غزہ کے خونی دن اور دنیا کی خاموشی
فاران: عالمی برادری بالخصوص عرب اور اسلامی ممالک نے غزہ کے بحران پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ خاموشی نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ خاموش رہنے والا صہیونیوں کے جرائم میں بھی شریک ہے۔
غزہ کی پٹی، جہاں ہر روز دھماکوں اور فضائی حملوں سے زمین ہل جاتی ہے، وہ ایک تباہی کے مرکز میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہاں نہ صرف کھنڈرات باقی ہیں بلکہ زندگی کے ملبے تلے دبی امیدیں بھی ہیں۔ ایک کرائسس فوٹوگرافر کے طور پر، میں نے مختلف بحرانوں کی تصویر کشی کی ہے، لیکن غزہ ابھی تک میرے لیے براہ راست تجربہ نہیں ہے۔ اس میدان میں فوٹوگرافر اور صحافی ساتھیوں کی تصاویر کے ذریعے جو واضح طور پر نظر آتا ہے وہ ایک ایسا جرم ہے جس کی عصری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
ان بحرانوں کے دل میں قدم رکھنے والے فوٹوگرافروں اور صحافیوں کو خود نشانہ بنایا گیا اور سچائی کو دنیا تک پہنچانے کے لیے اپنے پیشے کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ ان عظیم لوگوں میں سے بہت سے تاریخی اور پھر بھی تلخ لمحات کو ریکارڈ کرنے کے لیے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ یہ تصاویر نہ صرف اہل غزہ کے دکھ اور درد کی گواہی ہیں بلکہ اس سرزمین کے دل کی خاموش چیخوں کو دنیا کے کانوں تک پہنچاتی ہیں۔
غزہ میں آج صرف جنگ جاری ہے۔ یہ ایک نسل کشی ہے۔ ان تاریک دنوں میں ہر دھماکے اور بم دھماکے سے معصوم جانوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ غزہ کے لوگ ہر روز تباہی کے درمیان جی رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان کی زندگی بقا کی جدوجہد سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
صحافیوں اور فوٹوگرافروں کی طرف سے یہ تصاویر کھینچے جانے کے باوجود، ان سانحات پر عالمی خاموشی کسی بھی چیز سے زیادہ حیران کن ہے۔ عالمی برادری بالخصوص عرب اور اسلامی ممالک اس بحران کے سامنے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ خاموشی نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ وہ ان جرائم میں ملوث ہے۔ جب کہ فوٹوگرافرز اور رپورٹرز حقیقت کو ریکارڈ کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں، ہمیں، دور سے دیکھنے والے مبصرین کے طور پر، خاموشی کو توڑنا چاہیے اور ان خاموش چیخوں کو دنیا کو سنانا چاہیے۔
ان جرائم کے خلاف عالمی خاموشی نہ صرف ظلم ہے بلکہ عصری تاریخ کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کے سامنے بے بسی کی علامت بھی ہے۔ غزہ کو آج انسانی امداد سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان جرائم کو روکنے کے لیے ان لوگوں کو عالمی عزم کی ضرورت ہے۔ اس سانحے سے لاتعلقی بذات خود ایک جرم ہے جس میں ہم شریک ہو جاتے ہیں۔
صحافیوں اور فوٹوگرافروں کا کام صرف تصویریں کھینچنا نہیں ہے۔ ان کا پیشہ انسانی ذمہ داری ہے۔ غزہ سے ریکارڈ ہونے والی ہر تصویر نہ صرف ایک دستاویزی فلم ہے بلکہ ایک فریاد بھی ہے جو دنیا کے کانوں تک ضرور پہنچتی ہے۔ ان جرائم کے سامنے خاموشی بذات خود ایک جرم ہے۔ اور آخر میں امام حسین علیہ السلام کے لافانی الفاظ میں جو فرماتے ہیں: “اگر تمہارا کوئی دین نہیں تو کم از کم آزاد ہو جاؤ۔”
ہمیں مظلوموں کا حق مانگنا چاہیے۔ آئیے خاموشی کو توڑیں، غزہ کے لوگوں کی آواز کو سنائیں اور جب تک یہ جرائم بند نہیں ہوتے ڈٹے رہیں۔
بقلم محمد مھدی دارا
تبصرہ کریں