بارودی سرنگ

کیا اسلامی جمہوریہ ایران کا باقی رہنا، باوجود اس کے کہ دنیا کی تمام بڑی اور چھوٹی طاقتیں کئی دہائیوں سے اسے مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں، خود ایک "معجزہ" نہیں؟ شک نہیں کہ یہ معجزے جیسا" نہیں... بلکہ خود ایک معجزہ ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ:۔

1۔ ذرا حضرت امام (رحمۃ اللہ علیہ) کے اس کلام پر غور کریں۔ یہ ان کے بیانات میں سے ہے جو آذر 1364 ہجری شمسی (دسمبر 1985 عیسوی) میں، رسول خدا (ص) اور امام جعفر صادق (ع) کی ولادت کی مناسبت سے ارشاد فرمایا گیا:
“میں آج جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کے موقع پر بعض واقعات پیش آئے ہیں۔ یہ واقعات ہماری اور اہل سنت کی روایات کے مطابق غیر معمولی ہیں اور ان پر تحقیق ہونی چاہیے کہ حقیقت میں کیا ہیں؟ ان واقعات میں شامل ہے طاقِ کسریٰ ٹوٹ کر گرنا، اس محل کے چودہ کنگروں کا گر جانا، فارس کے آتشکدوں کا بجھ جانا اور بتوں کا زمین پر گر جانا…۔ یہ کہ کسریٰ کے محل کی چودہ کنگریاں گر گئیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کا مطلب ہے کہ چودہویں صدی میں یہ کام (نظامِ ظلم کی شکست) ہوگا، یا چودہ صدیوں کے بعد یہ انجام دیا جائے گا؟”
طاقِ کسریٰ کی چودہ کنگریوں کا گرنا، فارس کے آتشکدوں کا بجھ جانا اور بتوں کا زمین پر گرنا — یہ سب رسول خدا (ص) کی ولادت کے وقت پیش آنے والے واقعات — تاریخ دانوں نے بارہا اپنی تحریروں اور بیانات میں ذکر کیے ہیں۔ تاہم، حضرت امام خمینی رح کی ان واقعات کی یہ منفرد تفسیر کہ یہ علامت ہے چودہویں صدی میں ظلم کے نظام کی تباہی کی یہ وہ بات ہے جوصرف ان ہی کی زبان سے سنی گئی ہے۔ وہ آخر کیا دیکھ رہے تھے جو اور کوئی نہ دیکھ سکا؟!
2۔ آذر 1358 ہجری شمسی (دسمبر 1979 عیسوی) کے آغاز میں، امریکی میگزین ٹائم کے ایک رپورٹر نے حضرت امام (رحمۃ اللہ علیہ) کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا۔ اس میں اس نے امام خمینی رح سے سوال کیا:
“آپ ایک ایسی زندگی گزار چکے ہیں جو جدید دنیا سے جدا ہے۔ آپ نے جدید معیشت، قانون، اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات کا مطالعہ نہیں کیا۔ آپ موجودہ دنیا کی سیاست اور سماجی معاملات کے ساتھ مشغول نہیں رہے۔ اس کے باوجود، کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ آپ کو اپنے بیان کردہ راستے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے؟”
حضرت امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) نے جواب میں فرمایا:
“ہم نے وہ عالمی توازن اور سماجی و سیاسی معیار توڑ دیے ہیں جن کی بنیاد پر اب تک دنیا کے تمام مسائل کو جانچا جاتا رہا ہے۔ ہم نے ایک نیا فریم ورک قائم کیا ہے جس میں ہم عدل کو دفاع کا معیار اور ظلم کو حملے کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ ہم ہر عادل کا دفاع کرتے ہیں اور ہر ظالم پر حملہ کرتے ہیں۔ آپ اسے جو نام دینا چاہیں، دیجئے۔ ہم یہ سنگِ بنیاد رکھ چکے ہیں۔ ہاں، اگر آپ کے معیار سے دیکھیں تو میں کچھ نہیں جانتا، اور بہتر یہی ہے کہ میں کچھ نہ جانوں۔”
ٹائم میگزین کے رپورٹر نے اس انٹرویو کے لیے جو دیباچہ لکھا، اس میں طنزیہ انداز میں لکھا:
“یہ ایک بڑے شیعہ عالم کی بات ہو رہی ہے، جو اپنے خیال میں صرف ایران ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود موجودہ عالمی نظام کو بدلنے آیا ہے اور ایک ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہے جس میں عدل و ظلم، سماجی تعلقات اور سیاسی توازن کو اسلامی معیاروں سے پرکھا جائے۔”
۳۔ امام راحل (رحمۃ اللہ علیہ) فرمایا کرتے تھے:
“میں پوری جرأت سے دعویٰ کرتا ہوں کہ آج کے دور میں ملتِ ایران اور اس کی کروڑوں عوام، قومِ حجاز کے اُس دور سے بہتر ہیں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) مبعوث ہوئے تھے، اور کوفہ و عراق کے ان لوگوں سے بہتر ہیں جن کے دور میں امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اور حسین بن علی (علیہ السلام) قیام فرما تھے۔”
اور ساتھ ہی آپ یہ تاکید بھی فرمایا کرتے تھے کہ:
“طاقتوروں کے شور و غوغا سے نہ ڈرو، کیونکہ یہ صدی، اللہ تعالیٰ کی مشیت سے، مستضعفین کی مستکبرین پر اور حق کی باطل پر فتح کی صدی ہے۔”
ایک اور پیغام میں آپ نے اطمینان دلایا کہ:
“اسلام دنیا کے اہم ترین قلعے ایک ایک کر کے فتح کرے گا۔”
آپ فرمایا کرتے تھے:
“ہم اس وقت ایک نہایت حساس موڑ پر ہیں، جو میرے خیال میں تاریخ کا سب سے حساس لمحہ ہے… گویا دنیا اس لمحے کے لیے تیار ہو رہی ہے کہ ولایت کا آفتاب، مکہ مکرمہ کے افق سے طلوع کرے، جو کہ محروموں کی امیدوں کا قبلہ اور مستضعفین کی حکومت کا مرکز ہے۔”
اور اس طرح کی دسیوں دیگر مثالیں بھی موجود ہیں…
۴۔ تاریخی موڑ ایک اصطلاح ہے جسے حالیہ برسوں میں بارہا رہبر معظم انقلاب نے استعمال کیا ہے۔
آیت‌الله خامنہ‌ای نے دنیا میں رونما ہونے والی بے مثال اور بعض اوقات بے‌سابقہ تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ایک ایسے واقعے کی آمد کی خبر دی ہے جو دنیا میں بنیادی اور عظیم تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہوگا۔
چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

“جان لو! آج انسانی تاریخ ایک بڑے تاریخی موڑ پر ہے۔ ایک نیا دور تمام دنیا میں شروع ہو رہا ہے۔ اس دور کی سب سے بڑی اور واضح نشانی، اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ، اس کی لا محدود طاقت سے مدد طلب کرنا اور وحی پر بھروسا ہے۔ انسانیت اب مادی نظریات اور ایدئولوجیوں سے گزر چکی ہے۔ آج نہ مارکسزم کشش رکھتا ہے اور نہ مغربی لبرل ڈیموکریسی۔”
(بهمن 1390 / فروری 2012)

“دنیا اور خطے کی سیاسی صورت حال پر نظر ڈالیے، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم ایک نہایت نازک موڑ پر ہیں۔ واقعی معنوں میں، آج ہم ایک تاریخی پیچ پر ہیں۔”
(تیر 1393 / جولائی 2014)

“دنیا کی صورت حال دن بہ دن بدل رہی ہے۔ باخبر رہو، واقعات کا تجزیہ اپنے ذہن میں حاضر رکھو۔ میرے عزیزو! آج ہم یا تو ایک بڑے تاریخی موڑ کے سامنے ہیں یا اس کے اندر داخل ہو چکے ہیں۔ غالباً دوسرا مفہوم زیادہ درست ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، اور یہ بنیادی تبدیلیاں ایک دن، ایک ہفتے یا ایک سال میں نہیں سمجھ آتیں، بلکہ آہستہ آہستہ سامنے آتی ہیں۔”
(آبان 1401 / نومبر 2022)

۵۔ اسلام اور انقلاب کے معروف دشمنوں نے بھی بارہا — نہایت گھبراہٹ اور تشویش کے ساتھ — اسی تاریخ کے موڑ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً:

نیٹین یاہو نے ۹ مئی ۲۰۱۱ کو امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
“چھ مہینے پہلے، میں اسی جگہ کھڑے ہو کر ایران کے ایٹمی خطرے سے خبردار کر چکا ہوں۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ آج، سعودی عرب کے خیبر درے سے لے کر مراکش کے جبل‌الطارق تک گہری تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور ہر طرف زلزلہ برپا ہے۔ یہ زلزلہ ملکوں کو ہلا رہا ہے، حکومتوں کو گرا رہا ہے، اور ہم سب ان جھٹکوں کو دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ ایک زبردست قوت وجود میں آ چکی ہے جو دنیا پر ہمارے طرز حکمرانی کی مخالف ہے۔ اس قوت کے سَر پر ایران ہے — خمینی اور خامنہ‌ای۔ میں خبردار کر رہا ہوں کہ تاریخ کا قبضہ (HINGE OF HISTORY) حرکت میں آ چکا ہے۔”

برژینسکی (امریکی مفکر و مشیر برائے قومی سلامتی) نے “آٹلانٹک” اجلاس میں — جہاں امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور نیٹو ممالک کے خفیہ اداروں کے سربراہان بھی شریک تھے — کہا:
“دنیا، سوویت یونین کے زوال کے بعد، ایک نئے تاریخی موڑ پر کھڑی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں وسیع تبدیلیاں، اور امریکہ و یورپ میں غیر متوقع واقعات، اس بات کا ثبوت ہیں۔ ہم ایک پیچیدہ چیلنج کے سامنے ہیں، تاریخ اپنا راستہ بدل رہی ہے… اور اس چیلنج میں ایران کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایران پر فوجی حملہ تباہ کن ہوگا۔”
اور ایسے سیکڑوں دیگر واضح شواہد موجود ہیں، جن کی تفصیل بہت طویل ہو جائے گی۔

۶۔ جنگِ صفین کا درمیانی وقت ہے۔ مالک اشتر کے دل پر غم کا پہاڑ ٹوٹا ہوا ہے۔
وہ علی (علیہ السلام) کو اقتدار کی بلندی پر بھی مظلوم پاتے ہیں۔
ایک آنسو، جو ان کی آنکھ سے نکل کر گال پر بہہ نکلا ہے، وہ اسے پونچھتے ہوئے خاموشی سے عمار یاسر کے قریب آتے ہیں ۔
کہتے ہیں :
“کاش ہم علی (علیہ السلام) کو ایک ایسے زمانے میں لے جا سکتے، جہاں لوگ ان کی قدر پہچانتے اور ان کے طریقے کو سر آنکھوں پر بٹھاتے۔”
عمار اُسے تسلی دیتے ہیں:
“جس زمانے کی تم آرزو کر رہے ہو، وہ آنے والا ہے۔ میں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے ایسے لوگوں کی صفت سنی ہے، جو ابھی اپنے اجداد کی پشت اور ماؤں کے رحم میں ہیں، لیکن جب وہ زمانہ آئے گا جس کی تم خواہش کرتے ہو، تو وہ لبیک کہہ کر آئیں گے۔ ایسے لوگ جو ‘میں’ اور ‘ہم’ سے گزر چکے ہوں گے، جن کے دل میں نہ نفع کی حرص ہو گی، نہ نقصان کا غم۔ وہ محمدی اسلام کے پروانے ہوں گے، علی (علیہ السلام) کو اپنا امام، مولا اور رہنما سمجھیں گے۔ وہ ظلم کے سیاہ آسمان کو چاک کریں گے اور ایک نیا نظام قائم کریں گے۔”
۷۔ سورہ جمعہ کی دوسری اور تیسری آیت میں آیا ہے:

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ۔
وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

” وہ وہی خدا ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہیں سے ایک کو رسول ص بنا کر بھیجا، جو ان پر اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے اور (اسی رسول کو) اُن دوسرے لوگوں کے لیے بھی بھیجا ہے جو ابھی ان (عربوں) سے نہیں ملے، اور وہی ہے جو عزیز و حکیم ہے”
ان آیات کے نزول کے بعد، حاضرین نے سوال کیا کہ:
“یہ ‘دوسرے لوگ’ کون ہیں جو ابھی ان (عربوں) سے آ کر نہیں ملے؟”
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:
“اللہ کی مراد، یہ مرد (سلمان) اور اس کی قوم ہے۔”
۸۔ معروف امریکی ماہر عمرانیات ایمانوئل والرشتائن تشویش کے ساتھ کہتا ہے:
“عالمی نظم (یعنی امریکہ کی عالمی چودھراہٹ) کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ، امام خمینی کا نظریہ ولایت فقیہ ہے… تمام نظریے وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں، لیکن امام خمینی کا ولایت فقیہ کا نظریہ ہر دن زیادہ تابناک اور متحرک ہو رہا ہے اور بہت سے مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔”
۹۔ مشہور برطانوی ماہر عمرانیات آنتونی گڈنز عصرِ حاضر کی بنیادی تبدیلیوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
“ماضی میں سماجیات کے تین بڑے ستون — مارکس، دورکیم اور میکس ویبر — اگرچہ کچھ اختلافات رکھتے تھے، لیکن عمومی طور پر سب اس نتیجے پر متفق تھے کہ دنیا کا عمومی رجحان سیکولرزم کی طرف ہے، اور دین بتدریج پس منظر میں چلا جائے گا۔
لیکن 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد، ہم ایک مختلف اور بالکل الٹا رجحان دیکھ رہے ہیں۔ اب دنیا کا عمومی عمل تیزی سے دین کی طرف لوٹ رہا ہے۔”
۱۰۔ معروف مصری صحافی محمد حسنین ہیکل، امام خمینی (رح) سے دو مرتبہ ملے — پہلی بار پیرس میں اور پھر 1358 ہجری شمسی (1979ء) میں تہران میں۔
تہران کے سفر کے بعد، انہوں نے امام کے ساتھ اس ملاقات کی یادداشتوں پر تقریباً سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی۔
ہیکل لکھتے ہیں:
“میں نے امام خمینی کو رسول خدا (ص) کے ان ساتھیوں جیسا پایا جو صدرِ اسلام میں تھے، گویا وہ کسی معجزے کے ذریعے زمانے کی سرنگ سے گزر کر اس دور میں آ پہنچے ہوں تاکہ علی (ع) کے اُن سپاہیوں کی قیادت کریں جو ان کی شہادت اور اہل بیت (ع) کے قتل عام کے بعد بے فرمان رہ گئے تھے… اور میں یہ صلاحیت ان میں دیکھتا ہوں۔”
وہ مزید کہتے ہیں:
“ولایت فقیہ، علی (ع) کی حکومت کی ایک علامت ہے… ولایت فقیہ وہ بارودی سرنگ تھی جو علی (ع) نے صدرِ اسلام میں نصب کی تھی، اور خمینی نے بیسویں صدی میں اُسے استکبار کے قدموں تلے دھماکے سے اڑا دیا۔”
۱۱۔ جو کچھ اشارہ کے طور پر بیان کیا گیا، وہ محض “بہت ساری باتوں میں سے تھوڑا سا” اور “ہزار میں سے ایک حرف” تھا…
اور اگرچہ یہ قصہ بہت طویل ہے…
لیکن یہ سوال پوچھے بغیر چھوڑ دینا افسوسناک ہوگا:
کیا اسلامی جمہوریہ ایران کا باقی رہنا، باوجود اس کے کہ دنیا کی تمام بڑی اور چھوٹی طاقتیں کئی دہائیوں سے اسے مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں، خود ایک “معجزہ” نہیں؟
شک نہیں کہ یہ معجزے جیسا” نہیں… بلکہ خود ایک معجزہ ہے۔