صہیونیت مخالف پروفیسر احسان باگبی کا تعارف

پروفیسر باگبی ایک انتہا پسند مسلمان ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ: "آخرکار ہم [مسلمان] کبھی بھی اس ملک [امریکہ] کے مکمل شہری نہیں بن سکتے کیونکہ کسی صورت میں بھی مکمل طور پر اس ملک کے قوانین اور عقائد و نظریات کے پابند نہیں ہوسکتے"۔

فاران؛ کچھ عرصہ قبل ایک کتاب بعنوان “101 خطرناک پروفیسرز” امریکہ میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع چند سال پہلے امریکہ میں یہودی مصنف ڈیوڈ ہاروویٹز (1) کی کتاب بعنوان “101 خطرناک پروفیسر” (2) شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع 101 امریکی پروفیسروں کا تعارف ہے جن کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنی کلاسوں اور کتابوں میں میں ہالوکاسٹ اور یہودیت کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی دوسری یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو خبردار کیا گیا کہ “چونکہ ان لوگوں نے سرخ لکیروں کو عبور کرلیا ہے، چنانچہ ان کی کاوشوں سے استفادہ نہ کیا جائے؛ [گویا وہ کہنا چاہتے تھے کہ] جب آزادی لامحدود ہوجائے، تو یہ بجائے خود خطروں کا باعث بنتی ہے اور آخرکار یہ آزادی مخدوش ہوجائے گی۔ ذیل کا متن یہودیوں کے ہاں کے 101 خطرناک پروفیسروں میں سے ایک، یعنی پروفسور احسان باگبی (3)، کے تعارف پر مشتمل ہے۔
– جامعۂ کینٹاکی (4)
– جامعۂ کینٹاکی میں اسلامیات کے پروفیسر
– سیکریٹری جنرل اسلامی سوسائٹی شمالی امریکہ (5)
ریاست کلیولینڈ (6) کے شہر اوہائیو (7) میں پیدا ہوئے ہیں۔ انھوں نے اوبرلن کالج (8) سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور بعدازاں مطالعۂ مشرق قریب کے شعبے میں ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری مشیگن یونیورسٹی (9) سے حاصل کی۔
مبینہ خطرناک پروفیسروں میں سے بعض افراد کے بارے میں تحقیق کرنے والے پروفیسر باگبی ایک انتہا پسند مسلمان ہیں جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ: “آخرکار ہم [مسلمان] کبھی بھی اس ملک [امریکہ] کے مکمل شہری نہیں بن سکتے کیونکہ کسی صورت میں بھی مکمل طور پر اس ملک کے قوانین اور عقائد و نظریات کے پابند نہیں ہوسکتے”۔
سنہ 2001ء میں پروفیسر باگبی نے اپنے جامع مطالعات [تحقیقات] کا مجموعہ ایک کتاب کی صورت میں منتشر کیا جس کا عنوان تھا: “امریکہ میں مسجد، ایک قومی تصویر” (10) شائع کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان سیاسی اور مذہبی لحاظ سے اعتدال پسند ہیں۔ اپریل 2004ء میں انھوں نے کتاب “ڈیٹرائٹ مساجد کی تصویر: پالیسی، سیاست اور مذہب کے بارے میں مسلم نقطہ نظر” (11) لکھ لی؛ جو ایک سروے رپورٹ کی معطیات کی تشریح پر مشتمل ہے جس کا اہتمام ڈیٹرائٹ کی اسلامی تنظیم بنام “انسٹی ٹیوٹ برائے سماجی پالیسی و مفاہمت” (12) نے کیا تھا۔ باگبی کی کاوشیں پڑھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ “سیاست کے مسائل اور دین و سیاست کے بارے میں امریکی مسلمانوں کی غالب اکثریت اعتدال پسندانہ رائے کی حامل ہے۔
جان پارانزو مزید لکھتا ہے: پروفیسر باگبی نے ایک پریس انٹرویو میں کہا کہ “سروے کے نتائج سے معلوم ہؤا کہ مسجد انتہاپسندی کی جگہ نہیں ہے لیکن جیسا کہ اسلام کے محقق ڈانیل پائپس (13) نے لکھا ہے: “پروفیسر باگبی کا تجزیہ ان کے مالی حامیوں کے ذریعے ایک تحریف شدہ سروے کے ایک حصے کی ترجمانی کرتا ہے، جنہوں نے اصل نتائج کو چھپانے کی کوشش کی ہے؛ یہ ایک فکری جعل سازی اور ایک سیاسی فریب ہے”۔
پارانزو لکھتا ہے: “اس سروے نے درحقیقت واضح کیا کہ اس میں اپنی رائے دینے والے مسلمانوں کی رائے یہ تھی کہ “امریکہ ایک غیر اخلاقی ملک ہے”، اس سروے کے 80٪ شرکاء نے ان ممالک میں شریعت کے نفاذ کی حمایت کی تھی جہاں مسلمانوں کی اکثریت نہیں ہے”۔
پارانزو کے بقول، پروفیسر باگبی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے اور بےباکانہ تحقیقات کے علاوہ شمالی امریکی مسلم اتحاد (14) کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔ یہ تنظیم عام طور پر افریقی-امریکی باشندوں پر مشتمل ہے اور اس کا انتظام سنہ 1993ء میں عالمی تجارتی مرکز پر بم حملے کے ایک مشتبہ رکن سراج وہاج (15) کے ہاتھ میں ہے۔
پارانزو مزید لکھتا ہے: مرکز کے سرکاری امور کے ڈائریکٹر جوہری عبدالمالک (16) نے اپریل 2004ء میں اسرائیل مخالف مظاہرے کے دوران کہا تھا کہ “حماس کے اس وقت کے [شہید] قائد شیخ احمد یاسین کو “ایک اپاہج شخص” شخص قرار دیا تھا جو “ویل چیئر” پر بیٹھے ہیں”۔
پارانزو کے بقول: پروفیسر باگبی امریکی-اسلامی تعلقات کونسل (17) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن بھی ہیں۔ اس بورڈ نے سنہ 1998ء میں بروکلین کالج میں منعقدہ ایک اجتماع کی مالی حمایت کی۔ اس اجتماع کے [پارانزو کے بقول] تشدد پسند مقررین نے جہاد کی حمایت کی اور یہودیوں کو “سوروں اور بندروں” سے تشبیہ دی۔
نومبر 1999ء میں CAIR کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے سربراہ عمر احمد نے شکاگو کے بعض سامعین و حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: “آزادی کے لئے جدوجہد، اسلام کے لئے جدوجہد خودکشی نہیں ہے؛ وہ اسلام کی خاطر قتل کرتے ہیں”۔ [شاید فلسطینیوں کی شہادت طلبانہ کاروائیوں کی طرف اشارہ تھا]۔
پروفیسر باگبی شمالی اسلامی سوسائٹی شمالی امریکہ کے مشاورتی بورڈ کے رکن بھی ہیں، جو امریکی مساجد میں الہی-وہابی احکام کے نفاذ کا ذمہ دار ہے۔ اسلامی سوسائٹی شمالی امریکہ [مبینہ] “قانونِ حب الوطنی” (18) کو مسلمانوں کی توہین سمجھتی ہے؛ نیز اس تنظیم نے 14 مئی 2005ء کو منعقد ہونے والی “انسداد دہشت گردی” کے نام پر ہونے والی ریلی میں شرکت نہ کرنے اور اس ریلی کی تائید نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحقیق: جان پارانزو (John Pranzo)
ترجمہ: ابو اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. David Horiwitz
2.101 Dangerous Proffesors in America
3. Professor Ihsan Bagby
4. University of Kentucky
5. Islamic Society of North America [ISNA]
6. Cleveland
7. Ohio
8. Oberlin College
9. University of Michigan
10. The Mosque in America, A National Portrait
11. A Portrait of Detroit Mosques: Muslim Views on Policy, Politics and Religion
12. Institute for Social Policy and Understanding
13. Daniel Pipes
14. Muslim Alliance in North America [MANA]
15. Siraj Wahhaj
16. Imam Johari Abdul Malik
17. Council on American-Islamic Relations [CAIR]
18. Patriot Act