عرب مجاہد جن کے کارنامے عربوں کے بجائے اسرائیل نے ظاہر کئے
فاران؛ عرب ممالک کی حکومتوں کے ہر شعبے میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی اطلاع اسرائیل کو ہو جاتی ہے وہ عرب ممالک کے ہر اہم لیڈر کے متعلق مکمل معلومات رکھتے ہیں۔ اس کی روزمرہ کی زندگی، اس کی ذاتی زندگی، اس کے عادات و اطوار، اس کی صلاحیت اور کمزوری، اس کے دوست و احباب کے متعلق معلومات وہ رکھتے ہیں۔ ہر ایسے شخص کے پیچھے خود اسی کے ساتھیوں میں سے کسی نہ کسی کو اپنا ایجنٹ بنا کر اس کے پیچھے لگا دیتے ہیں تاکہ وقت آنے پر اس کا خاتمہ کر سکیں یا اس کے حملے سے بچ سکیں۔ یہ اس لیے انہیں آسان لگتا ہے کیوں کہ عربوں میں غداروں کی کمی نہیں ہے۔ عربوں میں مجاہدوں اور جانبازوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر ان تمام کے متعلق ہمیں معلومات اسرائیل کے ذریعے سے ملتے ہیں نہ عربوں کے ذریعے۔ یورپ، امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں ان کے کارنامے دھشتگردوں کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
ایسے ہی ایک جانباز اور مجاہد جناب عماد مغنیہ ہیں جنہوں نے اسرائیلیوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ انہیں پکڑنے یا مارنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل نے ان کے سر پر پانچ ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔ انہیں امریکہ اور اسرائیل پر ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا تھا۔ ۹،۱۱،۲۰۰۱ میں امریکہ کے ٹاورز پر کئے گئے حملے کے بعد امریکہ نے بیس دھشتگردوں کی لیسٹ شائع کی جس میں عماد مغنیہ کا نام سر فہرست تھا۔ ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ میں بیروت لبنان کے امریکہ سفارت خانے میں بم بلاسٹ ہوا جس میں ۶۳ افراد کی موت ہو گئی۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۸۳ میں بیروت کے امریکی اڈے پر بمباری میں ۲۴۱ افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دن بیروت کے فرانسیسی اڈے پر بمباری میں ۵۸ افراد کی موت ہوئی۔ سعودی عرب میں ۲۰ امریکی سپاہی مار دئے گئے وہ کویتی ہوائی جہازوں کو اغوا کیا گیا، اقوام متحدہ کے لبنانی نگہبان کرنل ہلنس کا قتل ہوا اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے افسر ولیم بکلے کا بھی قتل ہوا۔ ۱۴ نومبر ۱۹۸۳ میں اسرائیلی ہیڈ کوارٹر IDF پر بمباری میں ۶۰ آدمی ہلاک ہوئے۔ ۱۰ مارچ ۱۹۸۵ میں اسرائیلی سرحد پر حملے میں آٹھ فوجی مارے گئے۔ ۱۷ مارچ ۱۹۹۲ میں ارجنٹائنا میں یہودی کلچرل سنٹر پر بمباری میں ۹۲ آدمی ہلاک ہوئے۔ کئی اسرائیلی فوجیوں اور بزنس مینوں کو اغوا کیا گیا۔ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ ہوئی وہ دو اسرائیلی فوجیوں ریگیو اور گولڈ واسیر کے اغوا اور قتل کے سبب ہوئی۔ ان تمام اموات اور بمباری کا ماسٹر مائنڈ اسرائیل، عماد مغنیہ کو مانتا ہے۔
عماد مغنیہ ۱۹۶۲ میں بیروت میں ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم ہائی اسکول تک تھی اور وہ یاسر عرفات کے ڈپیوٹی افسر ابوعیاد کے باڈی گارڈ تھے۔ ۱۹۸۲ میں جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور پی ایل او کو شکست دی تو یاسر عرفات اور ان کے ساتھی تیونس چلے گئے مگر مغنیہ بیروت ہی میں رہ کر حزب اللہ نامی تنظیم کے بانیوں میں شامل ہو گئے۔ حزب اللہ ایران کی مدد سے اسرائیلیوں پر ہر طرف سے حملے کرنے لگی اور اس میں مغنیہ کا کردار اہم رہا۔ وہ کبھی بھی اپنی فوٹو لینے نہیں دیتے تھے بلکہ وہ ہر کام خفیہ اور خاموشی کے ساتھ کرنے کے عادی تھے انہیں اللہ نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی سے نوازا تھا جنہیں محفوظ جگہ پر رکھا ہوا تھا۔ مغنیہ بار بار پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنی شناخت بدلتے تھے اور کہیں بھی اپنے فنگر پرنٹس نہیں چھوڑتے تھے کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں انہیں قتل کرنے کے در پے ہیں۔ وہ ہر رات معمول کے برخلاف الگ الگ جگہ پر سوتے تھے اور اپنے باڈی گارڈز بدلا کرتے تھے۔ ان کے متعلق اسرائیل کو کسی بھی قسم کی کمزوری جیسے عورتیں، شراب، جوا وغیرہ نہیں ملا ۔
جنوری ۱۹۹۲ میں اسرائیلی جاسوسوں نے حزب اللہ کے لیڈر الموسوی کو قتل کر دیا۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے مغنیہ نے ارجنٹائنا میں موجود اسرائیلی سفارتخانے کو ٹرک میں بارود بھر کر ٹکرا دیا اور اسے اڑا دیا۔ اسرائیل نے مغنیہ پر کئی جان لیوا حملے کئے مگر وہ ہر بار بچ گئے۔ ایک مرتبہ لبنان میں مسجد کے پاس ان کی کار کے قریب ایک بموں سے بھری کار کھڑی کر دی اور جب بم پھٹے تو ان کے ایک رشتہ دار کی موت ہو گئی اور وہ بال بال بچ گئے۔ مغنیہ نے اپنی کار بدل دی تھی اس لیے وہ بچ گئے۔ اس سلسلے میں بیروت پولیس نے ایک عرب احمد حلیک اور اس کی بیوی کو گرفتار کر لیا جنہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے لیے کام کرتے تھے اور انہوں نے ہی مغنیہ کو مسجد آنے کی اطلاع دی تھی۔ مغنیہ ایک ایسے مجاہد تھے جو ہر بار اپنی شناخت بدل کر حملے کرواتے تھے۔
اسرائیل نے کئی لبنانی مسلمانوں کو بھاری معاوضہ دے کر اپنا مخبر بنا لیا تھا جس میں ایک لڑکی جو مغنیہ کے ایک دور کے بھائی کو جانتی تھی اس نے ایک دن موساد کو اطلاع دی کہ مغنیہ نے حال میں جرمنی میں اپنی شناخت بدل دی ہے۔ اس پر اسرائیلی ایجنٹوں نے چھان بین شروع کر دی اور بلاآخر اس اسٹڈیو کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے ہاتھ مغنیہ کے فوٹو لگ گئے۔ مغنیہ اپنا زیادہ تر وقت شام اور ایران میں گزارتے تھے جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔ وہ شاذ و نادر ہی اپنی شناخت بدل کر یورپی ممالک کا سفر کرتے تھے۔ اب عرب غداروں نے اسرائیل کو مغنیہ کے متعلق پل پل کی خبر دینا شروع کر دی۔ اسرائیل نے محسوس کیا کہ انہیں ایران و شام میں قتل کرنا مشکل ہے۔ مگر دیگر ممالک میں انہیں آسانی کے ساتھ قتل کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے یہ طے کیا کہ انہیں ملک شام میں ہی قتل کیا جائے گا تاکہ ہر عرب دھشتگرد کو معلوم ہو جائے کہ وہ کہیں بھی محفوط نہیں۔ اسرائیلی جاسوسوں نے اطلاع دی کہ ۱۲ فروری ۲۰۰۸ کو ایرانی انقلاب کی سالگرہ شام اور ایران دونوں ملکوں میں منائی جائے گی اور مغنیہ شام آکر اس تقریب میں شرکت کریں گے۔ اب اسرائیل جاسوس چاروں طرف دوڑنے لگے اور یہ معلوم کرنے لگے کہ وہ کب آئے گا اور کہاں ٹہرے گا۔ غداروں نے مغنیہ کی کار میں انہیں ٹریک کرنے والے ٹرانسمیٹر رکھ دئے اور پل پل کی خبر اسرائیلی جاسوسوں کو دینے لگے۔ اسرائیل نے اپنے سب سے ہوشیار اور مکار جاسوسوں کو اس کام پر لگا دیا۔ بم اور بارود کو اسرائیلی ایجنٹوں کے ذریعہ شام اسمگل کر دیا گیا۔ تین بہترین اسرائیلی ایجنٹ الگ الگ ملکوں کے ذریعے ٹورسٹوں کی حیثیت سے دمشق میں داخل ہو گئے اور پہلے سے موجود ایجنٹوں کی مدد سے ایک کار کرائے پر لی اور ایک خفیہ گیرج میں بموں اور بارود کے ساتھ مقیم ہو گئے۔ مغنیہ کا منشا اس جشن میں شامل ہونے کا نہیں تھا بلکہ اپنے ایران اور شام کے ساتھیوں سے مل کر پلان بنانے اور واپس جانے کا تھا۔ کرائے پر لی ہوئی بموں سے لدی کار ان کے پیچھے دوڑنے لگی اور جب مغنیہ نے اپنی کار کفرسوسہ کی عمارت کے سامنے کھڑی کی تو دوسری کار اس کے بازو میں آ گئی اور آنافانا اس کا ڈرائیور اتر گیا اور چند سیکنڈوں میں جب مغنیہ کار سے اترنے لگے تو ایک زبردست دھماکہ ہوا اور مغنیہ کے چیتھڑے بکھر گئے۔
مغنیہ کے قتل کے کئی مہینے بعد معلوم ہوا کہ جو جاسوس اس کے پل پل کی خبر دیتا تھا وہ ایک فلسطینی باشندہ تھا جو ۲۰ سال سے ماہانہ ۷۰۰۰ ڈالر اسرائیل سے لیتا تھا اور حزب اللہ کے اندر رہ کر مخبری کرتا تھا۔ پوچھ تاچھ کرنے پر اس نے اپنے مخبر ہونے کی بات مان لی اور کہا کہ وہی مغنیہ اور دیگر لیڈروں کے حرکات و سکنات کا پتہ موساد کو دیتا تھا۔ اسرائیل بلکل خاموش رہا جیسے اس قتل میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور سرکاری طور پر وہ آج بھی خاموش ہے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ عرب ممالک ایسے اپنے بہادروں کے کارناموں پر مضامین کیوں نہیں لکھتے اور دنیا کو کیوں نہیں بتاتے جیسا کہ اسرائیل اور دیگر ممالک اپنے جانبازوں کے متعلق کرتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سعودی عرب کے شہزادے خالد بن سلمان نے بھی امریکہ میں ۲۲ جولائی ۲۰۱۸ کو عماد مغنیہ کو ایک دھشتگرد کہا اور انہیں مسلمانوں کا دشمن کہا۔ کاش وہ اس ہیرو اور مجاہد کو خراج عقیدت پیش کرتے۔ مذہبی حضرات جو انگریزی میگزین اور کتابیں نہیں پڑھ سکتے ان سے میری گزارش ہے کہ وہ ایسے مضامین پڑھیں اور اپنی معلومات میں اضافہ کریں۔
تبصرہ کریں