حزب اللہ جنگ بندی کی خلاف ورزی پر کب تک خاموش رہے گا؟

صہیونی ریاست کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی پر حزب اللہ کی خاموشی مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا سیاسی اور عسکری معمہ بن چکی ہے۔

فاران: صہیونی ریاست کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی پر حزب اللہ کی خاموشی مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا سیاسی اور عسکری معمہ بن چکی ہے۔
فارس نیوز ایجنسی کے سیاسی نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد طے پانے والی جنگ بندی بظاہر خطے میں امن کا موقع فراہم کر رہی تھی، لیکن صہیونی ریاست کی بار بار کی جانے والی خلاف ورزیوں نے خطے میں نئی تشویش کو جنم دیا ہے۔ اس دوران، اسرائیل کی مسلسل خلاف ورزیوں پر حزب اللہ کی خاموشی مشرق وسطیٰ میں ایک بڑا سیاسی اور عسکری معمہ بن چکی ہے۔ بہت سے تجزیہ نگار اور مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اسرائیل اور مغربی حمایت کے خلاف ڈٹ جانے والی تنظیم حزب اللہ آخر کب تک جنگ بندی کی خلاف ورزی پر خاموش رہے گی؟

حزب اللہ کی پائیدار مزاحمت

لبنانی کی حزب اللہ تنظیم کئی جنگوں سے گزری ہے، نہ صرف اسرائیل کے خلاف بلکہ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ جنگوں کے خلاف بھی۔ 2024 میں، حزب اللہ کے خلاف ایک شدید اور بے رحم جنگ چھیڑ دی گئی، جس میں صہیونی ریاست اور مغربی قوتوں نے اپنی پوری طاقت لگا دی۔ اس جنگ کا بنیادی مقصد حزب اللہ کی عسکری طاقت کو ختم کرنا اور خطے میں صہیونی ریاست کی پوزیشن کو مستحکم کرنا تھا، لیکن آخرکار، صہیونی ریاست کو جنگ بندی قبول کرنا پڑی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ حزب اللہ نے انسانی اور مادی نقصان اٹھایا، لیکن اس نے اپنی طاقت کو واضح طور پر برقرار رکھا اور جنگ بندی سے قبل آخری لمحات تک صہیونی شہروں پر میزائل داغتی رہی۔

حزب اللہ کی خاموشی؛ ایک حکمت عملی

حزب اللہ اسرائیلی خلاف ورزیوں پر خاموش کیوں ہے؟ اس خاموشی کی ایک اہم وجہ، جیسا کہ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے بیان کیا، یہ ہے کہ لبنانی مزاحمت ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت جواب دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ان کے مطابق، حزب اللہ خود فیصلہ کرے گی کہ کب اور کیسے ردعمل دکھانا ہے، اور یہ فیصلے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت میں، یہ خاموشی زیادہ تر اپنی عسکری قوت کی بحالی اور مزاحمتی صفوں کو منظم کرنے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔

لبنان کی نئی حکومت کو موقع دینا

لبنانی تجزیہ کار حسین قبیسی کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کی خاموشی کی ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی عسکری طاقت کو بحال کرنے اور لبنانی عوام کو خود انحصاری کا موقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مزاحمت نے نئی حکومت، نئے صدر اور نئی قیادت کو موقع دیا ہے کیونکہ ان پر جنگ اور اس کے بعد شدید دباؤ تھا کہ وہ اسرائیل کو سفارتی ذرائع سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر سکتے ہیں اور امریکی تعلقات کا فائدہ اٹھا کر لبنان کو اسرائیلی حملوں سے بچا سکتے ہیں۔

لبنانی حکومت کے چیلنجز اور حزب اللہ کا ردعمل

اب نئی لبنانی حکومت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ وہ لوگ جو پہلے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ سفارتی تعلقات کے ذریعے اسرائیل کو پیچھے ہٹایا جا سکتا ہے، اب حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں کہ ان کے وعدے ناکام ہو چکے ہیں۔ اسرائیل مسلسل اپنی جارحانہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ بندی کے معاہدے کی بھی پاسداری نہیں کر رہا۔
یہ صورتحال لبنان کی حکومت پر شدید دباؤ ڈال رہی ہے اور خاص طور پر حزب اللہ کو ایک فیصلہ کن مرحلے میں لے آئی ہے، جہاں اسے اپنی آئندہ حکمت عملی کا تعین کرنا ہوگا۔
اگر اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور خطے میں دشمنی کی پالیسی جاری رکھتا ہے، تو حزب اللہ کی حکمت عملی میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل اسی رویے پر قائم رہا تو حزب اللہ اپنی خاموشی توڑ کر سخت ردعمل دکھا سکتا ہے۔

حزب اللہ کا آئندہ لائحہ عمل

ایسا لگتا ہے کہ حزب اللہ کی خاموشی ایک عسکری اور سیاسی حکمت عملی ہے تاکہ لبنانی حکومت اور فوج کو اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے کا موقع ملے۔ لیکن اگر اسرائیل اپنی دشمنی جاری رکھتا ہے، تو لبنان کے مزاحمتی محاذ میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ حزب اللہ کبھی ہتھیار نہیں ڈالے گا اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں شدت لاتا ہے، تو خطے میں ایک نیا معرکہ چھڑ سکتا ہے، اس لئیے کہ حزب اللہ ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں رہے گی۔