ہندوستان و اسرائیل کے مابین باہمی تعاون پر ایک نظر
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہندوستان و صہیونی حکومت کے درمیان کے تعلقات ۱۹۹۲ میں، نرسمہا راو [۱]کی وزارت عظمی کے دور میں بر سرعام و سنجیدہ تعلقات میں ڈھل گئے گرچہ ۱۹۵۰ ء میں ہندوستان کی جانب سے اسرائیل کو قانونی طور پر قبول کر لینے کی بنا پرہندو اسرائیل کے ما بین رشتہ تو پہلے ہی قائم ہو چکا تھا لیکن ہندوستان کی جانب سے صہیونی حکومت سے بے نیازی کے احساس کے تحت اور مصر کے سربراہ جمال عبد الناصر سے ہندوستان کے نزدیکی تعلقات کی بنا پر، ہندوستان و اسرائیل کا آپسی تعلق ایسا نہیں تھا جسے قابل اعتنا کہا جاِئے ،یعنی مصر سے رابطہ اس قدر اچھا تھا کہ ہندوستان کو اسرائیل سے رابطہ کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی ، یہی وجہ تھی کہ صہیونی حکومت نے ہندوستانی حکومت سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں تاکہ بعض ہندوستانی پارٹیوں اورپارلیمنٹ کے اراکین کے درمیان اپنا اثر و رسوخ قائم کر کے ہندوستان سے تعلقات کو جتنا ہو سکے مضبوط بنائے ، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے حکومت میں آنے کے بعد بلکہ اس سے قبل جنتا پارٹی کے دور میں ۱۹۷۷کے نزدیک بھی مرار جی ڈیسائی کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے دونوں کے تعلقات مزید مستحکم ہوتے ہیں ۔
یہ آپسی تعلقات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ہندوستانی وزیر اعظم کا نمائندہ نیز بی جے پی سے متعلق افراد پر مشتمل مختلف وفود مقبوضہ فلسطین کی جانب سفر کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان پختہ روابط کا سبب بنتے ہیں ۔
یوں تو ہندوستان فوجی ساز وسامان اور اسلحوں کے اعتبار سے سوویت یونین سے وابستہ تھا ، لیکن ۱۹۹۰ میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب سرد جنگ کے اختتام پر ہندوستان اپنے متحد کو کھو دیتا ہے تو اسے ایک نئے ساتھی کی تلاش ہوتی ہے ، یہ وہ دور ہے جب پاکستان اور چین مضبوط ہو جاتے ہیں جنکا ہندوستان سے اختلاف چلا آ رہا تھا چنانچہ ہندوستان دنیا کی جدید ٹکنالوجی اور عسکری انفرانسٹریکچر اور اسلحوں کے حصول کے لئے نئے ساتھی کو تلاش کرنا شروع کرتا ہے تاکہ اپنے دیرینہ دشمن سے مقابلہ کر سکے یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اسرائیل کی طرف دیکھتا ہے اور ہندوستان میں سب ہی اس بات کو مانتے ہیں کہ صہیونی حکومت یورپ اور امریکہ کے درمیان ایک پل کا کام کر سکتی ہے، اسرائیل نے بھی موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پورا فائدہ اٹھایا اور جدید ترین آلات حرب بیچنے کی پیشکش ہندوستان کے سامنے رکھ دی ، وہ اسلحے جنکو مغرب ہندوستان کو نہیں دے رہا تھا ۔ یہ تعلق اس قدر گہرا ہو گیا کہ ہندوستان علاقے کی ایک طاقت بن کر ابھرا اس کے بدلے ہندوستان نے بھی غیر وابستہ و غیر جانب دار ممالک [۲]کے ایک رکن کی حیثیت سے بین الاقوامی کانفرنسوں میں اسرائیل کی حمایت کرنا شروع کر دی ۔
عسکری اور فوجی تعاون :
جیساکہ بیان ہوا اسرائیل و ہندوستان کے مابین تعاون زیادہ تر آلات حرب و جنگی ساز و سامان و اسلحوں کے بارے میں رہا البتہ ایک اسرائیلی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۸ ء میں جوہری توانائی اور ایٹمی ٹکنالوجی جیسے مسائل بھی مشترکہ تعاون کا حصہ رہے ۔اور یہ بات قابل توجہ اور حیرت انگیز ہے کہ انکے بہت سے اسلحوں کا ماڈل اور انکی ساخت بھی ایک دوسرے سے کافی مشابہہ ہے ، مثال کے طور پر ہندوستانی ساخت کا چھوٹا اور ہلکا جہاز اسرائیل کے لوی جہازسے بہت مشابہہ ہے یا پھر پرتھوی اور اگنی میزائل اسرائیل کی اریحا میزائیل سے مشابہت رکھتی ہے ، جدید اسلحوں کے سلسلہ سے بھی صہیونی حکومت نے باراک نامی دفاعی میزائلی سسٹم ،اور (ALH) نامی ہیلی کاپٹرز ، آرو ۲ میزائل شکن سسٹم ، ہوائی وارننگ کا فالکون نامی سسٹم جیسے اہم فوجی آلات و سازو سامان ہندوستان کو دیے ہیں، اسکے علاوہ صہیونی حکومت نے ہندوستان کی فضائیہ کو بھی بعض موقعوں پر ٹریننگ دی ہے حتی مل کر مشترکہ مشقیں بھی کی ہیں۔
اقتصادی تعاون و تعلقات :
ہندوستان اپنی بڑی آبادی کی بنیاد پر اقتصادی میدان میں نفری صلاحیت کو ایکسپورٹ کرنے والے ملک کے طورپر جانا جاتا ہے ، اور آئی ٹی کے شعبے میں قابل دید حد تک اس نے ترقی کی ہے ، یہ ترقی اس حد تک ہے کہ میدان کی زیادہ تر مصنوعات مقبوضہ فلسطین ایکسپورٹ ہوتی ہیں حتی اس معاملہ میں ہندوستان چین اور جاپان سے بھی زیادہ آگے ہے ، اسکے علاوہ ، ہیرے جواہرات ، قیمتی پتھر ، کپڑا ، کیمیکل اور میڈیکل مواد ، یہ ساری چیزیں بھی ہندوستان سے اسرائیل جاتی ہیں اور اسکے مقابلہ میں اسرائیل ، ٹکنالوجی ، قدرتی و غیر آلودہ توانائی ، نینو ٹکنالوجی ، جدیدآبپاشی سسٹم ، فنی وتکنیکی انفراسٹریکچر سے مرتبط چیزوں کو ہندوستان ایکسپورٹ کرتا ہے [۳]۔
۱۹۹۲ ء میں دونوں طرف کے درمیان تجارت کا تبادل ۲۰۰ ملین ڈالر سے شروع ہو کر آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور مبادلات کی مقدار ۲۰۱۱ء میں ۵/۱۹ ارب ڈالر ہو جاتی ہے ۔ ہندوستان و اسرائیل کے باہمی تعلقات روز بروز بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے زمانے میں دونوں طرف ثقافتی، تعلیمی، سکیورٹی و سلامتی، علمی و دیگر میدانوں میں تعاون[۴] کو بے حد فروغ ملا ہے اور انکے درمیان ایک ایسا تعلق استوار ہوئے جسمیں جدائی و شگاف بہت ہی مشکل ہے[۵] ۔
حواشی
[۱] ۔ narasimha Rao
[۲] ۔ غیر وابستہ ممالک کی تحریک {Non-Aligned Movement (NAM) یہ تحریک ایسے ممالک کے ایک فورم کے طور پر کام کرتی ہے جو کسی بڑی طاقت کے ساتھ منسلک نہ ہوں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے کچھ ممالک امریکا کے اتحادی تھے تو کچھ روس کے، اس تحریک کا مقصد خود کو دونوں سے غیر جانب دار رکھنا تھا۔
اس تحریک کا قیام ۱۹۶۱ میں بلغراد میں عمل میں آیا۔۲۰۱۲ میں اس تحریک کے ۱۲۰ ممالک رکن بنے جبکہ ۱۷ ممالک مبصر کے طور پر اپنے ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ تفصیل کے لئے NAM Members & Observers – ۱۶th Summit of the Non-Aligned Movement”. Tehran. 26–۳۱ August 2012. Archived from the original on 2014-02-08. Retrieved 24 August 2012.
https://web.archive.org/web/20160209210107/http://www.nam.gov.za/background/background.htm
۱۸۸۹–۱۹۶۴٫, Nehru, Jawaharlal, (2004). Jawaharlal Nehru. : an autobiography. Penguin Books. ISBN 9780143031048. OCLC 909343858
[۳] ۔ http://tabyincenter.ir/14215
[۴] ۔ http://www.irna.ir/fa/News/82588810
[۵] ۔ صفاتاج، مجید، دانشنامه صهیونیسم و اسرائیل، ج۶، تهران، آروَن، چاپ اول: ۱۳۸۸، ص ۸۲۲-۸۱۴٫
تبصرہ کریں