امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے شرمناک راستے کا انتخاب کیوں کیا؟
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: متحدہ عرب امارات اور بحرین نے سعودی عرب کی کھلی حوصلہ افزائی کے ساتھ 2020 میں صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لایا اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد صہیونی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات مصر اور اردن کے تعلقات سے زیادہ مضبوط ہو گئے، جس سے عربوں بلکہ خود صہیونیوں کو حیرت ہوئی۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اسرائیل کے ساتھ فوجی اور سیکیورٹی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور امارات کو اسرائیل سے فضائی دفاعی نظام ملنے کی امید ہے۔ بحرین، اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی اور فوجی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد آہستہ آہستہ اسرائیلی جنگی طیاروں کے لیے ایک فوجی بندرگاہ بن رہا ہے۔
صہیونی ریاست کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے تعلقات معمول پر آنے کو بہت سے لوگ دونوں ممالک کی حکمران حکومتوں کے لیے رسوائی اور ذلت سمجھتے ہیں اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ دونوں حکومتیں خاص طور پر بحرین نے اپنے عوام کی علیحدگی کی وجہ سے اس ذلت کا طوق اپنے گلے میں پہنا ہے۔
آل خلیفہ حکومت بحرین کے لوگوں سے خود کو الگ تھلگ محسوس کرتی ہے اور اس کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے وہ ملک کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حملوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے یا بحرین کو “اسرائیل” کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی۔
بعض کا امارات-بحرین کی اس ذلت کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ ایران کے خوف سے دونوں ملکوں نے اسرائیل کی گود میں پناہ لی ہے۔ لیکن اس امریکی سازش کا مقصد دشمن کے طور پر اسرائیل کے بجائے ایران کو پیش کرنا ہے کیونکہ اگر ایران واقعی خطرہ ہوتا تو امریکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کو اس خطرے سے بچاتا اور انہیں اسرائیل سے شرمندگی کے ساتھ گلے ملنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت مقاومتی محاذ کے محاصرے سے پریشان ہے اس وجہ سے وہ اپنے جرائم کے نتائج سے خوفزدہ ہوئے بغیر پہلے ہی جہنم میں گر رہی ہے۔
تبصرہ کریں