نیوم کا سعودی منصوبہ یا 100% یہودی منصوبہ؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ویسے تو بن سلمان کا دعوی ہے کہ نیوم پراجیکٹ کا مقصد سعودی عرب کو تمام پہلؤوں میں ایک ترقی یافتہ اور جدید ملک بنانا ہے تاکہ یہ پورے علاقے اور عالم عرب اور عالم اسلام کے لئے ایک نمونہ اور مثال بن جائے لیکن جو بھی (سنہ 2007ع سے سنہ 2014ع تک یہودی ریاست کی صدارت کا عہدہ سنبھالے رکھنے والے شخص) شمعون پیریز کی کتاب “جدید مشرق وسطی” (New Middle East) کا مطالعہ کرے گا وہ بن سلمان کے نیوم پراجیکٹ کی تفصیل سے آگاہ ہوجائے گا۔ پیریز نے اس منصوبے کو اپنی کتاب کی چار فصلوں (فصل نمبر آٹھ سے فصل نمبر 11 تک) میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یعنی منصوبہ پوری طرح یہودی-صہیونی ہے اور ٹھیکیدار سعودی ولی عہد۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ پیریز نے اس منصوبے کے اصولوں کو “آیالون منصوبے” (Ayalon Plan) سے مستعار لیا ہے اور اس نے اس منصوبے پر عملدرآمد کو “عرب ریاستوں” کے سرمائے اور “صیہونی ذہانت” کے درمیان “اتحاد و یگانگت!” کی ایک علامت گردانا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس سے اسرائیل کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔
نیوم کی وضاحت کرتے ہوئے بن سلمان نے اس علاقے کو ایک خاص علاقہ قرار دیا ہے جس میں اس شہر میں موجودہ ممالک میں مروجہ عام قوانین اور ضوابط – بشمول ٹیکس، کسٹم، لیبر قوانین اور تجارتی سرگرمیوں پر قانونی قید و بند پر مبنی قواعد – نافذ العمل نہیں ہونگے اور یہ وہی چیز ہے جس کو شمعون پیریز نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 154 پر بیان کیا ہے۔
بن سلمان کے مطابق، نیوم منصوبہ 26,500 مربع کلومیٹر کا آزاد تجارتی-سیاحتی زون کا احاطہ کرے گا جہاں شمال اور مغرب کی جانب سے بحیرہ احمر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ نیوم منصوبے کا ایک ہزار مربع کلومیٹر مصر کے جزیرہ نمائے سینا، اور خاص طور پر شرم الشیخ کے سیاحتی علاقے، اور “تیران” اور “صنافیر” کے دو جزیروں میں خلیج عقبہ کے ساحل سے 468 کلومیٹر کی پٹی پر تعمیر کیا جائے گا۔
مصر کے علاوہ، نیوم منصوبہ اردن کے ایک حصے میں بھی نافذ کیا جائے گا، اور یہ 2500 میٹر بلند پہاڑوں کے ساتھ مل کر نیوم کی مشرقی حدود کو تشکیل دے گا۔
چنانچہ نیوم منصوبہ سینا اور خلیج عقبہ کے علاقے میں اور سعودیوں کے زیر تسلط جزیرہ نمائے عرب کی سرزمین میں نافذ ہوگا اور یہ وہ علاقہ ہے جو تاریخی لحاظ سے مصر سے فلسطین کی طرف جانے والا حضرت موسی (علیہ السلام) اور قوم یہود کے سفر کا راستہ ہے، اور اس راستے میں جبل اللوز، جبال الدک جیسی مقدس پہاڑیاں واقع ہیں۔
وضاحت یہ کہ جبال اللوز جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں تبوک شہر سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں اور یہ پہاڑ یہودیوں کے ہاں مقدس ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ خدا کی طرف کے 10 فرامین (Ten Commandments) طور سینا میں داخلے اور توریت کے نزول سے قبل، اسی جگہ حضرت موسی (علیہ السلام) پر نازل ہوئے ہیں۔
نیز جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سمندر میں شگاف ڈال دیا اور انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ سمندر کو عبور کیا، تو فرعون کی فوج، یہیں اور خاص طور اسی نقطے پر سمندر میں ڈوب گئی جو آج “ساحل نوبیع” کے نام سے مشہور ہے۔
نیوم منصوبے کا محل وقوع اور اس پر آنے والی لاگت
نیوم منصوبہ لبنان کے ڈھائی گنا اور غصب شدہ فلسطین کے ڈیڑھ گنا رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کا محل وقوع انتہائی تزویراتی اہمیت رکھتا ہے: بحیرہ احمر اور خلیج عقبہ کے اوپر واقع ہؤا ہے اور اس کی حدود میں ریاستی-ملکی سرحدوں (State-country Boundaries) کا کوئی تصور بے معنی ہے، اسی وجہ سے اس منصوبے کے پہلے سرمایہ کار صہیونی-یہودی ہیں۔
مبصرین کا اصرار ہے کہ نیوم منصوبہ “صدی ڈیل” (Century Deal) کا حصہ ہے جس رونمائی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں ہوئی اور ایک جغرافیائی نقشہ شائع کرکے اس منصوبے کو “عظیم تر اسرائیل” کا ایک نسخہ گردانا جا رہا ہے۔ وہی نسخہ جس کو پیریز نے اپنی کتاب “جدید مشرق وسطی” میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
یہ نقشہ پہلی بار سنہ 1917ع میں تنظیم “نوجوان یہودیہ” (Young Judaea) کے زیر اہتمام چھپنے والی (متعدد افراد کے لکھئے ہوئے مضامین پر مشتمل) کتاب “صہیونی قاعدہ” (A Zionist Primer) میں شائع ہؤا تھا۔ یہ کتاب نیویارک میں شائع ہوئی جس کا مقصد امریکی یہودی نوجوانوں میں شعور پیدا کرنا اور انہیں توریت اور مبینہ ارض موعود (Promised Land) کی تاریخ سے آشنا کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ اشیاء کا انڑنیٹ (The Internet of Things [IoT]) فی الوقت ایک پنپتا ہؤا خیال ہے، انسانی نسل کا اب تک اس طرح کے تعلق کا پہلے کوئی تجربہ نہیں رہا۔ اس کا بنیادی نقطہ دنیا کی حقیقی اشیاء کا انٹرنیٹ کی غیر مرئی یعنی ورچوئل یا مجازی اشیاء سے ربط پیدا کرنا ہے۔۔۔ اشیاء کا انٹرنیٹ ایک ایسے دور کی طرف لے جارہا ہے جہاں انسان کی خودمختاری ممکن ہے کہ الگورتھمز کے تابع ہو جائے؛ اشیاء کے انٹرنیٹ کے متعارف ہونے کی وجہ سے انسان کی نجی زندگی کو ڈیٹا جمع کرنے سے خطرہ ہوگا؛ ٹیکنالوجی کی دانش رکھنے والے پڑھے لکھے ہونگے اور نہ رکھنے والے ان پڑھ کی مانند؛ آلات کے چنگل سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اشیاء کا انٹرنیٹ ایسی سہولیات ساتھ لا رہا ہے جن کی بنا پر ان تمام ممکنہ خطرات کو مول لیا جاسکے گا۔ مزید تحقیق کے لئے دیکھئے: https://www.linkedin[.]com/pulse/انٹرنیٹ-آف-تھنگ-یعنی-اشیاء-کے-انڑنیٹ-انسانی-نسل-پر-atif/?trk=read_related_article-card_title
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں