پیغمبر ص کا کفار کے ساتھ طرز سلوک
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جہاں تک بت پرستوں و کفار کی بات ہے تو انکے ساتھ جتنا ہو سکا حضور نے رواداری و نرمی سے کام لیا اہل کتاب کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا کبھی ان سے گفتگو کی کبھی معاہدہ کیا تو کبھی پیمان توڑنے پر ا ن کے ساتھ سختی سے بھی پیش آئے لیکن زیادہ تر انکے ساتھ بھی کوشش کی بات نہ بگڑے اور معاملات آسانی سے نبٹ جائیں ـ [1]
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں مشرکین وکفار کے ساتھ نرمی کے نمونے :
عبد اللہ ابن ابی کے ساتھ نرم رویہ :
مدینہ کے منافقین کا سرغنہ تھا پے در پے اسکی خیانتوں کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسکے خلاف کچھ نہیں کیا وجہ یہ تھی کہ مدینہ میں اسکی ایک حیثیت تھی جس کی وجہ سے حضور ص نے نہیں چاہا اسکا اعتبار ختم ہوغزوہ بنی مصطلق کے بعد اس کی ہمت اتنی بڑھی کہ اس نے حضور سے کہا ،ہم شہر میں پلٹنے کے بعد آپ کو ذلیل کر کے باہر نکال دیں گے [2] جب یہ بات پیغمبرص تک پہنچی تو اصحاب نے شدید طور پر اسکے مواخذہ کی بات کی حتی خود اسکے بیٹے نے بھی حضور ص سے اپنے باپ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ صرف اجازت نہیں دی بلکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا بیٹے سے کہا اپنے باپ کے ساتھ نیکی کا برتاو کرو۔ عبد اللہ ابن ابی نے جوکچھ حضور ص کے ساتھ کیا کون اس سے واقف نہیں لیکن حضور نے غزوہ بنی مصطلق کے بعد منافقوں کے اس سرغنہ کوقتل کرنے سے گریز کیا اور جب خود اسکے بیٹے عبد اللہ نے اپنے باپ کے قتل کی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: جب تک تمہارا باپ زندہ ہے تم اس کے ساتھ نیکی کا برتاو کرو اس کے ساتھ حسن سلوک کرو ابن ہشام نے نقل کیا ہے اسی کے بعد عبد اللہ ابن ابی کو خود اس کے ہی قبیلہ والوں نے ملامت کرنا شروع کر دیا کہ جو نبی اتنا کریم ہے کہ بیٹے کی جانب سے قتل کی اجازت مانگنے پر باپ کے ساتھ نیکی کا حکم دے رہا ہے تم کیسے انسان ہو کہ اسی کے خلاف سازشوں میں ملوث ہو.[3]
ایک فتنہ گر یہودی جوان کے ساتھ حضور ص کا روادارانہ انداز :
ایک یہودی جوان نے شائس بن قیس کے چڑھانے پر اوس و خزرج کے درمیان ایک فتنہ پیدا کردیا اور قریب تھا کہ دونوں قبیلے جاہلیت و تعصب کی آگ میں سب کچھ جلا کر راکھ کر لیں اور ایسی خطرناک جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں جن سے دامن بچانا مشکل ہو جائے لیکن حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیچ میں پڑے طرفین کو سمجھا بجھا کر آپس میں میل کرایا حضور ص نے بات چیت کے درمیان اندازہ کر لیا کہ کس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں لیکن آپ نے اس یہودی جوان کو سزا نہ دی اسے موقع دیا کہ خود اپنی غلطی کو سدھارے [4]
آپ نے ان لوگوں کے ساتھ بھی سختی نہ کی جو آپ کو پریشان کرتے تھے جن کے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوئیں مثلا وہ خبیث لوگ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بہت پریشان کیا جن کے بارے میں واضح آیتیں موجود ہیں کوئی تاریخ نہیں بتاتی پیغمبر ص نے انکے ساتھ انتقامی کاروائی
نبتل بن الحرث :
یہ وہی شخص ہے جس نے حضورصلی اللہ علیہ کو کان[5] کہہ کر خطاب کیا جس پر آیت نازل ہوئی ” اور ان میں وہ لوگ ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ کان ہیں ان سے کہہ دو کان ہونا تمہارے لئے بہتر ہے [6]۔
یہ وہی شخص ہے جس کے لئے حضور ص نے کہا اگر کوئی شیطان کو دیکھنا چاہے تو اسے دیکھ لے[7]
اسکی تمام تر خباثتوں اور شرارتوں کے بعد بھی حضور ص نے بس اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا اور کوئی انتقامی کاروائی نہ کی۔
ودیعہ بن ثابت :
یہ وہ شخص ہے جو مسجد ضرار بنانے والوں میں آگے آگے تھا[8]وہی شخص جس نے کہا اِنَّما کُنّا نَخوضُ وَ نَلعَب جس کے بارے میں آیت نازل ہوئی وَ لَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ أَ بِاللَّهِ وَ آيَاتِهِ وَ رَسُولِهِ کُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُونَ
اور اگر آپ ان سے باز پرس کریں گے تو کہیں گے کہ ہم تو صرف بات چیت اوردل لگی کررہے تھے تو آپ کہہ دیجئے کہ کیا اللہ اور اس کی آیات اور رسول کے بارے میں مذاق اڑارہے تھے: توبہ 65
اوس بن قیطنی :
جنگ خندق سے بھاگنے والوں میں ہے جس نے جنگ سے بچنے کے لئے کہا تھا «اِنَّ بیوتَنا عورهٌ فَاذن لنا فَلنرجع اِلیها» ہمارے گھر کالی پڑے ہیں ہمیں وہاں پلٹنا ہے جسکے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی :
يَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَ مَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلاَّ فِرَاراً
ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ہمارے گھر خالی پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گھر خالی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ صرف بھاگنے کا ارادہ کررہے تھ (احزاب: 13}
مجد بن قیس :
یہ وہ شخص ہے جس نے کہا تھا ائے محمد مجھے اجازت دیں اور فتنے میں نہ ڈالیں «یا مُحمّدُ ائذن لی و لاتَفتِنّی» جسکے جواب میں آیت نازل ہوئی : مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَ لاَ تَفْتِنِّي أَلاَ فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْکَافِرِينَ
بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دے دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالئے تو آگاہ ہوجاؤ کہ یہ واقعا فتنہ میں گر چکے ہیں اور جہنّم تو کافرین کو ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے (توبه: 49) لیکن تاریخ میں نہیں ملتا پیغمبر ص نے اسکے خلاف کچھ ایکشن لیا ہو۔
رافع بن حریمله:
یہ اتنے بڑے منافقین و مخالفین پیغمبر ص میں تھا کہ جب مرا تو حضور ص نے فرمایا: قَد مات الیومَ عظیمٌ مِن عظماءِ المنافقینَ. لیکن اسکے خلاف بھی کہیں نہیں ملتا پیغمبر ص نے کوئی اقدام کیا ہو ۔
زید بن الصلیت:
یہ وہ شخص ہے جب پیغمبر ص کا اونٹ گم ہو گیا اور سب اونٹ ڈھونڈ رہے تھے تو اس نے طنز کسا کہ تم کیسے پیغمبری کا دعوا کرتے ہو جبکہ تمہیں یہ بھی پتہ نہیں تمہارا اونٹ کہاں ہے حضور ص نے اسکے جواب میں بس اتنا کیا کہ اپنے علم غیب سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں سے کہا میرا اونٹ فلا ں جگہ ہے اور جب لوگ وہاں پہنچے تو آپ کے اونٹ کو اسی جگہ پایا جہاں پیغمبر ص نے بیان کیا تھا ۔.
عمیر بن وهب، قبیله «بنی جمع» سے:
ایسا شیطانصفت جو جنگ بدر میں اسیر ہو جانے والے اپنے بیٹے کی آزادی کے بہانے زہر آلود تلوار لیکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کا درپے تھا لیکن پیغمبر ص نے اسے پکڑ لیا ۔[9]
وحشی:
یہ وہ شخص ہے جس نے جنگ «احد»، حمزه، میں جناب حمزہ کو شہید کیا پیغمبر ص نے اس کے قتل کا حکم بھی صادر کر دیا یہ طائف کی طرف نکل گیا لیکن بعد میں خود کو اس نے حضور ص کے سامنے پیش کر دیا اور اسلام لے آیا حضور ص نے اسے بخش دیا بس اتنا کہا کہ ایسی جگہ چلے جاو جہاں میری نظر تم پر نہ پڑے ایضا ۔
عکرمه بن ابیجهل:
یہ وہ شخص ہے جسکا خون پیغمبر نے جائز قرار دیا لیکن اسکی زوجہ کی سفارش پر اسے چھوڑ دیا اور قتل سے صرف نظر کیا۔
مالک بن عوف:
لشکر ہوازن کا کمانڈر جو شکست کے بعد طائف چلا گیا جس کے بارے میں حضور ص نے فرمایا : اگر مسلمان ہو جائے تو میں سو انٹوں کے ساتھ اسکا مال و اسباب بھی واپس کرونگا یہ شخص بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضور ص نے اسے ہوازن ، ثمالہ اور مسلمہ کے قبیلوں کا سردار بھی بنایا [10]
ابن قیظی :
ایک ایسا نابینا شخص ہے جس نے اس وقت جب لشکر اسلام احد کی طرف گامزن تھا زمین سے کچھ مٹی اٹھائی اور حضور سرورکائنات کے رخ انور کی طرف پھینک دی اور جو کچھ بھی زبان پر آیا بک ڈالا جتنی گالی دے سکتا تھا حضور ص کو دیں اصحاب نے اسے پکڑ لیا اور چاہا کی اسکی گردن اتار دیں لیکن پیغمبر ص نے وساطت کی اور فرمایا اسے چھوڑ دو یہ خود بھی اندھا ہے اسکا دل بھی اندھا ہے [11]
یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے کچھ فردی نمونے تھے لیکن اگر آپ کی اجتماعی و سیاسی زندگی پر بھی نظر ڈالی جائے تو ہمیں یہی رودارانہ انداز اور لچکدار رویہ ہر جگہ نظر آتا ہے چاہے وہ لوگوں کو دعوت اسلام دینا ہو یا بادشاہان وقت کو خطوط کا لکھنا ،ہم مختصر طور پر کچھ اہم نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صلح آمیز خطوط :
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے جو خطوط ،سلاطین ،امراء ، قبائل کے سرداروں اور نمایاںروحانی و سیاسی شخصیتوں کو لکھے ہیں وہ تمام خطوط آپکی صلح طلب دعوت کے ترجمان ہیں ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے اسلام کی دعوت ، تبلیغ یا عہدو پیمان کے عناوین کے تحت لکھے گئے تقریبا١٨٥خطوط ابھی بھی موجود ہیں [12]ان تمام خطوط کے مضامین سے یہ بات عیاں ہے کہ دعوت اور تبلیغ کے سلسلہ میں اسلام کی روش منطق اور برہان ہے نہ کہ جنگ و شمشیر، آپکی نصیحتیں ،وعظ پر مشتمل مضامین ، وہ تمام لچک دار رویہ اور نرم طریقہ کار جو آپ نے اپنایااس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ اسلام شمشیر کے بل پر نہیں پھیلا ہے .
خدا پر عقیدہ رکھنے والے بادشاہوں کے نام لکھے جانے والے اکثر خطوط میں سورہ آل عمران کی ٦٤ویں آیہ کریمہ جو در حقیقت اسلام کا عالمی دستور ہے ذکر ہوئی ہے : نمونہ کے طور پر ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قیصر روم کو لکھے گئے خط کے مضمون کو پیش کر رہے ہیں :
بسم اللہ الرحمن الرحیم . من محمد بن عبد اللہ الی ھرقل عظیم الروم . سلام علی من اتبع الھدی؛ اما بعد فانی ادعوک بدعایة الاسلام ، اسلم تسلم یئوتک اللہ اجرک مرتین ، فان تولیت فانما علیک اثم الاریسین؛ قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بینناو بینکم الّانعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولّوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون [13]
یعنی : یہ خط محمدبن عبد اللہ کی جانب سے ہے عظیم ہرقل بادشاہ روم کے نام ، سلام ہو ان پر جوحق کی پیروی کرنے والے ہیں ، میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں ، اسلام لے آئو تاکہ امان میں رہو اور سلامت رہو ، خدا ایمان لانے کے صلہ میں تمہیں دوقسم کی جزا دیگا ، ایک ایمان لانے کی جزا دوسرے ان لوگوں کی جزا جو تمہاری پیروی کی بنا پر ایمان لائیں گے ؛لیکن اگر تم اسلام سے منھ موڑ لوگے تو اریسیوں( روم کی ایک نسل ومزدور طبقہ )کا گناہ بھی تمہارے سر منڈھا جائے گا کہہ دو ائے اہل کتاب ! ہم تمہیں ایک مشترکہ اصول کی طر ف دعوت دیتے ہیں کہ تم خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو کسی کو اسکا شریک قرار نہ دو ہم میں سے بعض خدا کے علاوہ کسی اور کی خدائی کے قائل نہ ہوں ، جب کبھی وہ حق سے عدول کر جائیں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلمان ہیں ۔
[1] ۔ ابن هشام، زندگانی محمد(ص) پیامبر اسلام، ترجمه سید هاشم رسولی، تهران، کتابچی، ج دوم، ص .198
[2] ۔ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَی الْمَدِینَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ منافقین: 8
[3] ابن هشام، زندگانی محمد(ص) پیامبر اسلام، ترجمه سید هاشم رسولی، تهران، کتابچی، ج دوم، ص .۱۹۹ ، ابن هشام، سیره، تحقیق مصطفی سقا و دیگران، چ دوم، مصر، حلبی، 1375ق، ج 2، ص 372 / عباس محمود العقاد، عبقریه محمّد، بیروت، المطبعه العصریه، 1421ق، ص 85 / سیدعلی کمالی، خاتمالنبیین، تهران، اسوه، 1372، ص 94، به نقل از: ابن اثیر، اسدالغابه، ص 197.
[4] ۔ تفصیل کے لئے محمد قوام وشنوی، حیاةالنبی و سیرته، قم، مؤلف، 1412ق، ص321.
[5] ۔«اِنّما محمّدٌ اُذنٌ…»
[6] ۔ وَمِنْهُمُ الَّذِینَ یُؤْذُونَ النَّبِیَّ وَ یِقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَیْرٍ لَّکُمْ.) (توبه: 61
[7] ۔«مَن اَحبَّ أَن ینظُرَ الی الشیطانِ فلینظُر الی نَبتل بنِ الحرثِ، محمد قوام وشنوی، حیاةالنبی و سیرته، قم، مؤلف، 1412ق، ص321.
[8] ۔ محمد قوام وشنوی، حیاةالنبی و سیرته، قم، مؤلف، 1412ق، ص۳۲۶.
[9] ۔ سیدعلی کمالی، ایضا ، ص 107 / شرفالدین محمدبن عبدالله بن عمر، خلاصه سیرت رسولاللّه، تهران، علمی و فرهنگی، 1368، ص 161.
[10] ۔ ایضا ۹۸.
[11] ۔ ایضا
[12] ۔ رک: علی الاحمدی المیانجی، مکاتیب الرسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ، چاپ بیروت ؛ محمد حمید اللہ حیدرآبادی، الوثائق السیاسیہ .
[13] ۔ رک: علی الاحمدیالمیانجی، مکاتیب الرسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم ، چاپ بیروت ؛ محمد حمید اللہ حیدرآبادی، الوثائق السیاسیہ .
تبصرہ کریں