فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ فتنوں کا دور ہے خونیں جھڑپوں کا دور ہے ایک دوسرے کو گرا کر اوپر اٹھنے کا دور ہے ۔مذہبی منافرت کا زہر ہر سو گھل چکا ہے ہم سب پر لازم ہے کہ متحد ہو کر دشمن کے خلاف اپنی صفوں کو مضبوط بنائیں ۔
عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ کے اتحاد کی ضرورت محض ایک اخلاقی یا مذہبی تقاضا نہیں، بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک اور تمدنی ضرورت بن چکی ہے۔ عالم اسلام جن داخلی اور خارجی چیلنجز سے دوچار ہے، ان میں سے اکثر کی جڑیں افتراق و انتشار میں پیوست نظر آتی ہیں ۔ دشمن نے اس کمزوری کو پہچان کر نہایت ہوشیاری سے اس پر سرمایہکاری کی ہے، تاکہ مسلمانوں کو کبھی ایک طاقتور امت کی صورت میں ابھرنے نہ دیا جائے۔
دشمن کی شاطرانہ چالیں اور ہم
دشمنانِ اسلام، خصوصاً عالمی استکبار ( امریکہ) اور صہیونیت ( اسرائیل) نے مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو ایندھن بنا کر ایک “محفوظ علاقہ” (safe zone) پیدا کیا ہے۔ ان کی یہ شاطرانہ چالیں درج ذیل طریقوں سے واضح ہوتی ہیں:
مذہبی اختلافات کو شدت دینا:
شیعہ-سنی اختلافات کو ہوا دینا، فرعی و جزئی مسائل کو اصولی و کلی مسئلہ بنا کر پیش کرنا اور انتہا پسند گروہوں کو پال پوس کر بڑا کرنا اور بوقت ضرورت اس سے فائدہ اٹھانا جیسا کہ شام میں ہوا
نسلی و قومی منافرت:
عرب و عجم، کرد و ترک، پشتون و بلوچ جیسے نسلی امتیازات کو ریاستی سطح پر اختلاف کا ذریعہ بنانا۔
نرم جنگ (Soft Warfare): میڈیا، سوشل نیٹ ورکس، تعلیمی اداروں اور ثقافتی پروگراموں کے ذریعے امت مسلمہ کے ذہن و دل پر اثر انداز ہونا تاکہ ان میں باہمی بیگانگی، احساسِ کمتری اور دشمن پر اعتماد کو فروغ دیا جائے۔
فلسطین کے مسئلہ کو فراموش خانے میں ڈالنا:
امت کے اصل مسئلے سے توجہ ہٹا کر مسلم معاشروں کو داخلی تنازعات میں الجھا دینا۔
مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو توڑنا
جب مسلمان اقوام متحد ہوں تو ان کی سیاسی آواز عالمی سطح پر اثر ڈال سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر OIC (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) حقیقی معنوں میں متحد ہوتی تو فلسطین، و شام میانمار جیسے دیگر مسائل حل کی جانب بڑھ سکتے تھےلیکن دشمن نے آپس میں اتنا اختلاف ڈال دیا کہ اسلامی کانفرنس و تعاون جیسی تنظمیں ایک پلیٹ فارم پر محض آ جائیں تو ہی بڑی بات ہے کسی قدم اٹھانے کی تو بات ہی کیا ہے ۔
معاشی خودکفالت کے مسئلہ کو آپ دیکھ لیں اسلامی دنیا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اگر مسلمان ممالک باہمی تجارتی معاہدے اور اپنی اسلامی کرنسی ہی کو لیکر اتحاد کریں تو عالمی مالیاتی نظام میں ان کا وزن بڑھ سکتا ہے جیسا کہ یورپی ممالک نے کیا ہے لیکن آپ دیکھ لیں مسلمانوں کی کیا صورت حال ہے ۔
دفاعی ہم آہنگی: شمن کے مشترک خطرات (جیسے صہیونزم، نیٹو کی مداخلت) کا مؤثر جواب تبھی ممکن ہے جب مسلم ممالک دفاعی تعاون اور انٹیلیجنس شیئرنگ کو فروغ دیں۔ جو ایک خواب ہے جبکہ مسلم ممالک اپنے ہی بھائیوں کے خلاف نبرد آزما ہیں ترکی و سعودی عرب و امارات کو دیکھ لیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور جو وہ کر رہے ہیں اس میں کس کا فائدہ ہے۔
تمدنی احیاء کی ضرورت :
تمدنی احیاء (Civilizational Revival): مسلمانوں کا علمی، فکری اور تہذیبی مقام تب ہی بحال ہو سکتا ہے جب وہ فرقہ واریت اور قوم پرستی سے نکل کر قرآن و سنت کی بنیاد پر امت واحدہ بننے کی کوشش کریں اور اس کے لئیے علماء کو کردار نبھانے کی ضرورت ہے
علماء و دانشوران کا کردار یہ ہے کہ تفرقہ پھیلانے کی بجائے امت کو قریب لانے کے لئے عملی قدم اٹھائیں ۔
میڈیا کا مثبت استعمال: اتحاد کے فروغ لئے لازمی ہے اسلامی اتحاد، مشترکہ تہذیبی میراث اور دشمنوں کی چالوں کو بے نقاب کرنے پر زور دینے کے لئیے منفی چیزوں سے پرہیز ضروری ہے عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا: ضروری ہے مسلمانوں کو یہ سمجھانا کہ باہمی نفرت اور الزام تراشی دراصل دشمن کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔
آج کا مسلمان جس ذلت و بےچارگی میں مبتلا ہے، اس کا بڑا سبب اتحاد کا فقدان اور دشمن کی چالوں سے غفلت ہے۔ اتحاد ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے امت مسلمہ پھر سے عزت، طاقت اور قیادت حاصل کر سکتی ہے۔ جیسا کہ قرآن کا حکم ہے:
“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
(ال عمران: 103)
رہبر انقلاب نے حال ہی میں حج کے منتظمین کے ساتھ ملاقات میں امت اسلامی کے اتحاد کو مسائل اور مشکلات پر غلبہ پانے اور استعمار کے جبر سے نجات کا حل قرار دیا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات کے کچھ پہلووں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :
تفریق پیدا کرنا، ایک خطرناک ہتھیار ہے
“تفریق ڈالو اور حکومت کرو” یہ برطانوی اور امریکی استعماری پالیسی ہے جس کا مقصد مختلف ممالک، خاص طور پر اسلامی ممالک میں کمزوری، اثر و رسوخ، اختلافات پیدا کرنا اور تقسیم کرنا ہے: “ہمارے دشمنوں کی صف میں کچھ ایسے دشمن ہیں جو تفریق پیدا کرنے کے ماہر ہیں؛ ان کا کام ہے ‘تفریق ڈالو اور حکومت کرو’ . وہ اس کام کو بخوبی جانتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو، انہوں نے یہ کام کیا ہے؛ ان میں سے ایک مذہبی اختلاف، شیعہ اور سنی کا اختلاف ہے۔” ۱۴۰۰/۱۰/۱۹ “تفریق کی خواہش… ایک شیطانی خواہش ہے۔” ۱۳۹۵/۰۹/۲۷ یہی وہ ہتھیار ہے جسے امریکہ نے مغربی ایشیا کے علاقے میں اسلامی ملتوں کے خلاف استعمال کیا ہے: “جب یہ محسوس ہوا کہ اس علاقے میں نئے اور اسلامی خیالات پیدا ہو رہی ہیں، تودشمنوں کی تفریقی کارروائیاں زیادہ ہو گئیں۔” ۱۳۹۵/۰۹/۲۷ یہ ایک ایسا خطرناک ہتھیار ہے جو سخت اور فوجی ہتھیاروں سے زیادہ مؤثر ہے، جس کے ذریعے امریکہ اسلامی ممالک اور حکومتوں کے فیصلہ سازوں کی ذہنیت میں دخل اندازی کرتا ہے اور ان کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے، تاکہ اپنے اثر و رسوخ کو ان ممالک پر بڑھا سکے: “اس علاقے میں امریکہ کا اصلی ہتھیار … اثر و رسوخ ہے – حساس اور فیصلہ کن مراکز میں اثر و رسوخ – اور تفریق پیدا کرنا ہے۔” ۱۳۹۸/۰۸/۲۴
امت اسلام کو بے بس کرنا، دشمنوں کا بنیادی منصوبہ
“استکباری سیاست اور جاسوسی اداروں کی پالیسی یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے ڈرایا جائے؛ شیعہ کو سنی سے، سنی کو شیعہ سے ڈرا کر اختلاف پیدا کیا جائے۔” ۱۳۹۱/۰۳/۲۹ رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق، یہ اختلاف پیدا کرنا دشمنوں کا ایک اہم ہتھیار ہے تاکہ امت اسلام کو بے بس کیا جا سکے: “شیعہ اور سنی کا مسئلہ دشمنوں کے لیے امت اسلامی کو بے بس کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔” ۱۳۸۵/۰۵/۱۷ اور یہ دشمنوں کی ایک اہم حکمت عملی ہے جو نظام اسلامی کے مخالف ہیں: “اسلام اور خاص طور پر نظام اسلامی کے دشمنوں کے لیے ایک اہم حکمت عملی یہ ہے کہ فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات پیدا کریں اور شیعہ و سنی کا مسئلہ اٹھائیں۔” ۱۳۹۲/۰۶/۱۴
تفریق، صیہونیستی رجیم کے لیے امن و تحفظ کا ذریعہ :
امریکی سیاستدانوں کے اعتراف کے مطابق، استعماری طاقتیں، خاص طور پر امریکہ، کا مقصد تفریق اور اختلاف پیدا کرنے کا یہ ہے کہ وہ اسرائیلی رجیم کو ایک محفوظ حاشیے میں رکھ سکیں: “خود امریکی سیاستدانوں نے اپنی تجزیوں میں، اپنے بیانات میں، چاہے جان بوجھ کر یا نہ چاہتے ہوئے، اعتراف کیا کہ ہمیں مغربی ایشیا کے علاقے میں جنگ بھڑکانا چاہیے، اختلافات پیدا کرنے چاہیے، ان لوگوں کو آپس میں لڑانا چاہیے؛ تاکہ اسرائیلی رژیم ایک محفوظ زون میں رہ سکے۔” ۱۳۹۶/۰۹/۱۵ حقیقت میں، تفریق پیدا کرنے والے استعمارگر یہ چاہتے ہیں کہ خبیث اسرائیلی رژیم کی حقیقت عوام سے چھپی رہے: “دشمن کی تمام کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ امت اسلامی کو فلسطین کے مسئلے سے غافل کیا جائے۔ کیسے؟ اختلافات پیدا کر کے، اندرونی جنگیں پیدا کر کے، انحرافی شدت پسندی کو اسلام اور دین کے نام پر پھیلانے سے۔” ۱۳۹۲/۱۰/۲۹
اسلامی اتحاد، اسلامی اصولوں میں سے ایک اصول
سورة آل عمران کی آیت ۱۰۳ کے مطابق: «اعتَصِموا بِحَبلِ اللهِ جَمیعاً وَ لاتَفَرَّقوا» “اتحاد… ایک حکمت عملی نہیں ہے، اتحاد اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے، اتحاد ایک قرآنی حکم ہے۔” ۱۴۰۳/۰۶/۲۶ اور اسلامی ممالک کا اتحاد ایک الہٰی اور اسلامی حکمت ہے جو ان ممالک کے مفاد میں ہے: “تمام اسلامی ممالک تفریق سے نقصان اٹھاتے ہیں اور سب کو اتحاد سے فائدہ ہوتا ہے۔ اسلامی ممالک کا اتحاد، ان کا ایک دوسرے کے خلاف اپنی طاقتوں کو استعمال نہ کرنا، ان کے لیے فائدہ مند ہے، یہ ایک الہٰی حکمت ہے، ایک اسلامی حکمت ہے۔” ۱۳۹۶/۰۴/۰۵ یہ اتحاد پیغمبر رحمت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے نام پر مبنی ہے: “مسلمانوں کا اجتماع پیغمبر کی ذات مبارک ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں تمام مسلمان، مختلف فرقے، مختلف مکاتب فکر، مختلف مذاہب اور عقائد ایک ساتھ آ کر ایک حقیقت پر ایمان لاتے ہیں، وہ مقدس خاتم النبیین کی ذات ہے۔” ۱۳۹۱/۰۷/۰۳
استقامت اور بصیرت، امت اسلام کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے دو عوامل
آج “مسلمانوں کا اتحاد امت اسلامی کے کئی دردوں کا علاج ہے۔” ۱۳۹۹/۰۸/۱۳ کیونکہ “اسلامی عظمت کے مسلسل حصول کے لیے، امت اسلامی کا اتحاد، عزم اور بصیرت ضروری ہے۔” ۱۴۰۴/۰۱/۱۱ استکباری تسلط کی وجہ سے پیدا ہونے والی پسماندگی اور کمزوری پر قابو پانے کا حل، ملتوں کی استقامت اور ان کے عزم کو برقرار رکھنا اور دشمنوں کی سازشوں کے خلاف بصیرت اور ہوشیاری ہے: “آج تمام امت اسلامی اور خاص طور پر بیدار ملتوں کو دو اہم عناصر کی ضرورت ہے: اول: استقامت کا تسلسل اور عزم کی کمزوری سے شدید اجتناب… دوم: عالمی استکباری طاقتوں کی چالبازیوں کے خلاف ہوشیاری۔” ۱۳۹۰/۰۸/۱۴
عزت اور طاقت کی حکمت عملی
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق، اسلامی دنیا میں اتحاد کے مختلف درجات ہیں، جن میں سب سے کم درجہ مسلمانوں کا ایک دوسرے کے خلاف حملہ نہ کرنا ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ اسلامی دنیا کا اتحاد ہے تاکہ نیا اسلامی تمدن قائم ہو سکے: “اسلامی دنیا کا اتحاد مختلف درجات میں ہے؛ سب سے کم درجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک… ایک دوسرے کے ساتھ متصادم نہ ہوں، ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں… اس سے زیادہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا صرف یہ نہیں کہ آپس میں ایک دوسرے کو نقصان نہ پہنچائے، بلکہ مشترکہ دشمن کے خلاف ایک حقیقی اور کافی اتحاد رکھے… اس سے بھی زیادہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک اور امت اسلامی آپس میں تعاون کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں، کیونکہ اسلامی ممالک سائنس، دولت، امن، اور سیاسی طاقت کے لحاظ سے ایک سطح پر نہیں ہیں، وہ ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں… اس سے بھی بلند یہ ہے کہ تمام اسلامی دنیا ایک ہو کر نیا اسلامی تمدن قائم کرنے کے لیے متحد ہو جائے۔” ۱۳۹۸/۰۸/۲۴
شک نہیں کہ رہبر انقلاب اسلامی کے ان بصیرت افروز گہر پاروں کو عالم اسلام اپنا سر مشق بنا لیں تو موجودہ انحطاط و زوال کو لگام دی جا سکتی ہے اور ہم اہنا کھویا ہوا وقار پھر سے حاصل کر سکتے ہیں ۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں