رہنما کی سیاسی مہارت کا اثر

رہنمائی کا کردار نہ صرف مشترکہ شناخت کے احساس اور گروہ سے وابستگی کے فخر کو تشکیل دینے اور مضبوط کرنے میں اہم ہے، بلکہ سیاسی مہارت بھی اس احساس کے پیدا ہونے اور اس کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

وہ رہنما جو اعلیٰ سیاسی و سماجی بصیرت اور بہترین ابلاغی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ اپنی ان مہارتوں کو کسی گروہ کی منفرد خصوصیات، اس کے بنیادی اقدار اور مقاصد کو واضح کرنے میں استعمال کر سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر اس گروہ کی شناخت اور اس کی حد و حدود متعین کر سکتے ہیں۔

چونکہ اجتماعی شناخت کی تشکیل فخر اور عزت کے احساس کے لیے بنیادی شرط ہے، اس لیے ایک رہنما کی سیاسی مہارت اس تعلق کو مزید مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جو شناخت پر مبنی قیادت اور وابستگی پر مبنی فخر کے درمیان موجود ہوتا ہے۔

سید حسن نصر اللہ ہمیشہ اپنی تقریروں اور سیاسی پیغامات میں متعدد پہلوؤں پر زور دیتے رہے، جن میں لبنان کی قومی وحدت و یکجہتی کو مضبوط کرنا، لبنانی عوام کی روحانی اور اخلاقی رہنمائی کرنا، مزاحمت سے وابستگی کو تقویت دینا، اور تمام لبنانی گروہوں اور فرقوں کے ساتھ لچکدار اور ہم آہنگ رویہ اپنانا شامل ہے۔

انہوں نے لبنانی عوام کے درمیان موجود فرق و تفریق کو مذہبی و فرقہ وارانہ اختلافات کے بجائے سیاسی اختلافات میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

اس کے علاوہ،  شہیدسید حسن نصر اللہ کی تقاریر نہ صرف لبنان کے اندر بلکہ لبنان سے باہر بھی گہرے اثرات رکھتی تھیں، خاص طور پر نفسیاتی جنگ میں ان کا بیان اسرائیلیوں، بشمول اس رژیم کے رہنماؤں، پر زبردست اثر انداز ہوتا رہا۔

سید حسن نصر اللہ کی نفسیاتی اور کرشماتی تاثیر

سید حسن نصر اللہ کی نفسیاتی اور میڈیا پر اثراندازی اتنی گہری تھی کہ ان کے دشمن بھی ان کی خطابت کی مہارت، فصاحت و بلاغت، اسٹریٹجک بصیرت اور میڈیا سے جڑی ذہانت کے معترف تھے۔ اس حوالے سے چند اعترافات درج ذیل ہیں:

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا لکھتا ہے:

“سید حسن نصر اللہ کی تنظیمی قیادت کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی عوامی مقبولیت تھی۔ وہ اپنے پیغامات پہنچانے کے لیے اپنی کرشماتی شخصیت اور الفاظ کے سحر کو بروئے کار لاتے تھے۔ وہ نہ تو ایک مشتعل خطیب تھے اور نہ ہی خوف پیدا کرنے والے، بلکہ وہ ایک سوچنے والے، متواضع اور ہمیشہ خوش اخلاق شخصیت کے مالک تھے۔”

برٹانیکا مزید لکھتا ہے:

“نصر اللہ نے عربی عزت و شرافت کی اہمیت پر زور دیا اور لبنان کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔”

اسرائیلی عبرانی زبان کے میڈیا نے انہیں “نفسیاتی جنگ کا سردار” قرار دیا، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ نصر اللہ ایسی حکمت عملیوں کا استعمال کرتے تھے جو اسرائیلی عوام کے عمومی تصورات اور خیالات پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے مجاہدین کے حوصلے بلند رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی تھیں، اور ان ہم عصروں  میں کم ہی کوئی ایسا رہنما تھا جو اس قدر زبردست نفسیاتی اثر ڈال سکتا۔

ان میڈیا ذرائع کے مطابق:

“نصر اللہ کی تقریریں نہایت حساب شدہ اور درست تھیں، جو براہ راست دھمکیوں اور اسٹریٹجک ابہام کا ایک منفرد امتزاج تھیں۔ ان کا یہ انداز اسرائیل میں مسلسل اضطراب اور بے چینی کی فضا قائم رکھتا تھا۔”

مثال کے طور پر، جب وہ کہتے: “دشمن کو انتظار کرنا ہوگا” تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ اسرائیلی معاشرے کو مکمل الرٹ موڈ میں ڈال دیتے، بغیر اس کے کہ انہیں کوئی واضح معلومات فراہم کریں کہ حزب اللہ کب، کہاں اور کیسے کارروائی کرے گا۔ اس طرح، وہ اسرائیل کو مسلسل دباؤ میں رکھتے اور اسے ایک نفسیاتی جنگ کے دائرے میں لے آتے۔

آخرکار، کسی براہ راست فوجی مداخلت کے بغیر، نصر اللہ نے نفسیاتی طور پر اسرائیل کے اندر تک رسائی حاصل کر لی تھی، جو کہ ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے انہیں “ایک ماہر اسٹریٹجسٹ اور کرشماتی رہنما” قرار دیا، جن کے بارے میں کہا گیا کہ “لبنان میں ان کے پیروکار، خاص طور پر شیعہ کمیونٹی، ہمیشہ ان کی تعظیم کرتے ہیں، جبکہ دنیا بھر میں لاکھوں عرب اور مسلمان انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔”

ٹائمز آف اسرائیل نے بھی انہیں “کرشماتی رہنما” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ان کی عدم موجودگی خطے کے لیے ایک بڑا واقعہ ثابت ہوگی”