امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی شخصیت اور ہمارا علمی انحطاط

  آج بھی ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ  مغربی دانشور سارٹن نے ۳۵۰ سال کے دور کو مسلمانوں  کے عظیم دانشوروں سے منسوب قرار دیا ہے ہم بھی ایک بار پھر اسی پرانے دور کو واپس لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں  بشرطیکہ ہم عہد کریں ہمیں اپنے امام علیہ السلام کی سیرت پر چلنا ہے اور علم و حکمت کی وادیوں میں اسی طرح آگے بڑھنا ہے جیسے آپ نے گلستان علم و فکر کی اس دور میں آبیاری کی جب صاحبان اقتدار آپسی رسہ کشی کا شکار تھے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ۷ ذی الحجہ  کی تاریخ  امام محمد باقر علیہ السلام  کی شہادت سے منسوب ہے[1]۔ ایک ایسی  شخصیت  جس کے تعلیمات سے آشنائی اور ان پر عمل  کے ہر دور سے زیادہ ہم آج محتاج ہیں امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی شخصیت کا اعتراف تاریخ کی بڑی بڑی شخصیتوں نے جن الفاظ میں کیا ہے [2]وہ خود مستقل ایک موضوع ہے  جو فی الحال ہمارے پیش نظر  نہیں  صاحبان فکر و نظر کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح بڑی بڑی جلیل القدر علمی شخصیتوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی شخصیت کو سراہا اور اسکا اعتراف کیا ہے ۔  فی الحال جو چیز ہمارے پیش نظر ہے وہ یہ کہ امام سجاد علیہ السلام کی شہادت کے بعد جس طرح امام محمد باقر علیہ السلام نے مسند علم سجا کر لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی اور میراث  انبیاء ص کی حفاظت  کی ہے وہ ہم سب کے لئے  لائق فکر و قابل غور ہے ، شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کے موقع پر کیا ہی بہتر ہو کہ ہم  امام علیہ السلام کی منعقد ہونے والی مجلس عزا سے جب اٹھیں تو عہد کر کے اٹھیں کہ ہم آپ کے علمی وقار و اعتبار کی پاسداری کریں گے اور جس طرح تاریک دور میں آپ نے علم کی شمع جلا کر ظلمتوں کا مقابلہ کیا تھا ہم بھی ویسا ہی کریں گے ۔ امام علیہ السلام کی علمی شخصیت پر جب گفتگو ہوتی ہے تو ظاہر ہے انسان پر وجد کی کیفیت طاری ہوتی ہے ہونا بھی چاہیے لیکن اتنا کافی نہیں ہے حقیقی وجد میں تو انسان تب آئے گا جب اس راستے پر چلے گا جس پر امام محمد باقر علیہ السلام چلے  اور یہ تب ہوگا جب ہم امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات طیبہ کے نقوش میں  اپنی ذمہ داریوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں ۔

باقر العلوم ع کی سیرت اور موجودہ ملک کے حالات میں ہماری ذمہ داری : 

آپ سب جانتے  ہیں امام محمد باقر علیہ السلام کو باقر العلوم کہا جاتا ہے  اور یہ اس وجہ سے ہے کہ آپ نے علم کی شقوں کو کھولا آپ نے علم کے ابواب کھولے علمی گتھیوں کو سلجھایا اور اپنے دور میں کثیر تعداد میں ہر علم کے ماہر ایسے دانشور معاشرے کو تیار کر کے دئیے جنہوں نے صرف اسلامی معاشرے کی نہیں پوری انسانیت کی خدمت کی ، آج ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے امام ع کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے اس قدر حصول علم میں انہماک کے ساتھ آگے بڑھیں کہ صرف اپنوں تک علم کی روشنی نہ پہنچاتے ہوئے  پوری بشریت کو علم کے آب حیات سے سیراب کریں اور یوں اپنے ملک کی اپنے قوم کی مدد کریں ۔آج ہمارے ملک میں جو ہماری صورت حال ہے وہ سب پر عیاں ہے، آج ہمیں دھتکارا جا رہا ہے تو جہاں اسکا ایک سبب ایک خاص طبقے کی جانب  سے مسلسل ہمارے خلاف نفرتوں  کی آگ لگانا ہے منفی پروپیگنڈہ ہے تو وہیں ایک سبب ہماری علم و دانش سے دوری ہے ، اپنے ملک میں اس کے ساتھ دنیا میں اگر ہمیں کھویا ہوا وقار حاصل کرنا ہے تو بغیر علم کا لوہا منوائے ہم کچھ نہیں کر سکیں گے ۔

 ہمارا درخشان ماضی اور مسلمانوں کے علمی خدمات :

تاریخ  اسلام  محض اسلامی فتوحات کی تاریخ نہیں ہے مختلف سر زمینوں پر اسلام کے پرچم کشائی کی تاریخ نہیں ہے محض جغرافیائی وسعتوں میں اسلامی تاریخ کو محدود نہیں کیا جا سکتا ہے  بلکہ اسلامی تاریخ  علم و ثقافت  کی تاریخ ہے ایک بے نظیر توحیدی تمدن کی تشکیل کی تاریخ ہے ، آپ اسلامی تاریخ  اٹھا کر دیکھیں کیا اس میں محض جنگیں اور فتوحات ہیں  ہرگز نہیں اسلامی تاریخ میں جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ علمی سرحدوں کی فتوحات نظر آئیں گی آج جس قدر دنیا میں علمی ترقی پائی جاتی ہے اس میں عظیم مسلم دانشوروں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جو اپنے اپنے دور میں سرخیل علم و دانش تھے  جنہوں نے آرٹ ،ہنر ، فن ٹکنالوجی  و علمی پیش رفت میں یادگار تاریخ رقم کی ہے جس تاریخ سے منھ موڑ کر ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے آج بھِی تاریخ بشر ان علمی کاوشوں کے سامنے سر خم کئے نظر آتی ہیں  جنہوں نے اسلامی سماج ہی کی نہیں پوری دنیا کی اپنے جلائے چراغ علم سے خدمت کی [3]جارج سارٹن  جنہیں مورخ علم و دانش کہا جاتا ہے  ایک مقام پر تاریخ علم کے پچاس سالہ دور کو تقسیم کرتے ہوئے  جب ہر ایک دور کی نمایاں شخصیتوں  کے نام پر ہر ایک دور کا نام رکھتے ہیں  تو خاص طو ر پر۷۵۰ ء سے  ۱۱۰۰ ء یعنی ۳۵۰ سال کے عرصے پر محیط دور کو کن لوگوں سے مخصوص کرتے ہیں اس تین سو پچاس سال کے عرصے میں جابر کا نام ملتا ہے[4] ، خوارزمی ہیں ، رازی ہیں ، مسعودی ہیں  ابوالوفاء ہیں بیرونی  ہیں اس دور کے بعد دھیرے دھیرے کچھ مغربی دانشور ہیں اس میں بھی ابن رشد کا نام نمایاں ہیں  یہ وہ شخصیتیں ہیں  جنہوں نے فزکس میں ، الجبراء میں ، ریاضی و نجوم میں لا فانی نقوش چھوڑے ہیں  اس درخشاں ماضی کو آج سے ملا کر دیکھیں آج ہم کہاں ہیں کس انحطاط کا شکار ہیں ۔

اسلام میں علم کی تاکید اور مسلمانوں کی بے توجہی :

یہ موجودہ انحطاط بھی اس قوم کی تقدیر ہے  جو اس دین کو مانتی ہے جس سے زیادہ حصول علم کی تاکید کسی دین میں نہیں وہ دین جس کے رسول ص کی پہلی وحی یہی تھی کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو  [5] وہ دین جو ایسے ایمان کو سراہتا ہے جو شناخت کے ساتھ ہو  جس میں انسان غور و فکر کرے  اور اسی بنیاد پر اس دین کا کہنا یہ ہے کہ جاہل و عالم برابر کس طرح برابر ہو سکتے ہیں [6] جس نے صاحبان علم کے لئے درجات قرار دئیے [7] جس  دین کی کتاب نے علم پر اس قدر تاکید کی کہ بعثت پیغمبر ص سے پہلے کے دور کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا اور یہ چیز بقول علامہ طباطبائی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اسلام میں علم کا کیا مقام ہے اسی بنیاد پر وحشی عربوں کی جاہلانہ زندگی کو دور جاہلیت کہا گیا ہے [8] وہ دین جس نے طلب علم کو مسلمان مرد اور عورت دونوں پر یکساں فرض قرار دیا [9] وہ دین جس نے حکمت و علم کے سلسلہ سے کوئی قید نہ رکھی کہ کس سے حاصل کیا جائے کس سے نہیں بلکہ واضح اعلان کیا جہاں ملے حاصل کرو  اور اسے مومن کی گم شدہ قدر سے تعبیر کیا کہ جہاں مل جائے فورا اسے لے لیا جائے [10] چنانچہ کتب روائی میں پورا باب ہے کہ کن کن لوگوں سے علم کا حصول صحیح ہے [11] بلکہ ان لوگوں تک سے حصول علم کی بات کی گئی ہے جن کی قرآن نے جا بجا سرزنش کی ہے جنہیں اہل نفاق کہا گیا ہے لیکن ان منافقوں کے پاس بھی اگر علم ہے تو  حکم ہے کہ اسے حاصل کرو یہ کہہ کر دامن نہیں بچا سکتے کہ یہ اہل نفاق ہیں [12] گہوارہ سے لیکر لحد تک جس دین نے علم کے حصول کی بات کی ہو [13] وہ دین جس نے حصول علم کو نہ کسی خاص زمانے سے نہ کسی خاص مقام سے نہ کسی خاص استاد سے مخصوص جانا ہو  [14]افسوس کہ اسی کے ماننے والے جہالت  کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوں  کیا یہ افسوس کا مقام نہیں ہے ؟  ہم اگر باقر العلوم  ع کے ماننے والے ہیں تو ہم سب پر لازم ہے کہ صرف حصول علم کی کوشش نہ کریں بلکہ علم و حکمت کی وادیوں میں اسقدر آگے بڑھ جائیں کہ لوگ ہماری طرف آئیں ہم  پوری بشریت کے علم کی پیاس کو بجھانے کا کام کریں اگر ہم اس مقام پر پہنچ گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی اس لئے کہ دنیا پر علم ہی کی حکمرانی ہے [15] اب یہ ممکن نہیں کہ ہم جہالتوں کی تاریکی میں ڈوبے ہوں اور سوچیں کہ دنیا  میں ہمیں نیک نامی بھِی حاصل ہو اورسربلندی بھی ہمارا مقدر ٹہرے  یہ ممکن نہیں ہے اس لئے اقتدار ممکن ہے چھن جائے لیکن اگر علم ہے تو کوئی سربلندی کو نہیں چھین سکتا ہے ممکن ہے حکومت کسی اور کے ہاتھ میں ہو لیکن حاکمیت صاحبان علم ہی کی رہے گی اس بات کی واضح مثال ہمارے پانچویں امام علیہ السلام  کی زندگی ہے  جن کے پاس حکومت و سلطنت نہ  تھی لیکن تمام اہل حکومت تمام وہ لوگ جنہیں علم کی تلاش تھی آپ کے در پر سرجھکائے نظر آتے تھے کیوں نہ دنیا اس در پر جھکتی جہاں محض علم نہیں بٹتا تھا بلکہ صحیح علم تقسیم ہوتاتھا آج علم کے نام پار کتنی ایسی یونیورسٹیز ہیں جہاں جہالت بٹ رہی ہے لوگ حقیقی علم کو ڈھونڈ رہے ہیں تو کیوں نہ وہ لوگ حقیقی علم  کو دنیا میں بانٹنے کی ذمہ داری لیں جنکے امام علیہ اسلام  نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ حقیقی اور صحیح علم اگر چاہیے تو شرق و غرب میں کہیں نہیں ملے گا سوائے ہمارے در کے [16]۔

آج بھی ایسا ہو سکتا ہے جیسا کہ  مغربی دانشور سارٹن نے ۳۵۰ سال کے دور کو مسلمانوں  کے عظیم دانشوروں سے منسوب قرار دیا ہے ہم بھی ایک بار پھر اسی پرانے دور کو واپس لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں  بشرطیکہ ہم عہد کریں ہمیں اپنے امام علیہ السلام کی سیرت پر چلنا ہے اور علم و حکمت کی وادیوں میں اسی طرح آگے بڑھنا ہے جیسے آپ نے گلستان علم و فکر کی اس دور میں آبیاری کی جب صاحبان اقتدار آپسی رسہ کشی کا شکار تھے  یقینا ہم مل کر اگر ملک میں علمی تحریک چلانے میں کامیاب ہو گئے تو بہت سے مسائل کا حل خود بہ خود ہو سکتا ہے  ۔

 

حواشی ۔

[1] شهید اول، الدروس، ج ۲، ص ۱۲ و کفعمی، المصباح، ص ۵۲۲ ، ابو خلف اشعری، المقالات و الفرق، ص ۷۶ و نوبختی، فرق الشیعه، ص ۶۱ و قمی، تاریخ قم، ص ۱۹۷ و فتال، روضه الواعظین، ص ۲۰۷ و طبرسی، إعلام الوری، ج ۱، ص ۴۹۸ و تاج الموالید (مجموعه نفیسه، ص )۱۱۷ و ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب، ج ۴، ص ۲۲۷ و شهید اول، الدروس، ج ۲، ص ۱۲ و کفعمی، المصباح، ص ۵۲۲٫

[2]  ۔ «وکان احد من جمع العلم والفقه والدیانه والثقه والسؤدد وکان یصلح للخلافه

سیر اعلام النبلاء، ذهبی، مؤسسه الرساله، ج ۴، ص ۴۰۲; تاریخ الاسلام، ذهبی، دارالکتاب العربی، ص ۴۰۲; الوافی بالوفیات، صفدی، النشرات الاسلامیه، ج ۴، ص ۱۰۲

«ما رایت العلماء عند احد اصغر علما منهم عند ابی جعفر; «لقد رایت الحکم عنده کانه مغلوب وکان عالما نبیلا جلیلا فی زمانه؛

تذکره الخواص، سبط بن جوزی، مؤسسه اهل البیت، ص ۳۰۲; البدایه و النهایه، ابن کثیر دارالکتب العلمیه، ج ۹، ص ۳۲۳٫

سمی الباقر لانه بقر العلم ای شقه فعرف اصله وخفیه;

سیر اعلام النبلاء، همان، ص ۴۰۲; الوافی بالوفیات، صفدی، همان، ص ۱۰۲; تاریخ الاسلام، همان، ص ۲۶۳ .

[3]  ۔ داوری، رضا. اسلام و علم دوستی، مجله ، نامه فرهنگستان علوم، شماره 12و13.

[4]  ۔ جرج سارتون، مقدمه بر تاریخ علم، ترجمه غلامحسین صدری افشاری.

[5]  ۔ اقرأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَق* خَلَقَ الاِنْسانَ مِنْ عَلَق* اقْرَأْ وَربّکَ الاگکْرَم* الَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَم* عَلَّمَ الاِنْسانَ ما لَمْ یَعْلَم». سوره علق، 1 تا5

[6]  ۔ امّن هُوَ قانِت آناءَ اللَّیْل ساجِداً وَقائِماً یحذر الاعلیها السلامخرَة وَیَرجُوا رَحْمَة رَبِّه قُلْ هَلْ یَسْتَوی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لا یَعْلَمُون اِنّما یَتَذکّر اُولوا الاللباب ۔ زمر/9:

[7]  ۔ یَرْفَع الله الَّذینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَالَّذِینَ اُوتُوا العِلْم دَرَجات ۔ مجادله/11

[8]  ۔ علاّمه طباطبایی، قرآن در اسلام، ص 93

[9]  ۔ طلب العلم فریضة علی کلّ مسلم ۔ کافی، ج1، کتاب فضل العلم، باب فرض العلم، ح1، ص 30.

[10]  ۔ الحکمة ضالة الموءمن یأخذها حیث وجدها،11. بحارالأنوار، ج2، کتاب العلم، ح66، ص 105

[11]  ۔11. بحارالأنوار، ج2، کتاب العلم، باب من یجوز أخذ العلم منه، ح66، ص 105.

[12]  ۔ الحکمة ضالة الموءمن فخذ الحکمة ولو من أهل النفاق ، نهج البلاغه، حکمت 80.

[13]  ۔ اطلبوا العلم من المهد إلی اللحد ۔ کشف الظنون، ج1، ص 78

[14]  ۔ تفصیل کے  لئے ملاحظہ ہو : شهید مطهری، بیست گفتار، مقاله نظر اسلام درباره علم، ص 214؛ ده گفتار، مقاله فریضه علم، ص 129؛ خرمشاهی، بهاءالدین، دانشنامه علوم قرآنی، واژه علم و قرآن.

[15]  ۔ شرح نهج البلاغة، ابن ابی الحدید، ج۲۰، ص۳۱۹.

العِلمُ سُلطانٌ مَن وَجدَهُ صالَ بِهِ وَ مَن لَم يَجِدهُ صيلَ عَلَيه.

[16]  ۔ «شَرِّقا و غَرِّبا فَلا تَجِدان عِلماً صَحیحاً إلَّا شَیئاً خَرَجَ مِن عِندِنا أهلَ البَیتِ.» (کافی، ج ۱، ص ۳۹۹)