ناانصافی کے لحاظ سے دنیا کا بدترین معاشرہ

دولت کی تقسیم کے اس عمل نے امریکہ کو عالمی معیاروں کے مطابق سالانہ آمدنی اور ذاتی دولت میں عدم مساوات کی بدترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ یہاں تک کہ آج امریکہ ترقی یافتہ ممالک کے درمیان سالانہ آمدنی اور ذاتی دولت میں عدم مساوات کی انتہاؤں پر ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی معاشرے کا تیسرا مسئلہ سالانہ آمدنی کے درمیان عدم مساوات اور ساتھ ساتھ معاشرتی حرکت پذیری کا انجماد ہے۔ یہ سماجی آگہی اور جمہوری پائیداری کے لئے طویل المدت خطرہ ہے۔ جبکہ سماجی آگہی اور جمہوری پائیداری وہ دو شرطیں ہیں جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے ایک با اثر خارجہ پالیسی کے لئے ضروری ہیں۔
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ ۱۹۸۰ع‍ کے بعد، امریکہ میں مالیاتی لحاظ سے طبقاتی دراڑ ہر روز وسیع سے وسیع تر ہوئی ہے۔ سنہ ۱۹۸۰ع‍ میں ۵فیصد امریکی اشرافیہ پوری امریکی سالانہ آمدنی کے ۱۶/۵ فیصد حصے کی مالک تھی جبکہ معاشرے کا ۴۰ فیصد نچلے طبقے کو حاصل ہونے والی آمدنی سالانہ قومی آمدنی کے ۱۴/۴ فیصد کے برابر تھی؛ سنہ ۲۰۰۸ع‍ میں یہ نسبت ۲۱/۵ فیصد اور ۱۲ فیصد تھی۔ دولت کی تقسیم ـ نہ کہ ہر خاندان کی سالانہ آمدنی ـ اس سے بھی زیادہ کم تھی: امریکی فیڈرل ریزرو بینک (اسٹیٹ بینک) کی رپورٹ کے مطابق، ۲۰۰۷ع‍ میں (امیرترین خاندانوں پر مشتمل) امریکہ کی صرف ۱ فیصد آبادی امریکی قومی دولت کے ۳۳/۵ فیصد حصے کی مالک تھی۔ جبکہ امریکہ کی (غریب اور متوسط طبقات پر مشتمل) ۵۰ فیصد آبادی صرف ۵/۲ فیصد کی مالک تھی۔
دولت کی تقسیم کے اس عمل نے امریکہ کو عالمی معیاروں کے مطابق سالانہ آمدنی اور ذاتی دولت میں عدم مساوات کی بدترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ یہاں تک کہ آج امریکہ ترقی یافتہ ممالک کے درمیان سالانہ آمدنی اور ذاتی دولت میں عدم مساوات کی انتہاؤں پر ہے۔ سالانہ آمدنی میں اس طرح کی عدم مساوات شاید زیادہ قابل قبول ہو بشرطیکہ امریکی مالے سپنے تک پہنچنے کے لئے ایک سماجی سرگرمی اس کا ساتھ دے۔ لیکن گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ کی سماجی حرکت حتمی طور پر جامد رہی جبکہ ان ہی برسوں میں سالانہ آمدنی میں عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور یہ اضافہ کبھی بھی نہیں رکا۔
جینی عددی سر (۱) کی دی ہوئی حالیہ معلومات کے مطابق، دنیا کی اہم معیشتوں میں سالانہ آمدنی کے لحاظ سے امریکہ کا رتبہ بدترین ہے۔ گوکہ چین اور روس بھی اس حوالے سے امریکہ کے ہم پلہ ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں البتہ برازیل ایسا ملک ہے جس کا رتبہ اس لحاظ سے امریکہ سے بہتر ہے۔
مالیاتی کامیابیوں اور ناکامیوں کی سرزمین
علاوہ ازیں، حالیہ تحقیق، جو امریکہ کی دو نسلوں کی مالی آمدنی کی منتقلی کا مختلف یورپی ممالک سے موازنہ کرتی ہے، واضح کرتی ہے کہ ریاستہائے متحدہ “[یعنی] کامیابی کی سرزمین” کی مالیاتی حرکت پذیری دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے کم ہے۔
اس سے بھی بدتر یہ کہ امریکہ کی مالیاتی حرکت پذیری بہت ہی سست روی کے ساتھ بعض یورپی ممالک کے پیچھے پیچھے ترقی کررہی ہے۔ اس مسئلے کی ایک بنیادی وجہ امریکہ کا کمزور، ناقص اور ناکافی تعلیمی و تربیتی نظام ہے۔ تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (Organization for Economic Co-operation and Development) کی رپورٹ کے مطابق امریکہ پرائمری اور مڈل کی سطح کے ہر طالب علم کی تعلیم و تربیت کے لئے ـ دوسری ممالک کی نسبت ـ کہیں زیادہ اخراجات برداشت کرتا ہے؛ لیکن ابھی تک دنیا کے صنعتی ممالک کے درمیان منعقدہ امتحانات میں سب سے کم نمبر حاصل کرنے والوں میں شامل ہے۔
یہ صورت حال ـ افرادی قوت نامی سرمائے کو چھوڑ دینے اور اس سرمائے سے فائدہ نہ اٹھانے کے بموجب ـ امریکی اقتصادی تناظر کا رس نکال دیتی ہے، جبکہ امریکہ کی عالمی جاذبیت کو تنزلی سے دوچار کرتی ہے۔ اس عدم مساوات اور ناانصافی کی اہم ترین نشانیوں میں سے ایک نشانی کو “عوام کے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے” میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جو محنت کش اور مزدور امریکی معاشی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں، اب امریکہ کے اقتصادی اداروں کی یکطرفہ پالیسیوں کی مخالفت کے اظہار کے لئے ہلیری کلنٹن کے رقیب کو ووٹ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کا انتخاب اس ملک میں جاری اقتصادی ظلم و بےرحمی کا انتہاپسندانہ رد عمل تھا۔
گوکہ ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا ٹرمپ ان کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے اور اس راستے پر گامزن ہوکر ان کے مسائل حل کرسکیں گے یا پھر طبقاتی دراڑوں کو وسیعتر اور حالات کو بد سے بدتر کریں گے!

حوالہ جات:
۱۔ جینی عددی سر (Gini coefficient) جسے کبھی کبھار جینی تناسب (Gini ratio) بھی کہا جاتا ہے، کسی ملک کے رہائشیوں کی آمدنی یا دولت کی تقسیم کی نمائندگی کرنے کے لیے اعداد و شمار کی منتقلی کا اندازہ، اور سالانہ آمدنی میں عدم مساوات واضح کرنے کا پیمانہ ہے۔
۲۔ بےیی بومرز (Baby boomers) سنہ ۱۹۴۶ع‍سے ۱۹۶۴ع‍کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کو کہا جاتا ہے۔ اس دور کو امریکہ میں شرح پیدائش کے اضافے کے دور کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔