ہندوستان، امریکی دوا ساز کمپنیوں کی جدید نوآبادی

ناخواندہ ہندوستانیوں کو کلینیکی تجربات سے متعلق رضامندی فارم کے مندرجات سے آگاہ نہیں کیا جاتا / بیرون ملکی طبی تحقیقات کی نگرانی میں امریکی محکمہ خوراک وادویات کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے/ امریکی کمپنیاں بھارتی ڈاکٹروں کو بڑی رقوم بطور رشوت دیتی ہیں اور اپنی دولت بڑھانے کے لئے غریب ہندوستانی عوام کا استحصال کرتی ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی دوا ساز کمپنیوں نے پچھلی دہائی کے دوران اپنی کاروائیوں کو بیرون ملک منتقل کر لیا ہے وہ اپنی تجرباتی دواؤں کو امریکی شہریوں پر آزمانے کے بجائے، زیادہ تر تجربات دور دراز کے علاقوں میں غریب عوام پر انجام دیتے ہیں۔
امریکی ہر سال اربوں ڈالر دواسازی میں استعمال ہونے والے مواد پر خرچ کرتے ہیں۔ ادویات کی بڑھتی ہوئی منڈی کی ضروریات کی تکمیل کے لئے، دواساز کمپنیاں اپنی زیادہ تر تحقیقات “کلینیکی تحقیقاتی تنظیموں” (CROs) (1) کے ذریعے بیرون ملک، عمل میں لاتی ہیں۔ “کلینیکی تجربات” انسانی نمونوں پر کئے جانے والے مطالعات ہیں، اور CROs ایک منافع بخش کاروبار ہے اور یہ آج تقریباً 30 ارب ڈالر کی صنعت ہیں۔ اس صنعت کے اصل کردار ریاست ہائے متحدہ میں ہی ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں پر تجربات کئے جاتے ہیں وہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ CROs دنیا کے 115 ممالک میں دواؤں اور ویکسین پر تجربات کرتی ہیں۔ گذشتہ 20 برسوں میں ان تجربات کا بیرون ملک ٹھیکے پر دینے کے عمل میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہؤا ہے۔ ریاستہائے متحدہ سے باہر کئے گئے کلینیکل تجربات کی تعداد میں سنہ 1990ع‍ کے مقابلے میں 20 گنا اضافہ ہؤا ہے۔

ہندوستان، ایک پرکشش تجربہ گاہی نمونہ
ایک ارب سے زیادہ کی آبادی کا ملک ہونے کے ناطے، ہندوستان اس صنعت کے لئے ایک نشوونما پاتی ہوئی منزل مقصود بن گیا ہے اور اس کے پاس ممکنہ تجربات کے لئے تجربہ گاہی نمونوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسی کشش اور جاذبیت کی بنا پر، بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں اور CROs نے کلینیکی تجربات کے لئے ہندوستان کا انتخاب کر لیا ہے۔ لیکن جس چیز کا وہ نام نہیں لیتے وہ اس ملک میں مفلوج کرنے والی غربت اور غریب اور امیر کے درمیان بڑھتا ہؤا فاصلہ ہے، جو ان کلینیکی تجربات کے انعقاد کے سلسلے میں بہت سے اخلاقی مسائل کو جنم دیتا ہے۔
سنہ 1984ع‍ میں ہندوستان کے مرکز میں واقع ریاست مدہیہ پردیش کے شہر بھوپال، اس ملک کا المناک ترین صنعتی حادثہ رونما ہؤا جس نے پورے ملک کو سوگوار کردیا۔ کیڑے مار دواؤں کے کارخانے سے میتھائل آئوسیانیٹ (Methyl isocyanate) نامی زہریلی گیس کا اخراج ہؤا، جس سے اس وقت کم از کم 7000 افراد ہلاک اور تقریبا 60000 ہزار افراد بری طرح متاثر ہوئے؛ اس حادثے کے اثرات بدستور باقی ہیں اور آج تک لاکھوں اس کے خطرناک اثرات کے متحمل ہورہے ہیں، جو مختلف قسموں کے دائمی امراض میں مبتلا ہیں۔ یہ کارخانہ امریکی کمپنی “یونین کاربائیڈ” (Union Carbide) سے تعلقات رکھتی تھی اور یہ کارخانہ آج کل ڈاؤ کیمیکل (Dow Chemical) کی ملکیت ہے۔ اس کمپنی نے متاثرین کے علاج معالجے کے نام پر “بھوپال میموریل ہسپتال و تحقیقاتی مرکز” (2) قائم کیا لیکن حتی کہ امریکیوں نے پھر بھی اپنے غیر اخلاقی اقدام کے ذریعے لاکھوں ہندوستانیوں کو قتل اور زخمی کیا بلکہ اسپتال بھی ان متاثرین کے علاج کے لئے نہ تھا بلکہ یہ اسپتال امریکی دواساز کمپنیوں کی کلینیکی تجربہ گاہ کے طور پر کام کررہا ہے۔
اس اسپتال نے بہت سارے افراد پر تجربے کئے ہیں لیکن ان افراد کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان پر کلینیکی تجربات ہورہے ہیں۔ حالانکہ قانون اور اخلاق کا تقاضا ہے کہ جن افراد پر تجربہ کیا جاتا ہے انہیں پہلے سے باخبر کیا جائے اور انہیں ان تجربات و تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ وہ تجربہ کرنے والوں کے ساتھ کس قسم کا تعاون کررہے ہیں اور تجربات کی نوعیت کیا ہے۔ مگر امریکیوں اور ان کے ٹھیکے پر کام کرنے والے ہندوستانیوں نے یہ مراحل طے نہیں کئے ہیں۔
بھوپال میں انسانی نمونوں پر غیر انسانی تجربات کی حقیقت اس وقت عیاں ہوئی جب بھوپال گروپ برائے معلومات و عمل یا بی جی آئی اے (3) کو بھوپال کے حادثے سے بچ جانے والوں میں سے کچھ افراد کے میڈیکل ریکارڈ سے متعلق کچھ دستاویزات دیکھنے کو ملیں۔ ان دستاویزات سے معلوم ہوتا تھا کہ اسپتال میں [بظاہر] زیر علاج رہنے والے افراد پر ادویاتی تجربے ہوئے ہیں۔
ستیناتھ سارنگی (Satinath Sarangi) جو بی جی آئی اے کے رکن اور خود بھی زہریلی گیس کے اخراج کے حادثے سے زندہ بچ جانے والوں میں شامل تھے اور متاثرین کے علاج معالجے کے لئے کلینک بنا چکے تھے اور “زہریلی گیس کنڈ [سکینڈل] سنگھرش مورچہ” کے بانی اراکین میں شامل تھے، کہتے ہیں: “جب طبی علاج کلینیکی تجربات کے ساتھ گھل مل جاتا ہے، تو ہمیشہ مسائل کا سبب بنتا ہے؛ کیونکہ علاج اور کلینیکل تجربات سے نہایت متضاد اور خطرناک مفادات حاصل کرنا مقصود ہوتے ہیں؛ اور زیادہ تر ہوتا یوں ہے کہ علاج اور کلینیکی تجربات گھل مل جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم یہاں ایسے “انسانوں” کی بات کررہے ہیں جن کے پاس انفرادی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے”۔
بھوپال میموریل ہسپتال و تحقیقاتی مرکز میں 100 سے زیادہ زندہ بچ جانے والوں پر کلینیکی تجربات عمل میں لائے گئے۔ ان تجربات سے ہسپتال نے ایک کروڑ ملین روپے (227,000 ڈالر) سے زیادہ کی آمدنی نصیب ہوئی ہے۔ اس نفرت انگیز اسکینڈل کے انکشاف کے بعد، حکومت ہند نے سرکاری ہسپتالوں میں کسی بھی قسم کے کلینیکی تجربات پر پابندی عائد کردی۔

شرکاء کی لاعلمی سے مسلسل ناجائزہ فائدہ اٹھانا
طبی عملے کے کچھ کارکن ہندوستان میں اس قسم کے تجربات کے بارے میں کہتے ہیں کہ “تجربات کے پروگرام میں شریک افراد سے رضامندی فارم پر دستخط کروائے جاتے ہیں، چنانچہ کوئی مسئلہ نہیں ہے”! لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دستاویزی تحقیق پر کام کرنے والوں نے ایسے افراد کا سراغ لگا لیا جو مکمل طور پر ناخواندہ تھے، اور انھوں نے جس فارم پر دستخط کئے ہیں، اس کے مندرجات سے بالکل ناواقف تھے۔ انہیں ہرگز معلوم نہ تھا کہ ان سے کس چیز پر دستخط لئے گئے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ میں کلینیکی تجربات کرنے والی کمپنیوں کو “کلینیکی تحقیقاتی تنظیموں کی انجمن (ACRO) (4) میں رکنیت لینا پڑتی ہے۔ یہ گروپ طبی تحقیق کی عالمگیریت کی پرزور حمایت کرتا ہے؛ اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں نئی ادویات اور ویکسین تیار کرنے کے لئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے باہر بڑی تعداد میں لوگوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔
مذکورہ ایسوسی ایشن کے مینجنگ ڈائریکٹر “ڈاک پیڈیکورڈ” کا کہنا ہے کہ “ایک کلینیکی تجربے میں شرکت کا رضامندی فارم تمام ممالک میں ایک جیسا ہونا چاہئے، خواہ ہندوستان میں خواہ ریاست ہائے متحدہ میں۔۔ ہماری نگرانی میں کام کرنے والی تمام تر کمپنیاں ہمارے پیشہ ورانہ معیاروں کے پابند ہیں، یہ معیار ہندوستان اور یورپ میں، امریکہ میں نافذ معیاروں سے مختلف نہیں ہیں۔
پیڈی کورڈ کے بیان کردہ معیارات کی نگرانی سب سے بڑا نگران ادارہ “ریاست ہائے متحدہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن” (ایف ڈی اے FDA) (5) کرتا ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی وزارت صحت نے “بیرونی نمونوں!” پر انجام پانے والی کلینیکی تحقیقات کا جائزہ لیا اور ان تحقیقات سے متعلق رپورٹ میں مذکور ہے کہ: سنہ 2008ع‍ میں ایف ڈی اے کی تائید کردہ 80٪ دواؤں میں غیر ملکی کلینیکی تجربات سے حاصل ہونے والی معلومات موجود تھیں؛ لیکن ایف ڈی اے نے ان مقامات میں سے 1٪ سے بھی کم مقامات کا معائنہ کیا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف ڈی اے تمام تر کلینیکی تحقیقات کی پیروی نہیں کرسکتی کیونکہ CROs نے تمام تر تحقیقات کو رجسٹر نہیں کیا ہے۔

ڈاکٹروں کی مالی امداد یا منہ بھرائی
ترقی یافتہ ممالک کے برعکس، – جہاں طبی تجربات میں شرکت کرنے والوں کے لئے متعدد محافظین تعینات کئے جاتے ہیں، – ہندوستان میں اس قسم کے تحفظ کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کمزور ہے اور بجٹ کم ہونے کی وجہ سے ان کے کافی تعداد میں معائنہ کار بھی نہیں ہوتے۔ دوسری طرف سے CROs اور دواساز کمپنیاں کلینیکی ٹیسٹوں میں شرکت کرنے والے ہر شخص کے عوض، ڈاکٹروں کو ادائیگیاں کرتی ہیں۔ کچھ ہندوستانی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان رقموں کی ادائیگی سے مفادات کا تصادم معرض وجود میں آتا ہے، کیونکہ اس صورت میں ڈاکٹر دواساز کمپنیوں اور اپنے بیماروں، [دونوں] کے لئے کام کرتے ہیں؛ حالانکہ ایک معالج کا پہلا فرض مریض کے لئے کام کرنا ہوتا ہے نہ کہ صنعت کے لئے۔
یہ بھی اطلاع ہے کہ ڈاکٹروں کو ادائیگیوں کے طور پر مفت طبی ساز و سامان دیا گیا ہے، حتی کہ انہیں کاریں دی گئی ہیں، اور علاوہ ازیں سائنسی کانفرنسوں جیسی میٹنگوں کے لئے نہیں بلکہ چھٹیاں منانے اور عیش و عشرت کے لئے انہیں مالی امداد دی جاتی ہے۔
غریب لوگ جو دوا ساز کمپنیوں کو امیر بناتے ہیں
یہ امریکی کمپنیاں اس لئے بھی ہندوستان جیسے ملکوں کا رخ کرتی ہیں، کہ وہ وہاں کے مریضوں کی لاچارگی کو جانتے ہیں۔ ان کے پاس بیمۂ صحت نہیں (Health Insurance) نہیں ہے اور وہ اپنی ہی مرضی سے صحتمند ہونے کے لئے ہر چیز کو اپنے اوپر آزماتے اور ہر کسی کا نسخہ قبول کرتے ہیں اور پھر کلینیکی تجربات میں ان سے کوئی رقم نہيں لی جاتی اور انہیں مؤثر علاج کی امید بھی ہوتی ہے۔ لیکن درحقیقت ان حالات کو ’’شعوری رضامندی‘‘ نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہاں جبر کا عنصر بڑا نمایاں ہے۔ بات یہ ہے کہ مریضوں کو بتایا جاتا ہے کہ “اگر آپ علاج چاہتے ہیں تو آپ کو ان تجربات میں حصہ لینا ہوگا”؛ اور انہیں حصہ لینا ہی پڑتا ہے کیونکہ دوسری صورت میں انہیں کچھ بھی ملنے کی امید نہیں ہے۔
بہت سے ہندوستانیوں کے لئے طبی خدمات تک رسائی ممکن نہیں ہے؛ ہندوستان بھر میں ہر سال تقریبا کم از کم 10 لاکھ افراد طبی خدمات نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اس ملک کی 70 کروڑ افراد (آدھی سے زیادہ آبادی) اسپیلشسٹ ڈاکٹر تک رسائی سے محروم ہے۔ ہندوستان میں ان مراکز (CROs) کے ایک کارکن کے کہنے کے مطابق، ان تجربات میں (کلینیکی نمونہ بن کر) شرکت کرنے والے 95٪ افراد غریب اور نادار ہیں اور باقی 5٪ لوگ “جامعات کے طلباء” ہیں۔

ہلاکت خیز تجربات
ادویاتی تجربات ہندوستان میں بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کمپنیوں اور کثیر الاقوامی (M.National) کارپوریشنوں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک کو معرض وجود میں لاتے ہیں؛ اس مسئلے کے بہتر ادراک کے لئے ذیل کی کہانی کو غور سے پڑھئے:
مرک (Merck) کمپنی کا ہیڈکوارٹر نیو جرسی میں ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے اور سنہ 2010ع‍ میں اس نے عالمی سطح پر 46 ارب ڈالر کی دوائیں بیچ ڈالیں۔ اس سے پہلے سنہ 2006ع‍ میں “ریاست ہائے متحدہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن” [ایف ڈی اے] نے پہلی مرک ویکسین کا لائسنس جاری کیا جو انسانی ورم حلیمی وائرس (HPV) اور سرطان عنقی (Cervical cancer) کا سد باب کرنے کے لئے پہلی ویکسین تھی۔ لیکن گارڈسیل ویکسین کی تیاری کے بعد اس کی فروخت میں مسلسل کمی آئی اور سنہ 2007ع‍ میں ڈیڑھ ارب ڈالر سے 2010ع‍ میں 98 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تک پہنچی۔ فروخت میں کمی آنے سے پہلے مرک نے ایک غیر منافع بخش بین الاقوامی ادارے “پاتھ” (PATH) (7) کے ساتھ شراکت کا آغاز کیا تھا۔ پاتھ کا ہیڈکوارٹر سیٹل (Seattle) میں واقع ہے اور اس کی توجہ صحت عامہ کی پالیسیوں پر مرکوز ہے۔ مرک اور – اور ایک دوسری دواساز کمپنی – گلیکسو اسمتھ کلائن (8) نے یہ ویکسین پاتھ کے سپرد کردی اور پاتھ نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن سے لی ہوئی دو کروڑ 78 لاکھ ڈالر کی امداد کے ذریعے پیرو، یوگنڈا، ویتنام اور ہندوستان میں ایک راہنما منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ عالمی سطح پر عنقی سرطان کے ایک چوتھائی کیسز ہندوستان میں رونما ہوتے ہیں۔ پاتھ نے ان دو دواؤں کے اثرات جانچنے کے لئے ہندوستان کی ہزاروں لڑکیوں کو ٹیکے لگائے۔ پاتھ کا مقصد اس ویکسین کو ہندوستان کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں شامل کرنا تھا۔
ریاست آندھرا پردیش میں ریاست گجرات کا انتخاب کیا گیا، جہاں لوگوں کا بنیادی پیشہ زراعت ہے۔ اسکولوں کی طالبات پر کئے گئے ان تجربات کے نتیجے میں کئی طالبات جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں؛ توقع کے عین مطابق!، ان واقعات کی کوئی مناسب تحقیق نہیں کی گئی۔ اور مقتولہ بچوں کے اہل خانہ کی صدائے اعتراض کہیں بھی نہ پہنچ سکی۔ ہندوستانی حکومت نے اس منصوبے کو مکمل ہونے سے چند ہفتے قبل ہی معطل کر دیا تھا۔ حکومتی رپورٹ میں کہا گیا کہ “چونکہ اس منصوبے کے پس پردہ کوئی بدنیتی پر مبنی ارادہ کارفرما نہیں تھا، اس لئے کسی ایک فرد پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔” جو یقینا ان دردناک اور تلخ واقعات کے لئے ایک ناکافی وضاحت ہے؛ حالانکہ پاتھ کے تجربات کا مقصد انسانی ہمدردی پر مبنی نہیں بلکہ ہندوستانی منڈی پر قبضہ کرنا تھا۔

جدید سامراج
امریکی دوا ساز کمپنیوں نے پچھلی دہائی کے دوران اپنی کاروائیوں کو بیرون ملک منتقل کرلیا ہے اور تجرباتی ادویات کے ٹیسٹ امریکیوں پر انجام دینے کے بجائے وہ زیادہ تر تجربات دور دراز کے علاقوں کے غریب لوگوں پر کر رہی ہیں۔ روس، چین، برازیل، پولینڈ، یوگنڈا اور رومانیہ کلینیکی تجربات کلینکل ٹرائلز یا کلینکل ٹرائلز کا مرکز ہیں۔ اس صنعت نے کسی دوسرے ملک میں اتنی سرمایہ کاری نہیں کی جتنی کہ اس نے ہندوستان میں کی ہے۔
ہندوستان میں انگریزی زبان کا طبی ڈھانچہ قائم کیا گیا ہے جو غیر ملکی صنعتوں کے تئیں رویوں – اور زیادہ اہم بات یہ کہ ان غریب اور ناخواندہ لوگوں – کا خیر مقدم کرتا ہے جن پر تجربہ کیا جا رہا ہے اور وہ نئی دوائیں آزمانے کی طرف راغب ہیں اس بنیادی وجہ نے بھارت کو ادویات کی جانچ کے لیے ایک بڑی لیبارٹری میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی، قومی سالمیت اور خودمختاری کو پامال کیا گیا ہے اور درحقیقت امریکی کمپنیوں نے ہندوستانی عوام کے حقوق کو پامال کرکے اس ملک کو اپنی نوآبادی میں تبدیل کر دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Footnotes:
1. Clinical research organizations [CROs]
2. Bhopal Memorial Hospital and Research Center
3. Bhopal Group for Information and Action [BGIA]
4. Association of Clinical Research Organizations [ACRO]
5. US Food and Drug Administration [FDA]
6. Human papillomavirus infection [HPV]
7. Program for Appropriate Technology in Health [PATH]
8. GlaxoSmithKline