صہیونی ریاست کا جنوبی شام کو الگ کرنے کا منصوبہ

صیہونی حکومت تیسری بار "آلون منصوبہ" کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جسے وہ دروزیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کے طور پر پیش کر رہی ہے، لیکن درحقیقت اس کا مقصد جنوبی شام کو الگ کرنا اور اس ملک کی تقسیم کی راہ ہموار کرنا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صیہونی حکومت تیسری بار “آلون منصوبہ” کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جسے وہ دروزیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کے طور پر پیش کر رہی ہے، لیکن درحقیقت اس کا مقصد جنوبی شام کو الگ کرنا اور اس ملک کی تقسیم کی راہ ہموار کرنا ہے۔
فارس پلس گروپ: “ہم شام میں اپنے دروزی ہمسایوں کی طرف دوستی اور امن کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔” یہ وہ الفاظ تھے جو 8 دسمبر کو دمشق کے سقوط کے چند گھنٹوں بعد نیتن یاہو نے کہے۔ اس کے بعد صہیونی حکام کی جانب سے السویداء صوبے میں رہنے والے دروزیوں کی حمایت کے بیانات کی بھرمار ہوگئی۔ یہ تمام اقدامات تل ابیب کی جانب سے شام میں اپنے پرانے منصوبوں، خاص طور پر جنوبی شام کی تقسیم کو اسرائیل کے مفادات کے مطابق عملی جامہ پہنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
یہ بیانات صہیونی فوج کی جنوبی شام میں عسکری نقل و حرکت کے ساتھ ساتھ عبرانی زبان کے میڈیا کے مطابق علاقے کے کچھ قبائلی عمائدین اور بزرگوں سے ملاقاتوں اور پرکشش معاشی پیشکشوں کے ساتھ آئے۔ ان پیشکشوں میں خاص طور پر دروزی نوجوانوں کے لیے مقبوضہ علاقوں میں کام کے مواقع کی فراہمی اور سرحدوں کو کھولنے کی تجویز شامل تھی۔ اسرائیل، السویداء میں موجود معاشی بحران سے فائدہ اٹھا کر شام کو تقسیم کرنے کے اپنے منصوبے کو عملی شکل دینا چاہتا ہے۔
یہ اسرائیلی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ عرب دنیا کو چھوٹے نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا صیہونی حکومت کی پرانی پالیسی رہی ہے۔ جنوبی شام میں “دروزی ریاست” کے قیام سے لے کر لبنان میں مسیحی اور دروزی علاقوں کے قیام تک، اسرائیل ہمیشہ فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دے کر اپنے لیے مستقبل کے خطرات سے بچنے کی حکمت عملی اپناتا آیا ہے۔
گزشتہ 51 برسوں سے، 1974 میں شام اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اور فوجی علیحدگی کے معاہدے کے بعد سے، شام اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر ہمیشہ سکون رہا ہے۔ یہاں تک کہ نیتن یاہو نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اسرائیل کے مفاد میں نہیں تھا۔ تاہم، جب سے “ابو محمد الجولانی” نے “ہیئت تحریر الشام” کی قیادت سنبھالی ہے، اسرائیل نے اپنے پرانے منصوبے، بشمول شام میں “دروزی ریاست” کے قیام، کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔
اسرائیل کا ماننا ہے کہ جنوبی شام میں ایک دروزی ریاست کا قیام، شام سے لاحق کسی بھی ممکنہ خطرے کے خلاف ایک حفاظتی دیوار ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ، یہ اسرائیل کے خطے میں، خاص طور پر جنوبی شام میں، اثر و رسوخ کے تسلسل کو بھی یقینی بنائے گا۔

“آلون منصوبے” کا احیا

صیہونی تحریک کے آغاز سے ہی، اسرائیل نے “اقلیتوں کے ساتھ اتحاد” کی پالیسی کو اپنایا تاکہ عربوں کے باہمی تعلقات کو کمزور کیا جا سکے اور خطے کو مختلف فرقہ وارانہ اور نسلی گروہوں میں تقسیم کیا جا سکے۔ اس پالیسی کے تحت پیش کیے جانے والے اہم ترین منصوبوں میں سے ایک فلسطین میں آباد دروزیوں کو بے دخل کرکے انہیں جنوبی شام میں منتقل کرنا تھا، تاکہ اسرائیل کے مفادات کے تحت ایک دروزی ریاست قائم کی جا سکے۔
یہ منصوبہ پہلی بار 1939 میں صیہونی تحریک کے رہنماؤں نے پیش کیا، جس کے تحت فلسطین کے الجلیل اور کرمل کے علاقوں میں آباد دروزیوں کو حوران (جنوبی شام) میں بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس منصوبے کا مقصد ان دروزیوں کو وہاں مستقل طور پر آباد کرکے ایک خودمختار ریاست قائم کرنا تھا۔
اسرائیل کے اس سیاسی منصوبے کے اہم ترین معماروں میں “آبا حوشی” شامل تھا، جو اس وقت حیفا کا میئر تھا۔ اس نے دروزی قبیلے کے اس وقت کے رہنما سلطان پاشا الاطرش کو اس منصوبے پر راضی کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں تاکہ اس پر عمل درآمد ممکن ہو سکے۔
یہ منصوبہ دو بنیادی مقاصد کے تحت ترتیب دیا گیا تھا:

الجلیل اور کرمل سے دروزیوں کو بے دخل کرنا تاکہ یہ علاقے یہودی آبادکاروں سے بھرے جا سکیں۔

جنوبی شام (حوران اور جولان) میں ایک دروزی ریاست کا قیام تاکہ یہ اسرائیلی تسلط میں رہے اور دروزیوں کو اسرائیل اور شام کے درمیان ایک “سیکیورٹی بیلٹ” کے طور پر استعمال کیا جا سکے، تاکہ شام کی جانب سے کسی بھی ممکنہ فوجی خطرے کو روکا جا سکے۔

تاہم، یہ صیہونی منصوبہ اس وقت ناکام ہوگیا جب دروزی قبیلے کے رہنما نے اس کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا اور مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا کہ دروزی شام کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔
اسرائیل کی کوششیں جاری رہیں
اسرائیل کی دوسری کوشش 1967 میں جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے بعد سامنے آئی، جب اس نے ایک بار پھر “دروزی ریاست” کے قیام کا منصوبہ پیش کیا۔ اس بار اسرائیل نے عربوں کی خراب صورتحال اور جولان کے باشندوں کی بے دخلی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔

اس منصوبے کے معمار اس وقت کے اسرائیلی وزیر محنت ایگال آلون تھے، جنہوں نے اسے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم لیوی اشکول کی حمایت سے دوبارہ پیش کیا۔
عبرانی اخبار “ہاآرتص” نے اس منصوبے کی تفصیلات ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ:

“اسرائیل کی حکمت عملی یہ تھی کہ دروزیوں کے پہاڑی علاقوں کی جغرافیائی قربت سے فائدہ اٹھایا جائے۔ ایک ایسا علاقہ جو اسرائیل کی سرحد سے صرف 40 کلومیٹر دور تھا اور جس میں بڑی تعداد میں دروزی آباد تھے۔ اس کے ذریعے اسرائیل جنوبی شام میں ایک آزاد دروزی ریاست قائم کرنا چاہتا تھا، جو شام اور اسرائیل کے درمیان ایک بفر اسٹیٹ کا کام دے اور جولان میں اسرائیلی قبضے کو مستحکم کرے۔”
اسرائیلی انٹیلی جنس کے سابق افسر اور دروزی امور کے ماہر شیمون آویوی نے اپنی کتاب “طبق مسی: اسرائیل کی دروزیوں کے حوالے سے پالیسی” میں اس منصوبے کی مزید تفصیلات بیان کیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ 1966 میں جب سویداء صوبے کے دروزی افسران اور شامی فوج کی قیادت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی، تو ایک دروزی افسر سلیم حاطوم پر صدر حافظ الاسد کے خلاف بغاوت کی کوشش کا الزام لگا کر اسے پھانسی دے دی گئی۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایگال آلون نے ایک “انتہائی خفیہ” خط اسرائیلی وزیر اعظم لیوی اشکول کو بھیجا، جس میں تجویز دی گئی کہ:

“سلیم حاطوم کی پھانسی کے بعد ‘جبل دروز’ کے علاقے میں پیدا ہونے والے اضطراب سے فائدہ اٹھایا جائے اور اسرائیل کی حمایت سے ایک آزاد دروزی ریاست قائم کی جائے۔”

یہ منصوبہ دروزیوں کے داخلی انتشار سےآلون کی اسرائیلی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش

ایگال آلون نے لیوی اشکول کو قائل کرنے کے لیے اپنے خط میں لکھا کہ:
“دروزی معاشرے کی خصوصیات، ان کی آبادی، جغرافیائی محل وقوع اور معیشتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، مجھے یقین ہے کہ وہ جلد ہی دمشق کے خلاف بغاوت کرکے اپنی ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ اسرائیل کے لیے ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کرے اور حتیٰ کہ شامی دروزیوں کو فوجی مدد بھی فراہم کرے۔”
لیوی اشکول کی اس منصوبے سے اتفاق کے بعد، آلون نے جولان کے مقبوضہ علاقے میں دروزی قبیلے کے بزرگوں اور عمائدین سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اسرائیل کے موقف سے آگاہ کیا کہ وہ دمشق سے علیحدگی میں ان کی حمایت کرے گا۔ تاہم، اس بار بھی دروزیوں نے اسرائیلی منصوبے کو مسترد کر دیا، جس کے نتیجے میں جنوبی شام میں “دروزی ریاست” کے قیام کی اسرائیلی کوشش ایک بار پھر ناکام ہوگئی۔
اسرائیلی منصوبے کی ناکامی کی دلچسپ کہانی
اس منصوبے کی ناکامی کی ایک دلچسپ تفصیل یہ ہے کہ دروزیوں نے، اسرائیلی سازش کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے، شامی حکومت کو اطلاع دے کر دو نمائندے منتخب کیے۔ ان میں:

کمال کنج – جولان کے علاقے مجدل شمس کے ایک نمایاں دروزی رہنما

کمال ابو لطیف – اس وقت کے شامی فوج کے افسر

ان دونوں افراد نے اٹلی میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے ایک افسر یعقوب سے ملاقات کی اور منصوبے کی تفصیلات حاصل کیں۔
منصوبے کی تفصیلات
یہ منصوبہ جولان سے لے کر الشوف پہاڑیوں تک ایک آزاد دروزی ریاست کے قیام پر مبنی تھا، جس کا دارالحکومت سویداء ہوتا اور اسے اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل ہوتی۔

منصوبے پر ابتدائی لاگت 300 ملین ڈالر رکھی گئی تھی۔
اس میں الجلیل اور کرمل کے دروزیوں کو شام منتقل کرنے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔
شامی ردعمل اور اسرائیلی منصوبے کی ناکامی
دروزی نمائندوں نے اسرائیلی منصوبے کی تمام تفصیلات شامی انٹیلی جنس کو فراہم کر دیں۔ چنانچہ شام نے فوری طور پر مصر، عراق، اور اردن کی افواج کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ محاذ تشکیل دیا تاکہ اسرائیل کو کسی بھی ممکنہ اقدام سے روکا جا سکے۔ اس طرح اسرائیل کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا۔
یہ منصوبہ اسرائیل کے علاقائی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔

آلون منصوبے کو دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش

آج اسرائیل، شام میں بدلتے ہوئے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے پرانے منصوبوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اشتعال انگیز بیانات دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ جنوبی دمشق کے علاقے کو “غیر فوجی زون” میں تبدیل کیا جائے۔ اس نے زور دے کر کہا:
“ہم ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ نئی شامی فوج اس علاقے میں تعینات ہو، اور ہم جنوبی شام میں دروزیوں کے خلاف کسی بھی ممکنہ خطرے کو قبول نہیں کریں گے۔”
اس بیان کے فوراً بعد، اسرائیلی وزرا نے بھی اسی نوعیت کے بیانات دینا شروع کر دیے۔

اسرائیل کاتز (اسرائیلی وزیر جنگ) نے واضح کیا:

“اسرائیلی فوج نئی شامی فوج کو جنوبی شام کے سیکیورٹی زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔”
وزیر جنگ کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل “علاقے میں اپنے دوست گروہوں، خاص طور پر دروزیوں” کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے اور انہیں اسرائیل کے دروزیوں کا “بھائی” قرار دیتا ہے، جو اسرائیل کے شانہ بشانہ لڑتے ہیں۔

گیدون سار (وزیر خارجہ اسرائیل) نے اس سے بھی زیادہ سخت مؤقف اپنایا اور کہا:

“ایک مستحکم شام صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ مختلف خودمختار خطوں پر مشتمل ایک وفاق (فیڈریشن) بن جائے۔”
سار نے مزید کہا کہ اسرائیل شام کی تقسیم کے منصوبوں کی حمایت کرتا ہے اور دعویٰ کیا کہ جولانی حکومت علویوں سے بدلہ لے رہی ہے اور کردوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

سیاسی اقدامات کے ساتھ عملی اقدامات بھی جاری

اسرائیل کی سیاسی کوششوں کے ساتھ ساتھ زمینی سطح پر بھی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی ٹی وی چینل “کان” نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی وزارت جنگ ایک ایسا منصوبہ تیار کر رہی ہے جس کے تحت شامی دروزی مزدوروں کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
اسرائیلی وزارت جنگ کے مطابق، یہ قدم شامی دروزیوں کی درخواست پر اور شام میں بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے پیش نظر اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ مزدور مقبوضہ جولان کی صہیونی بستیوں میں کام کریں گے۔

منصوبے کی تفصیلات

ابتدائی مرحلے میں، درجنوں شامی دروزی مزدور جولان کے دروزی دیہات میں تعمیراتی اور زرعی شعبوں میں کام کے لیے بھرتی کیے جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دروزیوں کو اسرائیل کے قریب کرنے اور جنوبی شام میں اسرائیل کے لیے ایک مضبوط بنیاد بنانے کی کوشش ہے۔
اسرائیلی اخبار “اسرائیل الیوم” نے ایک خفیہ ذریعے کے حوالے سے انکشاف کیا کہ:

“اسرائیلی جنرل غسان علیان نے جنوبی شام کے دروزی رہنماؤں سے ملاقات کی تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کیا جا سکے۔”

اسرائیل الیوم مزید لکھتا ہے کہ:

اسرائیل نے شامی مزدوروں کو 75 سے 100 ڈالر یومیہ اجرت کی پیشکش کی ہے۔

مزدور صبح اسرائیل میں کام کے لیے داخل ہوں گے اور شام کے وقت واپس شام چلے جائیں گے۔

ان کے لیے خصوصی ورک پرمٹ جاری کرنے کی ذمہ داری اسرائیلی فوج کی ہوگی۔

جنوبی شام کے عوام کا ردعمل

یہ منصوبہ ایسے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے جب اسی اخبار نے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ جنوبی شام کے کئی دیہات اور قصبوں نے اسرائیلی انسانی امداد لینے سے انکار کر دیا تھا۔

اسرائیلی منصوبے کی وسیع پیمانے پر مخالفت

یہ بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ صہیونی ریاست ایک بار پھر “دولت دروزی” کے قیام کے منصوبے کو نافذ کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جو درحقیقت شام کو تقسیم کرنے کا آلون منصوبہ ہے۔ تاہم، سویدا کے عوام نے ایک بار پھر ہوشیاری اور بیداری کا مظاہرہ کیا ہے۔
گزشتہ دنوں، جیسے ہی نیتن یاہو نے جنوبی شام کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات دیے، عوام نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کرکے واضح کر دیا کہ وہ اس منصوبے کو ناکام بنائیں گے۔ اسرائیل کو جنوبی شام میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں اب بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

شامی عوام اور دروزی برادری کا سخت ردعمل

نیتن یاہو کے بیانات کے چند گھنٹوں بعد ہی، شیخ سلیمان عبدالباقی (رہنما :جبل العرب) نے ایک بیان میں جولانی اور اس کی حکومت کے بزدلانہ مؤقف کی مذمت کی اور کہا:

“شامی عوام، بشمول دروزی برادری، اپنے ملک میں کسی بھی غیر ملکی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ:

“دروزی اپنی قومی شناخت اور شام سے وفاداری پر قائم ہیں اور کسی بھی تقسیم یا علیحدگی کے منصوبے کو قبول نہیں کریں گے۔”

سویدا کے عوام کا مظاہرہ

سویدا شہر کے دروزیوں نے میدان الکرامہ میں ایک عظیم الشان احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرین نے نیتن یاہو کے بیانات کی سخت مذمت کی اور شام کی تقسیم کے اسرائیلی منصوبوں کو مسترد کر دیا۔

آلون منصوبے کی تیسری ناکامی؟

سویدا کے عوام، خاص طور پر الجبل کے رہائشیوں کی سخت مخالفت اور دروزیوں کے واضح مؤقف کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل تیسری بار بھی آلون منصوبے کو نافذ کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔