ایران کے خلاف جنگ کا کوئی آپشن میز پر نہیں ہے

خلاصہ یہ کہ عارضی جعلی ریاست مغرب کی مدد سے اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر مستحکم کرنا چاہتی تھی مگر ایک طرف سے 75 سال گذرنے کے باوجود ابھی تک فلسطینیوں کے املاک پر قبضہ کرکے ملک سازی کے مرحلے کے ابتدائی نقطے پر کھڑی ہے، اور ملت سازی کا مرحلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے اور اسے نہ صرف ایک ریاست کی تشکیل کے عناصر کے فقدان کا سامنا ہےبلکہ سیاسی حوالے سے اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے؛

فاران تجزیاتی ویب سائٹ:گزشتہ سے پیوستہ

رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے ماہ جنوری 2021ع‍ کے آخری دنوں میں امریکی حکام اور صہیونی حکام کی طرف سے جنگی دھمکیوں کے بعد فرمایا تھا کہ “[امریکہ کے ساتھ] نہ جنگ ہوگی اور نہ ہی مذاکرات ہونگے”، تو اسرائیل کی تو بات ہی الگ ہے۔ واضح ہے کہ ٹوٹتی پھوٹتی اسرائیلی ریاست اپنے ہاتھوں سے اپنے وجود کو خطرے میں نہیں ڈالے گا؛ صہیونی بخوبی جانتے ہیں کہ ایران یا محور مقاومت کے خلاف کوئی بھی کاروائی ان کے وجود اور مستقبل کے لئے کس قدر خوفناک نتائج پر منتج ہو سکتی ہے؛ چنانچہ مقبوضہ فلسطین پر مسلط صہیونی حلقوں کے درمیان ایران کے خلاف کسی قسم کی کسی کاروائی کا منصوبہ اصولی طور پر زیر بحث ہی نہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ شیخی بگھارنے کے طویل المدت سلسلے اور فوجی مشقوں اور زبانی کلامی دھمکیوں کا مقصد امریکہ اور یورپی ممالک کو ایران پر دباؤ ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
صہیونی ایسا کرکے مغربی ممالک سے کہنا چاہتے ہیں کہ “اگر چاہتے ہو کہ مغربی ایشیا بدامنی اور افراتفری کا شکار نہ ہو اور تمہارے [مغربی] مفادات کو خطرہ لاحق نہ ہو تو ایران پر اپنا دباؤ بڑھا دو”۔ عبرانی زبان کی ویب گاہ سروگم (srugim) نے اس بارے میں لکھا: “ایران پر ممکنہ حملے کا امکان ظاہر کرنے کی اسرائیلی کوشش کا اصل مقصد، ماضی سے اب تک، عموما دنیا کی بڑی طاقتوں پر دباؤ بڑھانا ہے تاکہ وہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعے بھی اور فوجی دھمکیوں کے ذریعے بھی، ایران کو اپنے جوہری پروگرام سے دستبرداری اور علاقائی اثر و رسوخ کم کرنے پر مجبور کریں!”۔
یقینا اگر صہیونی ایران پر براہ راست حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے، تو وہ ایران کے سائنسدانوں پر بزدلانہ دہشت گردانہ حملوں یا تخریب کارانہ کاروائیوں کا سہارا نہ لیتے؛ حالانکہ صہیونی ماہرین اور اہلکار اس حقیقت کا بھی کئی بار اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے تخریب کارانہ اقدامات اور ایرانی سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے جیسے اقدامات نہ صرف ایران کی سرگرمیوں کے رکنے کا سبب نہیں بنے ہیں بلکہ ان میں شدید اضافے کا سبب بنے ہیں اور یہ موساد کے لئے بڑی شکست ہے۔ سابق صہیونی وزیر اعظم کا اعلانیہ اعتراف اس حقیقت کا عملی ثبوت ہے۔ [یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ صہیونی وزرائے اعظم کی تبدیلی اس قدر تیزرفتاری سے عمل میں آ رہی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم بہت جلد “سابق” ہوجاتا ہے، اور یہ ٹوٹتی ریاست کے بارے میں لکھنے والوں کے لئے ایک مسئلہ بنا ہؤا ہے]۔
اسرائیل ڈیفنس ویب گاہ نے اس سلسلے میں لکھا:
مذکورہ ویب گاہ کے مطابق، نفتالی بینیٹ [سابق وزیر اعظم] نے ایران کے خلاف موساد کی تمام تر کاروائیوں موساد کے سابق سرغنے یوسی کوہن (Yossi Cohen) کی ڈینگ ہنکائیوں کی مکمل ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: “جس وقت میں [ایک سال قبل] وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہؤا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہؤا کہ باتوں اور عمل کے درمیان اتنا تضاد کیوں ہے! جیسا کہ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ <میں ایران کو ایٹمی ملک نہیں بننے دوں گا> <اور جو کچھ عملی طور پر مجھے ورثے میں مل رہا تھا>، کے درمیان تشویشناک فاصلہ محسوس کر رہا تھا”۔ نیز نفتالی نے موساد کے اقدامات کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کی موجودہ صورت حال کے بارے میں کہا: “مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام انتہائی ترقی یافتہ سطح پر پہنچا ہؤا ہے، صورت حال یہ ہے کہ اس کی افزودگی کا طریقہ کار پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور وسیع ہے”۔
خلاصہ یہ کہ عارضی جعلی ریاست مغرب کی مدد سے اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر مستحکم کرنا چاہتی تھی مگر ایک طرف سے 75 سال گذرنے کے باوجود ابھی تک فلسطینیوں کے املاک پر قبضہ کرکے ملک سازی کے مرحلے کے ابتدائی نقطے پر کھڑی ہے، اور ملت سازی کا مرحلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے اور اسے نہ صرف ایک ریاست کی تشکیل کے عناصر کے فقدان کا سامنا ہےبلکہ سیاسی حوالے سے اس کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے؛ اندرونی بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پائیدار اور مستحکم ہے! چار سال سے کم عرصے میں چار انتخابات منعقد ہوچکے ہیں اور پانچویں انتخابات کا اعلان ہؤا ہے لیکن سیاسی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا ہے اور مستقبل قریب میں بھی استحکام کی توقع نہیں ہے۔ چنانچہ ایک طرف سے بہتر ہے کہ مغرب نیز صہیونیوں کے عرب گماشتے انہیں مشورہ دیں کہ ایران اور محور مقاومت (یا محاذ مزاحمت) کے خلاف کھوکھلے دعوے اور نعرے جاری رکھنے کے بجائے، اپنے مستقبل کے لئے کچھ کریں اور اپنے وجود اور بقاء کو موجودہ اور اگلے بحرانوں سے بچائیں۔ اور اس سے بھی زیادہ بہتر اور مناسب مشورہ یہ ہے کہ صہیونی بحیرہ روم میں تیرنا سیکھ لیں، کیونکہ اگلے ایام میں تیراکی، ان کے لئے، کسی بھی دوسرے ہتھیار سے زیادہ مفید ثابت ہوگی، جب فلسطین جعلی ریاست کا خاتمہ کرکے ایک بار پھر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔