مسجد اقصیٰ تاریخ کے خطرناک ترین دور میں
فاران؛ مسجد اسلام میں بنیادی ترین مقام اور اہم ترین سماجی اور سیاسی منزلت کی حامل ہے۔ مسجد النبی (ص) اسلام کے ابتدائی دور میں نہ صرف ایک عبادتگاہ تھی بلکہ ایک تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی مرکز بھی تھی۔ اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے دور حکومت میں مسجد کوفہ بھی اسی منزلت کی حامل تھی۔ در حقیقت مسجد ہمیشہ سے توحید اور وحدت کی علمبردار اور پرچمدار تھی اور ہے۔ اس درمیان کچھ مساجد ایسی بھی ہیں جو ایک خاص قداست اور عظمت کی حامل ہیں۔ جن میں سے ایک مسجد الاقصیٰ ہے جس کی خصوصتیں عالم اسلام کی کسی دوسری مسجد میں نہیں پائی جاتیں اگر چہ شان و منزلت کے اعتبار سے مسجد الحرام اور مسجد النبی (ص) کے بعد تیسرے درجے پر ہے۔
مسجد الاقصیٰ کی خصوصیتیں:
۔ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔
۔ قرآن میں یہ تیسری مسجد ہے جس کا تذکرہ ہوا ہے۔
۔ شب معراج پیغمبر اسلام(ص) کی معراج کا نقطہ آغاز ہے۔
۔ مسجد الحرام کے بعد واحد وہ مسجد ہے جو اسلام سے پہلے تعمیر ہوئی ہے۔
۔ بعض روایات کے مطابق یہ تنہا وہ مقام ہے جس سے اللہ کی طرف معراج کا راستہ کھلتا ہے اور اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے متعدد بار یہاں سے معراج کی۔
۔ بعض روایات کے مطابق قیامت کا آغاز اسی مقام سے ہو گا۔
۔ قرآن کریم نے اس مسجد اور اس کے اطراف کی نشانیوں کو سورہ اسراء کی پہلی آیت میں اس طرح بیان کیا ہے: ” سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَهُ ”
۔ مسجد الاقصیٰ واحد وہ مسجد ہے جس کی طرف رخ کرنے کا تمام انبیاء کو حکم دیا گیا۔
۔ یہ واحد وہ مسجد ہے جس کی طرف سفر کرنے کی پیغمبر اکرم (ص) نے تاکید فرمائی ہے۔
لیکن صد افسوس۔۔۔
یہ واحد وہ مسجد ہے جس پر ستر سال سے زیادہ عرصے سے صہیونیوں کا قبضہ ہے اور اس کے مسمار کرنے کی شب و روز کوشش کی جا رہی ہے اس اسلامی اور تاریخی میراث کو چالیس سال سے مٹانے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، اگر ملت فلسطین کی جانفشانیاں نہ ہوتیں، اس شجاع قوم کی قربانیاں نہ ہوتیں تو سالہا قبل اس مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی بنا دیا ہوتا۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ بین الاقوامی ادارہ یونسکو کے شعبہ آثار قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق، بیت المقدس اور یہودیوں کے درمیان کوئی تاریخی اور دینی رابطہ نہیں پایا جاتا۔ بلکہ اس کے تمام تاریخی اسناد و مدارک اس بات پر گواہ ہیں کہ مسجد الاقصیٰ کا اسلام سے گہرا رشتہ ہے۔ اس مسجد کے نیچے پائی جانے والی متعدد تاریخی سرنگوں کے ذریعے یہودیت سے اس کا رشتہ جوڑنے کی کوشش کی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اس مسجد کو نیچے سے کھوکھلا کر کے اسے گرانے کی صہیونی سازش تھی جو صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔
مسجد الاقصیٰ پر ناجائز قبضہ کرنے کے کچھ ماہ بعد صہیونیوں نے اس تاریخی مسجد کو نذر آتش کیا اور اسے عظیم نقصان پہنچایا۔ یہ وہ اقدام تھا جس نے صہیونیوں کی بدنیتی کا پردہ چاک کیا اور اس کے بعد فلسطینی قوم اس کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر میدان کارزار میں نکل آئی اور چالیس سال سے اپنے خون کے ذریعے اس مسجد کا تحفظ کر رہی ہے لیکن تن تنہا آخر کب تک؟۔
اس وقت موجودہ حالات میں جہاں ایک طرف تکفیری دھشتگردی علاقے کو اپنی گھناؤنی سازشوں کا نشانہ بنا رہی ہے کل عراق و شام میں مسلمانوں کے قتل عام اور مقدس مقامات کی مسماری کے ذریعے اور آج افغانستان میں، وہاں دوسری طرف امریکہ اسرائیل اور چند عرب کٹھ پتلیوں کے شیطانی منصوبوں سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دئے جانے کے بعد عالمی صہیونیت اس کوشش میں ہے کہ اس قضیے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے۔
تبصرہ کریں