کتاب ‘یہودی قوم کیسے بنی؟’ کا تعارف

یہ کتاب تاریخ کے بارے میں ایک کاوش ہے، جس کا آغاز چند ذاتی داستانوں سے ہوتا ہے۔ مصنف اس کتاب کی سطور میں پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی جبری جلاوطنی کے افسانے پر بطلان کی لکیر کھینچے ہیں اور کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے یہودی ان نومذہب یہودیوں کی اولاد میں سے ہیں جن کی جنم بومیاں مشرق وسطی اور مشرقی یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اس کتاب کے مصنف شلومو زند نے پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودی قوم کی جلاوطنی کے جھوٹے افسانے کو باطل کرکے رکھ دیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج کے زیادہ تر یہودی نو مذہب افراد کی اولادیں ہیں اور ان کی جنم بومیاں مشرق وسطی اور مشرقی یورپ کے تمام ممالک میں واقع ہیں۔
کتاب “اختراعِ قومِ یہود” (The Invention of the Jewish People) جو کہ یہودیوں اور اسرائیل کی تاریخ کی ایک روایت ہے، کے مصنف شلومو زند (Shlomo Sand [Zand]) ہیں جس کا فارسی ترجمہ احمد علی قُلیان نے کیا ہے اور “فرہنگ نشر نو” پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ شلومو زند (שלמה זנד) 10 ستمبر سنہ 1946ع‍ کو آسٹریا میں پیدا ہوئے۔ وہ تل ابیب یونیورسٹی کے سبکدوش پروفیسر ہیں. شلومو زند اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب “اختراعِ قومِ یہود” شائع کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ زند اس وقت تل ابیب کے رامات آویو نامی محلے میں رہائش پذیر ہیں۔

کتاب کا شناخت نامہ
اختراعِ قومِ ہہود
مصنف : شلومو زند (Shlomo Sand [Zand])
مترجم : احد علی قُلِیان
پبلشر : فرہنگِ نشرِ نو
سال اشاعت : فارسی ترجمہ 1397ہجری شمسی (انگریزی نسخہ : 2008ع‍)
صفحات کی تعداد تعداد: 532

کتاب کا تعارف
مصنف، ایک اسرائیلی مورخ ہیں جنہوں نے پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی جبری جلاوطنی کے افسانے کو غلط ثابت کرتے ہوئے دلیل دی ہے کہ آج کے زمانے کے زیادہ تر یہودی ان نو مذہب لوگوں کی اولاد میں سے ہیں جن کی جنم بومیاں مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں پھیلی ہوئی تھی۔ شلومو زند کی یہ روایت شکن کتاب میں 19 ہفتوں تک یہودی ریاست کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کاوش رہی۔ یہ کتاب اسرائیل کے مستقبل کی ایک نئی تصویر کشی کے لئے فکری بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ اس کتاب کا فرانسیسی نسخہ تین مرتبہ شائع ہؤا۔ اور شلومو زند اس کاوش پر فرانس کے رشک انگیز انعام “آج” (Prix Aujourd’hui) سے نوازا گیا؛ یہ انعام صحافیوں کی طرف سے غیر افسانوی تاریخی یا سیاسی کاوشوں پر دیا جاتا ہے۔
کتاب کے مندرجات کو ایک تعارف اور 5 ابواب میں مرتب کیا گیا ہے:

تمہید : یادوں کا بھاری بوجھ
• قوم کی تعمیر : حکمرانی اور مساوات
• تاریخ – افسانہ : آغاز میں خداوند نے قوم کو پیدا کیا
• جلاوطنی کا اختراع [جلاوطنی کا افسانہ] : دین اور دین کی تبدیلی کی دعوت
• خاموشی کی اقالیم : کھوئے ہوئے (یہودی) زمانے کی تلاش
• امتیاز : اسرائیل میں شناخت [تشخص] کی سیاست

تاریخی جھوٹ کو بےنقاب کرنا
شلومو زند کہتے ہیں: بدقسمتی سے، میرے معدودے چند ہی ساتھی (اسرائیلی تاریخ کے اساتذہ) ماضی کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے خطرناک تعلیمی مشن کو اپنانا، اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ میں یہ کتاب لکھ کر اسرائیل میں اپنی رہائش جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قوم یہود کے بارے میں ان کی تلقینات اور تاریخ کی عام فہم و ادراک میں فرق نے اسرائیل میں بھی اور وسیع تر دنیا میں بھی، انہيں اور ان کے قارئین کو یکسان طور پر حیران کردیا۔

یہودیوں کی جبری جلاوطنی کا افسانہ
یہ کتاب تاریخ کے بارے میں ایک کاوش ہے، جس کا آغاز چند ذاتی داستانوں سے ہوتا ہے۔ مصنف اس کتاب کی سطور میں پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی جبری جلاوطنی کے افسانے پر بطلان کی لکیر کھینچے ہیں اور کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے یہودی ان نومذہب یہودیوں کی اولاد میں سے ہیں جن کی جنم بومیاں مشرق وسطی اور مشرقی یورپ میں پھیلی ہوئی ہیں (یعنی ان لوگوں کی نسل سے ہیں جنہوں نے بعد میں یہودی مذہب اختیار کیا ہے اور وہ بنی اسرائیلی نہیں ہیں)۔

کتاب “اختراعِ قومِ یہود” پر ہفتہ وار رسالے آبزرور کی شائع کردہ تنقید کے مطابق، یہ کتاب ایک خاموش بھونچال کا سبب بنی ایسا بھونچال جو یہودیت اور اسرائیل کے درمیان کے رشتے میں ایمان پر لرزہ طاری کر رہا ہے۔
مصنف کا استدلال ہے کہ معاصر دور کے زیادہ تر یہودیوں کی جڑیں اسرائیل کی قدیم سرزمینوں میں پیوست نہیں ہیں؛ اور ایک مشترکہ جڑ کے ساتھ ایک “ملت – قوم” (Nation – People) کے طور پر ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔ آج کی دنیا کی بہت سی یہودی آبادیاں یورپی، روسی اور افریقی گروہوں کی اولادیں ہیں۔

یہودیوں کے مذہب کی تبدیلی
شلومو زند کا کہنا ہے کہ اسرائیل ميں رہائش پذیر اصل یہودی – مروجہ تصور کے برعکس، بر کوخبا کی بغاوت (Bar Kokhba revolt) کے بعد جلاوطن نہیں ہوئے تھے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ زیادہ تر یہودیوں کو رومیوں نے جلاوطن نہیں کیا تھا اور انہیں ملک میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ بہت سے یہودیوں نے عربوں کی فتح کے بعد اسلام قبول کیا اور فاتحین مسلمانوں کا جزو بن گئے۔ وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ فلسطینی عربوں کے آباء و اجداد یہودی تھے!
زند کا کہنا ہے کہ یہودیوں کی جلاوطنی کی داستان ایک بےبنیاد افسانہ ہے جو ابتدائی عیسائوں نے یہودیوں کو نئے مذہب (عیسائیت) کی طرف مائل کرنے کی غرض سے گھڑ لیا ہے اور جبری جلاوطنی کو یہودیوں کے لئے خدا کی طرف سے سزا قرار دیتے ہیں جنہوں نے عیسائی انجیل کو مسترد کیا تھا! زند کا کہنا ہے کہ “عیسائی چاہتے تھے کہ یہودیوں کی آنے والی نسلیں باور کریں کہ ان کے آباء و اجداد خدا کی طرف کی سزا کے نتیجے میں جلاوطن ہوئے ہیں”۔

تاریخ اسرائیل کالج پر تنقید
شلومو زند اسرائیل کی سرکاری اور علمی تاریخ کے ماحول پر تنقید کرتے ہوئے خیال ظاہر کرتے ہیں کہ “قوم یہود”، “آبائی سرزمین”، “جلا وطنی”، “انتشار (یا دربدری)”، “اسرائیل کی طرف ہجرت”، “سرزمین اسرائیل” اور “سرزمین توبہ” اسرائیل میں قومی ماضی کی ہر قسم کی تعمیر نو کے کلیدی الفاظ ہیں؛ اور ان کے استعمال سے انکار بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
مصنف نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے شاذ و نادر ہی نئی دریافتیں کی ہیں، اور یہ کہ زیادہ تر نصوص اور مواد کو کم و بیش پرانے صہیونی اور اسرائیلی مورخین نے دریافت کرلیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ عناصر پر توجہ نہ دی جاتی اور ان کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔
رسمی نقطہ نظر میں، کچھ “بھولے ہوئے” عناصر کی نظریاتی ضروریات کے ساتھ عدم مطابقت، ان کی قومی شناخت کے فراموش ہوجانے کا باعث بنی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سرکاری اور رسمی تعلیمی نظام، بنی بنائی ثقافتی یادوں کو مضبوط کرتا ہے اور صرف غالب، مروجہ سرکاری طور پر مُجاز روایت کو پیش کرکے متوازی روایات کا انکار کرتا ہے۔
شلومو کا خیال ہے کہ کمیونٹی کے ارکان اور مورخین بھی اجتماعی یادداشت (Collective memory) کی پرتوں کے ڈھیر لگانے میں مصروف ہیں۔ معاشرے کا ہر فرد اور ہر مورخ ماضی کی نظریاتی جدوجہد کو تشکیل دینے والے متعدد بیانیوں اور روایتوں کو اپناتا ہے۔ صرف ایک تحقیقی ماحول میں، اور مشکل سوالات پوچھ کر، ایک محقق اپنے ذہن اور معاشرے میں ثقافتی طور پر بنائے ہوئے بناوٹی معیاروں کی حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے، ایسے معیار جن پر لوگوں کے تصورات اور افکار کو ضرور بضرور پرکھا جاتا ہے! “لہٰذا مورخ در حقیقت ذاتی تجربات اور سیکھائی پڑھائی یادوں کی نفسیاتی اور ثقافتی پیداوار کا مجموعہ ہوتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔