یہودیوں کی چاپلوسی کی پاداش؛

اسرائیل نواز شیخ محمد العیسیٰ خطیب عرفات مقرر! / وفا کا تقاضا ہے اب یہی گویا!!!

غاصب صہیونی ریاست نے العیسیٰ کی اس چاپلوسی کو خراج تحسین پیش کیا اور صہیونی وزارت خارجہ کی ویب گاہ نے ایک ویڈیو کلپ نشر کیا جس میں محمد العیسیٰ اور اس کے کچھ ہم مسلک مولویوں کو آشوٹس کیمپ کا دورہ اور یہودی مقتولین کے لئے دعا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس ویڈیو کلپ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ کیمپ میں 11 لاکھ افراد مارے گئے تھے اور اکثر مقتولین یہودی تھے!

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیلی مورخ آدم راز (Adam Raz) جو – سنہ 1948ع‍ کے المیے کے دوران صہیونی ریاست کے ہاتھوں عربوں کی املاک کی لوٹ مار اور جنگی جرائم کے انکشاف کے ماہر ہیں – نے تازہ ترین انکشافات کے ضمن میں واضح کیا ہے کہ “غاصب اسرائیلی ریاست نے جون 1967ع‍ کی جنگ میں 80 مصری سپاہیوں کو قتل کرکے ایک اجتماعی قبر میں دفن کیا تھا”۔ اس واقعے کو مصری ہالوکاسٹ کا نام دیا گیا ہے، اور جعلی یہودی ہالوکاسٹ کے لئے سوگواری کرنے والے سعودیوں سے توقع کی جا رہی ہے کہ ان مسلم اور شہید سپاہیوں کے لئے بھی سوگوار ہو جائیں!
مذکورہ اسرائیلی مؤرخ نے سرکاری دستاویزات کے حوالے سے فاش کیا کہ مصری سپاہی جنگ کے دوسرے دن (چھ جون 1967ع‍ کو) صہیونی فوج کے گھیرے میں آئے تھے اور صہیونیوں نے فاسفورس کے گولوں سے 25 مصری سپاہیوں کو زندہ جلا دیا اور دو دن بعد درجنوں دوسرے مصری سپاہی بھی قتل ہوئے، اور اس واقعے میں مصری مقتولین کی تعداد 80 تک پہنچی۔
اسرائیلی مورخ آدم راز (Adam Raz) نے مزید انکشاف کیا ہے کہ سنہ 1967ع‍ کی چھ روزہ جنگ کے دوران 1948ع‍ کی جنگ بندی لائن کے قریب واقع “نحشون” (Nahshon) نامی یہودی آبادکاروں کی بستی کے قریب مصری فوج کے کمانڈوز کا ایک گروپ صہیونیوں کی یلغار کا نشانہ بنا اور اس گروپ کو بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے۔ فوجی کاروائی کے خاتمے کے بعد، اس بستی کے اہلکاروں نے غاصب صہیونی فوجیوں کی مدد سے ایک بلڈوزر کے ذریعے مصری کمانڈوز کے بےجان جسموں کو ایک اجتماعی قبر میں دفنا دیا۔
یہ المیہ یہیں ختم نہیں ہؤا بلکہ جرائم پیشہ یہودی ریاست نے اس جنگی جرم کے چھپانے کے لئے بستی کے مکینوں کو ہدایت کی کہ اس قبرستان میں بادام کے درخت کاشت کریں۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد اس بستی میں کچھ سیاحتی مراکز بھی قائم کئے گئے۔
دوسری طرف سے فلسطینی مؤرخ ؟عبدالقادر یاسین” کا کہنا ہے کہ “ممکن ہے کہ غاصب صہیونیوں نے انہیں قتل کرکے وادی ایالون (Ayalon Valley) کے علاقے لطرون (Latron = اللطرون) میں منتقل کیا ہو۔ کیونکہ سنہ 1967ع‍ میں کوئی بھی مصری اس علاقے میں موجود نہیں تھا بلکہ مصری فوجی سنہ 1948ع‍ میں وہاں تعینات تھے، اور یہ وہ زمانہ تھا جب مصری فوجی ‘رفح’ کے علاقے میں داخل ہوئے، اور وہاں انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا؛ ایک گروپ نے ساحلی پٹی اور دوسرے گروپ نے رفح، بئر السبع، بیت لحم، الخلیل اور القدس کا کنٹرول سنبھال لیا”۔ یاسین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ شاید مصری شہداء کی لاشوں کو صحرائے سینا یا پھر غزہ کی پٹی سے لطرون میں منتقل کیا ہے؛ کیونکہ یہ علاقہ مصری فوجی دستوں سے بہت دور تھا۔
“مصر کے ساتھ صہیونی ریاست کے نام نہاد <امن معاہدے>، کے چالیس سال بعد بھی <مصری ہالوکاسٹ> پر پردہ ڈالنے کی صہیونی کوشش، اس غدار اور خائن ریاست کی حقیقی نوعیت کا عملی ثبوت ہے۔ ایسی [تاریخی عہد شکن] ریاست جو انسانی اقدار، معاہدوں، مفاہمت ناموں اور انسانی اخلاقیات تک کو اپنے منحوس مقاصد پر قربان کرتی ہے، اور پھر کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصری حکومت نے اپنی سرزمیں میں مدفون صہیونی فوجیوں کے باقیات کو تل ابیب کی تحویل میں دیا مگر صہیونیوں نے آج تک مصری شہداء کے بےجان پیکر ان کے گھرانوں کی تحویل میں نہیں دیئے ہیں۔
مصر کے 80 افسروں اور جوانوں کے خلاف صہیونیوں کی یہ درندگی اس امکان کو بھی عیاں کرتی ہے کہ یہودیوں کے زیر قبضہ فلسطینی سرزمین میں مصر اور دوسرے عرب ممالک کے شہید افسروں اور جوانوں کی متعدد اجتماعی قبریں موجود ہیں جنہيں اسرائیلیوں اپنی خونخوارانہ روشوں سے قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کیا ہے اور ان مقبروں کو آج تک خفیہ رکھا گیا ہے۔
ہمیں بجا طور پر توقع ہے کہ مسجد الحرام میں جعلی اسرائیل کی سلامتی کے لئے دعا کرنے اور اسی دعا کی پاداش میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے خطبۂ عرفہ دینے کا عہدہ پانے اور عرفات میں بھی عربوں اور مسلمانوں کے بدترین دشمن (رجوع کریں: سورہ مائدہ، آیت 82) کی کامیابی کے لئے گڑگڑانے والے “شیخ محمد العیسیٰ” – جو سعودی اکابر علماء کی شوریٰ کے رکن اور مبینہ “عالمی مجلس علماء” کے سربراہ بھی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران مبینہ طور پر ہلاک کئے جانے والے یہودیوں کے لئے سوگوار و عزادار رہتے ہیں اور ان کے لئے دعا میں مصروف رہتے ہیں؛ – ثابت کرکے دکھائیں کہ وہ انسانوں کے ہمدرد ہیں؛ اور مصری ہالوکاسٹ کا شکار ہونے والے مسلم سپاہیوں کے خاندانوں سے بھی ہمدردی کا اظہار کریں، اور مصری شہداء کے مقام تدفین پھر بھی حاضر ہوجائیں اور آشوٹس کی طرح یہاں بھی نماز پڑھیں؛ جیسا کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ انھوں نے مبینہ ہالوکاسٹ کی برسی کے موقع پرپولینڈ کا دورہ کیا اور وہاں، نازی دور کے آؤشوِٹس حراستی کیمپ (Auschwitz concentration camp) کی یاترا کرکے یہودی مبینہ یہودی مقتولین کو خراج عقیدت پیش کی، ان کی لئے دعائیں دیں، مقتولین کے خاندانوں سے ہمدردی ظاہر کی اور “یہودی مقتولین کی مغفرت کے لئے نماز پڑھی۔
العیسیٰ مسلمانوں کے قبلہ اول پر صہیونیوں کے قبضے کو جائز سمجھتے ہیں اور عربوں اور مسلمانوں سے چاہتے ہیں کہ صہیونی ریاست کو تسلیم کریں اور اس کے ساتھ تعلقات بحال کریں، درحقیقت صہیونیوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے (Normalization) کے فتنے کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں؛ اور اس نے کچھ عرصہ قبل بےشرمی کی انتہا کرتے ہوئے صہیونی غاصبوں کے خلاف فلسطینی مقاومت کو “غیر قانونی تشدد” کا نام دیا تھا اور مقدس سرزمین حجاز کے مقدس مقامات تک یہودیوں کو رسائی دینے میں بھی پیش پیش ہیں۔
العیسیٰ نے گذشتہ سال (سنہ 2021ع میں) مبینہ ہالوکاسٹ کی برسی کی رسم میں شرکت کے لئے بعض صہیونی ربیوں کے ساتھ مل کر پولینڈ میں یہودیوں کی مبینہ قتل گاہ “آشوٹس بیگار کیمپ” کا دورہ کیا تھا۔
غاصب صہیونی ریاست نے العیسیٰ کی اس چاپلوسی کو خراج تحسین پیش کیا اور صہیونی وزارت خارجہ کی ویب گاہ نے ایک ویڈیو کلپ نشر کیا جس میں محمد العیسیٰ اور اس کے کچھ ہم مسلک مولویوں کو آشوٹس کیمپ کا دورہ اور یہودی مقتولین کے لئے دعا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس ویڈیو کلپ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ کیمپ میں 11 لاکھ افراد مارے گئے تھے اور اکثر مقتولین یہودی تھے!
بےشک العیسیٰ جیسے سعودی مولویوں کی یہود نوازی کو دیکھتے ہوئے توقع کی جاتی ہے کہ دنیا کے معتقد اور مخلص مسلمان فلسطین کی آزادی کے ساتھ ساتھ جزیرہ نمائے عرب کی آزادی کے لئے بھی سنجیدگی سے سوچنا شروع کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔