فاران: صہیونی حکومت نے دمشق کے سقوط کے بعد سے جنوب مغربی شام میں ایک نئی سیکیورٹی دیوار بنانے کی کوشش کی ہے، جس کی بنیاد ایک چار جہتی حکمت عملی پر ہے۔
فارس پلس گروپ: 8 دسمبر 2024 کو دمشق کے سقوط کے بعد، اسرائیل نے تیزی سے سیکیورٹی خلا اور شام میں اچانک تبدیلی کا فائدہ اٹھایا تاکہ جنوب مغربی شام میں ایک نئی سیکیورٹی حکمت عملی ترتیب دے سکے۔ اس حکمت عملی کا مقصد اسرائیلی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنا اور مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں کے آس پاس کے علاقوں سمیت قابض علاقوں کو وسعت دینا ہے۔
تل ابیب اور شام کے نئے حکمرانوں کے دعووں کے باوجود کہ اسرائیلی قبضہ عارضی ہے، جنوبی شام میں صہیونی نقل و حرکت اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسرائیل طویل المدتی بلکہ ممکنہ طور پر مستقل قیام کا ارادہ رکھتا ہے۔ دسمبر 2024 سے اب تک، شام میں اسرائیل کی حکمت عملی درج ذیل چار نکات پر مرکوز رہی ہے:
🔺 علاقوں پر قبضے کی توسیع: شام اور اسرائیل کے درمیان عازلہ (بفر) علاقوں پر قبضہ اور ان سے آگے شامی سرزمین میں پیش قدمی، جس میں ان علاقوں سے آگے بڑھنا بھی شامل ہے۔
فوجی موجودگی کا استحکام: عازلہ علاقے کے اندر اور باہر فوجی اڈے اور مراکز قائم کرکے اسرائیلی فوجی اثر و رسوخ کو مضبوط کرنا۔
نام نہاد “سیکیورٹی زون” کا نفاذ: اسرائیل ان زونز کو شام کے نئے حکمرانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو جنوبی شام سے دمشق کے اطراف تک پھیلے ہوئے ہیں اور اسرائیل کے لیے ایک “سیکیورٹی بیلٹ” کے طور پر کام کریں گے تاکہ کسی بھی خطرے کو ختم کیا جا سکے۔
بمباری میں شدت: فضائی حملوں میں اضافے کے ذریعے شامی فوجی صلاحیتوں کو مزید تباہ کرنا اور اس ملک کی نئی حکومت کو عسکری لحاظ سے کمزور بنانا۔
یہ رپورٹ ان اقدامات کی تفصیلات کو نقشے اور آزاد ذرائع کی مدد سے جانچتی ہے، کیونکہ یہ اقدامات اسرائیل کی شام سے متعلق سیاسی حکمت عملی میں ایک اہم اور بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
شام اور اسرائیل کے درمیان بفر زون پر قبضہ
دمشق کے سقوط کے چند گھنٹے بعد، اسرائیل نے شام اور مقبوضہ فلسطین کے درمیان واقع بفر زون میں پیش قدمی شروع کی۔ یہ اس علاقے میں گزشتہ 50 سالوں میں اسرائیل کی پہلی پیش قدمی تھی، جس کے ذریعے اس نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
شام اور اسرائیل کے درمیان یہ بفر زون 1973 کی اکتوبر جنگ کے بعد 1974 کے معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد دونوں فریقین کے درمیان ایک حد فاصل بنانا تھا۔ اس علاقے میں دو لائنیں موجود ہیں:
“الفا لائن” جو مقبوضہ جولان کی طرف یعنی اسرائیلی جانب واقع ہے۔
“براوو لائن” جو شام کی جانب بفر زون کے اندر واقع ہے۔
اس علاقے میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی جنگ بندی کی نگرانی کرنے والی کثیر القومی فورس (UNDOF) تعینات ہے۔
بفر زون تقریباً 80 کلومیٹر لمبا اور 10 کلومیٹر چوڑا ہے، تاہم اس کی چوڑائی ہر جگہ یکساں نہیں ہے اور بعض مقامات پر یہ مسکونی علاقوں سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر آ جاتا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ علاقہ 235 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
اسرائیل کے قبضے کے بعد، اس علاقے کو 1,170 مربع کلومیٹر پر مشتمل مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں میں ضم کر دیا گیا، جس سے شام کے اسرائیل کے زیر قبضہ کل رقبے کا حجم 1,860 مربع کلومیٹر تک پہنچ گیا۔
یہ بفر زون رہائشی علاقوں پر مشتمل ہے، جن میں قنیطرہ شہر اور متعدد دیہات شامل ہیں، اس کے علاوہ یہاں پہاڑی علاقے بھی موجود ہیں، جن میں شام اور لبنان کے درمیان واقع اسٹریٹجک جبل الشیخ کی بلندی بھی شامل ہے۔ اسرائیل نے یہ علاقہ بھی دمشق کے سقوط کے چند گھنٹوں بعد قبضے میں لے لیا۔
بفر زون میں اسرائیلی فوجی موجودگی میں اضافے اور صہیونی حکام کے بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیل ان نئے قبضہ شدہ علاقوں سے پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
فوجی اڈوں کی تعمیر اور دفاعی مقامات کا قیام
اسرائیل نے جنوبی شام کے علاقوں، بشمول بفر زون پر قبضہ کرنے کے بعد، ایک نئی سیکیورٹی حقیقت قائم کرنے کی کوشش کی، جس کے تحت اس نے متعدد فوجی اڈے اور دفاعی مقامات تعمیر کیے، جن میں سے زیادہ تر بفر زون کے اندر واقع ہیں۔
دسمبر 2024 سے 21 مارچ 2025 کے درمیان، اسرائیل نے ان علاقوں میں 9 فوجی اڈے قائم کیے، جن میں 7 اڈے بفر زون کے اندر ہیں اور شمالی بفر زون سے جبل الشیخ کے جنوب تک پھیلے ہوئے ہیں۔
بفر زون کے باہر بھی 2 فوجی اڈے تعمیر کیے گئے:
پہلا “تل الاحمر” کے قریب کودنہ گاؤں کے مشرق میں، جو بفر زون کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔
دوسرا “معربہ” گاؤں کے قریب، جو بفر زون کے جنوبی علاقے میں ہے۔
اسرائیلی فوجی سرگرمیاں صرف فوجی اڈے اور مراکز بنانے تک محدود نہیں رہیں، بلکہ یہ میدانی آپریشنز میں اضافے، جیسے ہیلی بورن آپریشنز (ہوائی دستے اتارنے) اور زمینی پیش قدمیوں پر بھی مشتمل تھیں۔
اسرائیلی قومی سلامتی کے مطالعاتی مرکز کے مطابق، دسمبر 2024 سے مارچ 2025 کے درمیان، اسرائیلی فوج نے کم از کم 34 فوجی آپریشنز بفر زون کے اندر اور باہر انجام دیے۔
اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کا دائرہ بفر زون سے 7 کلومیٹر اندر شام تک پھیلا ہوا تھا۔
ایک نمایاں واقعہ 4 مارچ 2025 کو پیش آیا، جب اسرائیلی فوج نے تل المال کے علاقے (شمالی درعا کے مضافات) میں ہیلی بورن آپریشن انجام دیا، جس کا مقصد فوجی مقامات اور تنصیبات کی تلاشی لینا تھا۔
تل المال کا علاقہ:
7 کلومیٹر کے فاصلے پر بفر زون کے قریب ترین نقطے سے واقع ہے۔
16.2 کلومیٹر کے فاصلے پر مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں سے ہے۔
یہ 22 مارچ 2025 تک اسرائیل کی شامی سرزمین میں سب سے زیادہ اندرونی پیش قدمی کی حد سمجھی جاتی تھی۔
جنوبی شام میں سیکیورٹی زون کا قیام
دمشق کے سقوط کے بعد سے جنوبی شام میں اسرائیل کی تمام سرگرمیاں یہ واضح کرتی ہیں کہ وہ شامی سرزمین سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس بات کی تصدیق اسرائیلی وزیر جنگ اسرائیل کاتز نے 11 مارچ 2025 کو جبل الشیخ کے اسٹریٹجک علاقے کے دورے کے دوران کی۔ انہوں نے اسرائیل کی نئی پالیسی کا ذکر کیا، جس کے تحت جنوبی شام میں ایک سیکیورٹی زون بنایا جائے گا اور اسے شام پر مسلط کیا جائے گا۔
کاتز کے مطابق، جنوبی شام میں اسرائیلی سیکیورٹی زون دو اہم حصوں پر مشتمل ہے:
پہلا حصہ: بفر زون
یہ وہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 8 دسمبر 2024 کے بعد قبضہ کر لیا تھا۔ اندازہ ہے کہ اس علاقے میں تقریباً 40 ہزار شامی شہری آباد ہیں۔ اسرائیل اس علاقے میں فوجی اڈے اور مراکز قائم کر رہا ہے تاکہ اپنی سیکیورٹی کو یقینی بنائے۔
عبرانی اخبار “ہاآرتز” نے 11 مارچ 2025 کو اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج بفر زون کے ساتھ مزید فوجی اڈے اور دفاعی مقامات قائم کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔
دوسرا حصہ: 15 کلومیٹر کا گہرا حفاظتی علاقہ
یہ علاقہ اسرائیلی سرحدی باڑ سے لے کر شامی سرزمین کے اندر 15 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیل نے شامی فوج اور سیکیورٹی فورسز کو اس علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
یہی وہ علاقہ ہے جہاں اسرائیل نے شدید اور وسیع پیمانے پر بمباری کی ہے۔ اس بمباری کا مقصد شامی فوج کے اڈوں، دفاعی مراکز، اور اسلحے کے ذخائر کو تباہ کرنا ہے
تیسرا سیکیورٹی زون: “اثر و رسوخ کا علاقہ
اسرائیل کی جانب سے جنوبی شام میں قائم کردہ دو سیکیورٹی زونز کے علاوہ، ایک تیسرا زون بھی موجود ہے، جسے اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اثر و رسوخ کا علاقہ کہا جا رہا ہے۔ اسرائیل اس علاقے کو جنوبی شام میں ایک نیا زمینی حقیقت بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق، اسرائیل اس علاقے میں مختلف فوجی اور سیکیورٹی اقدامات پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے، جن میں مندرجہ ذیل اہم ہیں:
نئی شامی فوج کو اس علاقے میں دور مار ہتھیار، جیسے میزائل لانچر رکھنے سے روک دیا جائے گا۔
اس علاقے میں فوجی اور سیکیورٹی فورسز کی بجائے صرف شامی پولیس کو تعینات کرنے کی اجازت دی جائے گی۔
فروری 2025 میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح طور پر کہا تھا کہ اسرائیل جنوبی شام میں کسی بھی شامی فوجی یا سیکیورٹی فورسز کی موجودگی کی اجازت نہیں دے گا۔
نیتن یاہو نے “غیر فوجی علاقے” (یا درحقیقت “غیر مسلح زون”) کی تشکیل کا مطالبہ کیا، جو شام کے تین جنوبی صوبوں پر مشتمل ہوگا:
قنیطرہ
درعا
السویداء
یہ تینوں صوبے مجموعی طور پر 11,140 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہیں اور جنوبی شام میں واقع ہیں۔
شام کو کمزور کرنے کے لیے فضائی حملوں میں شدت
فضائی حملے اسرائیل کی موجودہ شام میں فوجی حکمت عملی کی بنیاد ہیں۔
تل ابیب فضائی حملوں کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ:
شامی فوج کی طاقت اور عسکری صلاحیت کو کمزور کیا جا سکے۔
شامی فوج کی دوبارہ تعمیر کو روکا جا سکے۔
جنوبی شام میں اپنے سیکیورٹی زونز کو مضبوط کیا جا سکے۔
حملوں میں شدت
اوپن سورس ڈیٹا کے مطابق، جن میں “مسلح تنازعات کے علاقے کا ڈیٹا سیٹ” (ACLED)، “انٹرنیشنل کرائسس گروپ”، اور Sami-r Map شامل ہیں، دمشق کے سقوط کے بعد اسرائیل کے فضائی حملے بے مثال شدت اختیار کر گئے۔
8 دسمبر 2024 کو دمشق کے سقوط کے چند گھنٹے بعد، اسرائیل نے شام پر سب سے شدید فضائی حملہ کیا۔دمشق حکومت کے زوال کے 48 گھنٹوں کے اندر، اسرائیل نے شام کی 70 سے 80 فیصد اسٹریٹجک عسکری صلاحیتوں کو تباہ کر دیا۔دسمبر 2024 میں، اسرائیل نے سال بھر میں سب سے زیادہ فضائی حملے کیے۔ ACLED کے مطابق، 2024 میں شام پر اسرائیل کے ایک تہائی سے زائد حملے دمشق کے سقوط کے فوراً بعد ہوئے۔500 سے زائد فضائی حملے 48 گھنٹوں میں
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق:
دمشق کے سقوط کے پہلے 48 گھنٹوں میں، اسرائیل نے کم از کم 500 فضائی حملے کیے۔
اسرائیلی فوج کے مطابق:
ان میں سے تقریباً 350 حملے اسرائیلی جنگی طیاروں نے کیے۔
دمشق، حمص، طرطوس، لاذقیہ، اور تدمر میں اہم عسکری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔
فضائی حملوں کا دائرہ مزید وسیع
اس کے بعد، اسرائیل نے فضائی حملوں کا دائرہ مزید بڑھا دیا تاکہ مزید جغرافیائی علاقوں کو نشانہ بنایا جا سکے، بشمول:
دمشق کے مضافات
درعا
حلب
حملوں کے اہداف
اسرائیلی فضائی حملے درج ذیل اسٹریٹجک مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں:
✔ اسلحہ کے ذخائر
✔ فوجی ہوائی اڈے، خصوصاً فضائیہ کے مراکز
✔ ریڈار سسٹمز
✔ جنگی بحری جہاز
✔ بندرگاہیں
✔ تحقیقی مراکز
شہری ہلاکتیں اور نئی زمینی حقیقت کی تخلیق
بعض فضائی حملوں میں شامی فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں متعدد شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
اسرائیل کے مسلسل فوجی آپریشنز یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تل ابیب صرف اپنی “سیکیورٹی خدشات” کی بنیاد پر کام نہیں کر رہا، بلکہ وہ جنوبی شام کا سیکیورٹی نقشہ ازسرنو ترتیب دینے، زمینی قبضے کو وسعت دینے، اور نئی زمینی حقیقتیں تخلیق کرنے کے ایک وسیع منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں