براہ کرم بڈھے کو “بلا وجہ” مت ستاؤ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جیسا کہ مغربی اہلکاروں نے اپنے پیغامات میں کہا ہے، اگر بائڈن کا دورہ مغربی ایشیا “ایران کا دورہ” ہو، تو ہم ابھی سے مسٹر پریزیڈنٹ کے مشیروں سے کہتے ہیں کہ وہ بڈھے کو بلا وجہ نہ ستائیں کیونکہ جو حکمت عملی یہاں تک ایران کے خلاف وضع کی گئی ہے، بے گمان ناکام ہی ہوگی۔
واشنگٹن میں ایران کے سلسلے میں پالیسی سازی کا عمل بظاہر بری طرح معیوب ہے؛ یہاں تجربہ جمع نہیں کیا جاتا اور ماضی سے کچھ نہيں سیکھا جاتا۔ بڑھاپا اور ذہنی پسماندگی، بائڈن انتظامیہ میں انفرادی نہیں ہے بلکہ سسٹمیٹک (systematic)، باضابطہ اور ہمہ گیر ہے۔
اگر بائڈن کے دورے کا مقصد ایران کے خلاف ایک اجتماعی ڈھانچہ معرض وجود میں لانا ہے تو سمجھ لیجئے کہ امریکہ نوآموز کھلاڑیوں سے ہار گیا ہے؛ کیوں؟ اس لئے کہ خطے کا کوئی بھی ملک نہ ایران کے خلاف براہ راست کاروائی کرتا ہے اور نہ ہی کر سکتا ہے۔ ایران اور کسی بھی علاقائی حریف کے درمیان تنازعے میں یقینا ایران کو نقصان پہنچے گا لیکن اس کا حریف پتھر کے زمانے میں پلٹے گا۔ یہ تمام علاقائی سلامتی کے قواعد میں ایک طے شدہ غیر تحریری قاعدہ ہے۔ حتیٰ ایران کا حلفیہ دشمن “اسرائیل” بھی ایران کے خلاف اپنی کارروائیوں کے نئے دور میں، ایک پوشیدہ مقصد حاصل کرنے کے درپے ہے، جو ایران اور محور مقاومت کے ساتھ محاذ آرائی کے میدان کو عسکری چلن سے خصوصی کاروائیوں پر مبنی جنگ میں تبدیل کرنا ہے، جس میں وہ بزعم خود، برتری رکھتا ہے۔ اس کا ضمنی مطلب یہ ہے کہ اسرائیل گمان کرتا ہے کہ مقاومت اسلامی کی طرف سے اپنے کی جانے والی کاروائیوں کا سد باب کرے گا حالانکہ اس کے یہ اقدامات اس کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کو شدیدتر کریں گے اور ان کاروائیوں کی رفتار میں تیزی آئے گی۔ (اور یہ وہی چیز ہے جسے اسرائیلی بہت جلد محسوس کریں گے)۔
فی الحال البتہ، کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ایران کے خلاف اجتماعی عمل کا علاقائی بنیادی ڈھانچہ کہلانے والی چیز دراصل بالکل کھوکھلی اصطلاح ہے۔ صہیونی ریاست اور اس کے دوست ایران کے خلاف کسی قسم کی کاروائی میں کسی قسم کی جست لگانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ایران کے خلاف کوئی اجتماعی اقدام نہیں ہوگا۔ یہ صرف ایک کھیل ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو خطے میں کھینچ لایا جائے، امریکہ کو موجودہ پالیسی سے ہٹا کر ان ممالک کی آپریشنل یونٹ میں تبدیل کیا جائے جو خود ایران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی بھی اقدام کرنے سے عاجز ہیں۔ ریاض اور تل ابیب کے ذہنوں میں ایران کے خلاف ایک نئی علاقائی سلامتی-فوجی ڈھانچہ بنانے کی کوشش کا اصل مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو خطے کے معاملات میں مزید ملوث کیا جائے، اور اسے ایران کے خلاف کشیدگی بڑھانے کے اخراجات میں شریک کیا جائے، جبکہ اس کے عوض امریکہ کو کسی قسم کے فائدے کی ضمانت نہيں دی جا رہی ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ بائڈن کی سیکورٹی ٹیم یا مقابلہ ہار گئی اور سعودی و اسرائیلی [وقتی طور پر] جیت رہے ہیں۔ وہ [بظاہر] بائڈن کو اپنی “پرامن مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی” بدلنے اور انہیں مشرق وسطیٰ میں دوبارہ کھینچ لانے پر آمادہ کر چکے ہیں۔ لگتا ہے بائڈن اسرائیلی-سعودی دباؤ کے تحت مذکورہ حکمت عملی سے دور ہو چکے ہیں۔ انھوں نے امریکہ کو آمادہ کیا ہے کہ خطے میں ایسے منصوبوں پر بجٹ خرچ کریں جنہیں چھوٹے اور جنون زدہ اسرائیلی ذہنوں نے تیار کیا ہے اور یہ کہ مسٹر پریزیڈنٹ ان اقدامات اور کاروائیوں کے اخراجات کا ایک حصہ اپنے ذمے لے لیں۔ “فطری امر ہے کہ جب سانپ کا سر ایران کی دسترس میں ہے، اس کی دم پر حملہ نہیں کرے گا”۔
ایسے حال میں کہ بائڈن کی سیکورٹی ٹیم کا بنیادی ہدف بظاہر یہ ہے کہ روس اور چین کے ساتھ وسیع پیمانے پر تقابل کی خاطر اسرائیل اور عرب ممالک کی زیادہ مؤثر حمایت حاصل کرے، جو کچھ انہیں حاصل ہوگا وہ یہ ہے کہ مغربی ایشیا کا خطہ پہلے سے زیادہ افراتفری کا شکار ہوگا، جس میں فیصلہ کرنے کا اختیار محور مقاومت (Axis of Resistance) کے پاس ہوگا اور یہ محاذ امریکہ پر اخراجات تھونپ دے گا اور یوں صہیونی-سعودی (یہودی-سعودی) ریاست کی شرارتوں کا سدّباب کرے گا۔ اور یوں امریکہ – جو اپنے پہلے محاذ میں بھی روس اور چین سے ہار رہا ہے – ایک دوسرے محاذ میں بھی بنیادی کردار ادا کرنے پر مجبور ہوگا۔ امریکہ کو براہ راست جواب دینا شاید زیادہ خوشایند نہ ہو لیکن یہ شاید ناگزیر ہوگا، کیونکہ امریکہ ایک ایسے کھیل میں الجھ گیا ہے جس کا وہ دور سے انتظام و انصرام نہیں کر سکتا اور یہ توقع بھی نہیں کرسکتا کہ اس کھیل کے اخراجات کو متناسب انداز سے تقسیم کیا جائے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کھیل کے نتائج انتخابی بلکہ ناگزیر ہونگے۔
اور بالآخر، ریاض اور تل ابیب بظاہر امریکہ کو ایسے میدان میں الجھا سکتے ہیں جس کا منافع کانگریس اور بعدازاں صدارتی انتخابات میں بائڈن کے ریپلکن رقیبوں کی جیب میں جائے گا۔
بہرحال، جس چیز کو آج امریکہ کی نئی حکمت عملی کا نام دیا جا رہا ہے، وہ درحقیقت ایک اعتراف ہے اس حقیقت کے حوالے سے کہ بائڈن نے – اپنے انتخابی نعروں اور وعدوں کے برعکس، – ڈونلڈ ٹرمپ کے [اس] راستے پر گامزن رہنے کا فیصلہ کیا ہے [جسے وہ امریکہ کے لئے تباہی اور زوال کا سبب سمجھتے تھے]، اور ٹرمپ کی پالیسیوں کے آگے دو سالہ ظاہری استقامت کے بعد، بالآخر “زیادہ سے زیادہ [ریپلکن] دباؤ” ایک ڈیموکریٹ نسخہ اس کے مطلوبہ متبادل کے طور پر متعارف کرایا ہے، جو کہ در حقیقت ٹرمپ کی پالیسی ہی کی غیر ماہرانہ نقل (Copy) کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ [گویا مسٹر بائڈن نے ثابت کیا ہے کہ وہ مسٹر ٹرمپ کی کاپی ہیں اور] بائڈن انتظامیہ کا اتنا اہم اعتراف ریپبلکنز کی طرف سے ان [بائڈن] کے خلاف معتبر مہم چلانے کے لئے کافی ہے؛ اور اس اعتراف کی بنیاد پر وہ بڑے وثوق کے ساتھ امریکی عوام سے اپیل کرسکتے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹس کا یہ اعتراف سن لیں؛ اور جب اصل [ٹرمپ یا ریپلکن پارٹی] موجود ہے تو وہ جعلی اور نقلی نسخوں کو ووٹ دینے سے گریز کریں۔
المختصر یہ کہ امریکہ نے کوئی نئی حکمت عملی پیش نہیں کی ہے لیکن ایک گھسی پٹی حکمت عملی انتہائی بھاری قیمت پر انہیں فروخت کی گئی ہے۔ یقینا بائڈن زیادہ غیر یقینی اہداف و مقاصد کی خاطر زیادہ سے زیادہ وسائل خرچ کریں گے، روس اور چین کے ساتھ اپنے بڑے تصادم میں زیادہ سے زیادہ پیچھے رہ جائیں گے، امریکہ کے اندر اپنے ریپبلکن رقیبوں کو معتبر بنائیں گے اور خود کمزور ہو کر رہ جائیں گے، مغربی ایشیا کے خطے میں انہیں بہت عظیم – مگر غیر ضروری – اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے، اور انجام کار یہ ہوگا کہ ایک پہلے سے زیادہ طاقتور ایران میدان میں سرخرو کھڑا رہے گا، جس کو نئے اور قابل اعتماد شرکاء کی رفاقت بھی حاصل ہوگی اور اس کے رویے بھی امریکہ اور صہیونیوں کے خلاف زیادہ جارحانہ اور ناقابل مزاحمت (irresistible) ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: مہدی محمدی
تبصرہ کریں