مقصد ایک ریلیاں تین! کہاں رہی وحدت؟؟

لاہور میں برآمد ہونیوالی یہ تین ریلیاں بھی اُمت کے وحدت اور کاز کیساتھ مخلصی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بعض شرکاء نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ شرکاء یہ کہتے پائے گئے کہ اگر ان تینوں ریلیوں کی انتظامیہ مل کر ایک ہی ریلی نکال لیتی اور یہ مشترکہ ریلی لاہور کی تاریخ کی ایک مثالی ریلی بن سکتی تھی، مگر نجانے کیوں ہر تنظیم شائد یہ چاہتی ہے کہ ان کے نام کا ہی ڈنکا بجے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: لاہور میں یوم القدس مثالی انداز میں منایا گیا۔ لاہور کی مال روڈ پر نکالی جانیوالی ریلیوں نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کے عوام آج بھی مظلوم مسلمانوں کیساتھ ہیں۔ لاہور میں یوم القدس کی مناسبت سے تین ریلیاں نکالی گئیں۔ ایک ریلی شیعہ علماء کونسل اور جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے زیراہتمام برآمد ہوئی۔ یہ ریلی لاہور پریس کلب سے شروع ہو کر ایجرٹن روڈ سے ہوتی ہوئی، پنجاب اسمبلی کے قریب پی آئی اے آفس کے سامنے پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی کی قیادت مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ شبیر حسن میثمی نے کی، جبکہ مقامی قائدین اور کارکن بھی شریک ہوئے۔

دوسری ریلی ناصر باغ سے پنجاب اسمبلی تک نکالی گئی۔ اس ریلی کا اہتمام مجلس وحدت مسلمین پنجاب اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان لاہور ڈویژن کی جانب سے کیا گیا۔ اس ریلی کی قیادت ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ حسن رضا ہمدانی، علامہ اسد عباس نقوی اور دیگر علماء نے کی، جبکہ امامیہ سٹوڈنٹس کے مرکزی نائب صدر سمیت دیگر رہنماء اور علماء بھی شریک ہوئے، جبکہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی ریلی میں شریک ہوئی۔ لاہور میں برآمد ہونیوالی تیسری اور بڑی ریلی تحریک بیداری امت مصطفیٰ کی تھی، جس کی قیادت علامہ سید جواد نقوی نے کی۔ اس ریلی میں شیعہ علمائے کرام کیساتھ ساتھ دیگر مکاتب فکر کے علماء بھی شریک ہوئے۔

جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر پروفیسر فرید احمد پراچہ، کُل مسالک علماء بورڈ کے چیئرمین مخدوم عاصم، سنی علماء فورم کے مفتی عاشق حسین، تحریک انصاف علماء ونگ پنجاب کے علامہ اصغر عارف چشتی، قومی امن کمیٹی کے پروفیسر محمود غزنوی سمیت دیگر رہنماوں نے بھی شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ علامہ سید جواد نقوی کو اپنے مدرسے کے طلبہ و طالبات کا بھی اچھا خاصا فائدہ ہو جاتا ہے۔ جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے ہزاروں طلبہ اور جامعہ اُم الکتاب کی ہزاروں طالبات کیساتھ ساتھ علامہ سید جواد نقوی کے چاہنے والے عام شہریوں کی بھی بڑی تعداد ریلی میں شریک ہوئی۔ یوں تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے زیراہتمام لاہور میں نکلنے والی یہ منظم ترین ریلی تھی۔ اس کے بعد آئی ایس او اور ایم ڈبلیو ایم کی ریلی تھی، جس میں عوامی شرکت قابل ذکر تھی۔

لاہور میں تینوں ریلیاں یوم القدس کی مناسبت سے تھیں اور تینوں ریلیوں کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے امام خمیںیؒ کے حکم پر یہ ریلیاں نکالی ہیں۔ چونکہ امام خمینیؒ نے اپنی حیات میں اس دن (جمعۃ الوداع) کو یوم القدس اور یوم الاسلام کے عنوان سے منانے کا حکم دیا ہے، اس لئے ہم امام خمینیؒ کی بابصیرت قیادت کے حکم پر یہ دن منا رہے ہیں۔ علامہ سید جواد نقوی سے گفتگو میں راقم نے سوال کیا کہ آیا آپ کے ریلیاں نکالنے سے فلسطین آزاد ہو جائے گا؟ تو جواب میں تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ریلیوں سے فلسطین تو آزاد نہیں ہوگا، مگر عوام میں بیداری ضرور پیدا ہو جائے گی۔ ہمارے باہر نکلنے سے لوگ یہ سوال ضرور کریں گے کہ یہ کون لوگ ہیں، جو سخت گرمی میں روزے کی حالت میں سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور یہ لوگ کیوں نکلے ہوئے ہیں۔؟؟

جب ان لوگوں کو بتایا جائے گا کہ ہم اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں اور مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے نکلے ہیں، تو یقیناً ان کے دلوں میں بھی فلسطینیوں اور کشمیریوں کیلئے درد پیدا ہوگا۔ وہ بھی بطور مسلمان سوچیں گے ضرور کہ ہمارے مسلمان بھائی فلسطین و کشمیر میں عتاب کا شکار ہیں۔ وہ اسرائیلی و بھارتی مظالم برداشت کر رہے ہیں، ان کی مدد میں ہمارا کردار کیا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔؟ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ یہی وہ فکر ہے جو ان ریلیوں سے بیدار ہوتی ہے، جب لوگوں میں یہ فکر بیدار ہو جائے گی، تو وہ ضرور سوچیں گے۔ جب مسلمان کسی معاملے پر سوچنے لگ جاتا ہے تو اس کا حل بھی نکل آتا ہے اور مسئلہ فلسطین و کشمیر کا حل بھی اسی میں ہے کہ امت مل کر سوچے اور ہمارے ریلیاں نکالنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ عوام میں شعور بیدار کریں۔

لاہور میں برآمد ہونیوالی یہ تین ریلیاں بھی اُمت کے وحدت اور کاز کیساتھ مخلصی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بعض شرکاء نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ شرکاء یہ کہتے پائے گئے کہ اگر ان تینوں ریلیوں کی انتظامیہ مل کر ایک ہی ریلی نکال لیتی اور یہ مشترکہ ریلی لاہور کی تاریخ کی ایک مثالی ریلی بن سکتی تھی، مگر نجانے کیوں ہر تنظیم شائد یہ چاہتی ہے کہ ان کے نام کا ہی ڈنکا بجے۔ ہماری قومی تنظیموں کو اس حصار سے باہر نکلنا ہوگا۔ اتفاق میں برکت صرف کہانیوں میں نہیں ہوتی، عملی زندگی میں بھی اگر اتفاق کا مظاہرہ کیا جائے تو برکت پڑ سکتی ہے۔ آج اگر فلسطین اور کشمیر کے مسلمان زیر اعتاب ہیں تو فقط امت کے افتراق کے باعث ایسا ہو رہا ہے۔ پوری امت اگر اپنے نبی (ص) کے فرمان پر متحد ہو جائے اور ’’جسد واحد‘‘ بن جائے تو فلسطین و کشمیر آزاد ہوسکتے ہیں۔

اسرائیل کی حیثیت ہی کیا ہے۔ اسے تو صرف عرب ہی صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا سکتے ہیں۔ مگر ان کے درمیان پایا جانیوالا افتراق اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی افتراق لاہور میں بھی نظر آیا۔ راقم کو یاد ہے کہ ناصر باغ میں حرمت رسول پر ایک متحدہ جلسہ کیا گیا تھا اور تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ کی بنیاد بھی اسی جلسے کی بدولت پڑی تھی۔ اس اجتماع میں بھی تمام شیعہ جماعتوں نے اپنی تنظیمی شناخت کے بغیر شرکت کرکے دنیا کو اپنا پیغام ریکارڈ کروایا تھا اور ایک مثبت پیغام گیا تھا۔ کیا آج وہی ماحول نہیں بن سکتا؟ کیا آج تمام شیعہ ملی تنظیمیں متحد ہو کر آواز نہیں بلند کرسکتیں۔؟؟ راقم کو یاد ہے کہ تحفظ بنیاد اسلام بل پر سابق حکومت کی اتحادی جماعت مجلس وحدت مسلمین جب سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہیٰ سے ناراض ہوگئی اور راجہ ناصر عباس اور ناصر عباس شیرازی نے ان کا فون تک سننے سے انکار کر دیا، تب شیعہ علماء کی قیادت ظہور الہیٰ روڈ پر پہنچ گئی اور معاملات کو آگے بڑھایا۔

اگر یہاں شیعہ علماء کونسل کی قیادت بھی مجلس وحدت مسلمین کی طرح بائیکاٹ کرتی تو ممکن ہے، اس حوالے سے دباو زیادہ بڑھ سکتا تھا، لیکن شیعہ علماء کی قیادت کا موقف تھا کہ یہ خلا پیدا ہوگیا تھا اور ہم نے چودھری برادران سے ملاقات میں تحفظ بیناد اسلام بل پر اپنا ملی موقف پیش کیا۔ شیعہ علماء کونسل کی قیادت کا موقف تھا کہ یہاں مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے خاموشی اختیار کرکے موثر پالیسی نہیں اپنائی، بلکہ یہی تو بولنے کا وقت تھا اور ہم بولے ہیں۔ دونوں جماعتوں کا موقف سنا جائے تو دونوں ہی درست کہتے ہیں، لیکن اگر یہ دونوں مل کر کوئی موقف اپناتے تو زیادہ موثر ہوتا۔ ابھی بھی نصاب کے معاملے پر ہر جماعت اپنا الگ الگ احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہے، مگر اس احتجاج کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہا۔ اگر یہی مسئلہ مشترکہ طور پر اُٹھایا جاتا تو زیادہ موثر آواز بلند ہوسکتی تھی۔

ابھی بھی حالات کے دامن میں کافی گنجائش ہے، قومی قیادت اب بھی قومی ایشوز پر متحد ہوسکتی ہے۔ یہ قائدین یاد رکھیں کہ متحد ہونے کا مطلب اپنی جماعت اور حیثیت کو سرنڈر کرنا نہیں، بلکہ اپنے اپنے حصار میں رہتے ہوئے، اپنی اپنی تنظیم کی شناخت کیساتھ آپ متحدہ آواز بلند کرسکتے ہیں اور ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔ جامعۃ المنتظر میں ایسے کئی اجلاس ہوچکے ہیں، جن میں قوم نے ایک موقف اپنا کر ہدف پایا ہے تو اب ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔؟؟ اب علامہ ساجد علی نقوی، علامہ راجہ ناصر عباس اور علامہ سید جواد نقوی کی محبت میں گرفتار کارکنان، اس محبت کو ترک کئے بغیر بھی ایک موقف پر متحد ہوسکتے ہیں اور وہی مضبوط اور موثر موقف ہوگا۔ قوم متحد نہ ہوئی اور اتفاق کا مظاہرہ نہ کیا تو تاریخی کی بوڑھی آنکھوں نے یہ منظر کئی بار دیکھے ہیں کہ لمحوں نے خطا کی تھی اور صدیوں نے سزا پائی۔ آج پاکستان میں ناصبیت کو فروغ دینے کا پلان نافذ ہے۔ ناصبیت کے سہولت کار حکومتی عہدوں پر آچکے ہیں۔ یوں سابق دور حکومت میں شروع کئے گئے منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد ہوگا۔ جب دشمنِ تشیع متحد ہوسکتا ہے تو اہل تشیع متحد کیوں نہیں ہوسکتے۔؟