۱۸ سکینڈ کی نماز
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جلد بازی و عجلت میں آپ نے یوں تو بہت سی ایسی پڑھی گئی نمازوں کو دیکھا ہوگا جنہیں دیکھ آپ کو تعجب ہوا ہوگا اور دل سے نکلا ہوگا کہ آخر یہ کونسی نماز ہے؟ اکثر ریلوے اسٹیشن ، ایئر پورٹ اور بس اڈوں پر جلدی جلدی نماز پڑھنے والے لوگ ہمیں دکھتے ہیں تو ہم خود ہی دل کو سمجھا لیتے ہیں کہ فلائٹ چھوٹنے والی ہوگی ، ٹرین نکلنے والی ہوگی ، بس روانہ ہونے کو ہوگی تو بے چارہ جلدی جلدی نماز پڑھ رہا ہے ، لیکن ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک آپ نے ایسی نماز نہیں دیکھی ہوگی جسے محض ۱۸ سکینڈ میں ادا کر لیا جائے اور نہ اس میں فلائٹ کے چھوٹنے کا خدشہ ہو نہ ٹرین نکل جانے کا ڈر اور نہ ہی اس بات کا ٹینشن کہ بس نہ چلی جائے اس قسم کی نماز حال ہی میں لکھنو شہر میں ادا کی گئی ہے جسکا دورانیہ محض اٹھارہ سکنڈ ہے اور اسکے بعد سے پورے ملک میں یہ معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ محض اٹھارہ سکینڈ میں نماز پڑھنے والے یہ اللہ کے نیک بندے کون ہیں؟ اور انہیں آخر کس بات کی جلدی تھی ، یوں تو نماز کو لیکر گزشتہ چند سالوں سے ہندوستانی سیاست میں کچھ نہ کچھ ہو ہی رہا ہے ، کبھی پارک میں نماز پڑھنے پر پابندی ہے تو کبھی عام جگہوں پر نماز پڑھے جانے کا مسئلہ ہے ،مختلف بہانوں سے یوں تو اسلامی تعلیمات اور اسلامی طرز بندگی کے اصولوں کو ٹارگٹ کیا ہی جا رہا ہے لیکن حال ہی میں ایک شاپنگ مال میں نماز کی ادائگی نے ہر ایک کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیا ہے چنانچہ ابھی چند دنوں سے لکھنو شہر میں کھلنے والے شاپنگ کا معاملہ بہت گرم ہے جس کے بارے میں خوب کلپس وائرل ہو رہی ہیں عمومی جگہوں پر عبادت کرنے نہ کرنے پر ڈبیٹس ہو رہی ہیں مختلف چینلز پر یہی گفتگو چل رہی ہے کہ کیا جو ہوا وہ صحیح ہے یا غلط ایک پورا مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے عجیب بات یہ ہے کہ نماز کا انداز نماز کا وقت اور نمازیوں کا رخ یہ ساری چیزیں اس پورے واقعہ کو جانچ کے دائرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں کیونکہ مقامی میڈیا کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ان ’نمازیوں‘ نے محض 18 سیکنڈ میں ہی نماز ختم کر دی۔ [1]۔جبکہ اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا کی جانب سے با قاعدہ اسی نماز پر ایف آئی درج کی گئی [2]۔
ویڈیو کے مطابق ان میں سے ایک شخص، جو کہ مبینہ طور پر امام ہے، اس نے تو اپنا رخ بھی قبلے کی جانب نہیں رکھا تھا[3]۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق، مال کے گیٹ سے لے کر سڑک پر لگے سی سی ٹی وی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ‘نمازی’ پیدل ہی شاپنگ مال کے اندر آئے تھے۔ انھوں نے پہلے گراؤنڈ فلور پر نماز پڑھنے کی کوشش کی لیکن سکیورٹی گارڈ نے انھیں روکا تو انھوں نے دوسری منزل پر جا کر ایک کونے میں ’نماز‘ پڑھی۔ مبینہ طور پر انہی کے ساتھیوں نے اس کی ویڈیو بھی بنائی[4]۔
یاد رہے ’’لولو مال کے مالک دبئی میں مقیم یوسف علی ایم اے نامور ایک انڈین تاجر ہیں۔ لولو گروپ کے مطابق ان کا 8 بلین امریکی ڈالر کے سالانہ کاروبار ہے اور ان کے لیے 60,000 سے زیادہ افراد خلیجی ممالک، مشرقی ایشیا، یورپ، امریکہ اور انڈیا میں کام کرتے ہیں۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ان کا لکھنؤ مال 15,000 سے زیادہ مقامی لوگوں کو براہ راست اور بالواسطہ طریقے سے ملازمتیں فراہم کرے گا۔ یہ 2,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے بنایا گیا ہے اور 2.2 ملین مربع فٹ پر پھیلا ہوا ہے، جسے لکھنو کا سب سے بڑا مال بتایا جا رہا ہے[5]۔واضح رہے کہ مال کا افتتاح عید الاضحیٰ کے دن اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا تھا، جو اکثر ہی اپنے مسلم مخالف بیا نات کی بنا پر ٹی وی اسکرینوں میں نظر آتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہند و سخت گیر تنظیمیں اب اس مال پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔
دی ٹیلی گراف‘ اخبار نے اس معاملہ پر لکھا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس مال کا افتتاح کیا تھا لیکن اب وہ خود اس کے لیے حملے کی زد میں آگئے ہیں۔ ’بدمعاشوں پر بلڈوزر چلانے کی بات کرنے والے وزیر اعلیٰ سے اب ہندو تنظیمیں لولو مال پر بلڈوزر چلانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔‘[6] ایک طرف یہ سب ہو رہا ہے دوسری طرف بعض ہندو رہنماوں نے لولو میں جا کر اپنے مذہبی رسومات کی ادائگی کی بات کی ہے جنہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی یہ سب کچھ اپنی جگہ ہے لیکن ایک بات قابل غور ہے جن لوگوں نے نماز پڑھی وہ کون تھے اور کس منشا کے تحت انہوں نے ایسا کیا چنانچہ اب بھی سوال اپنی جگہ یہی ہے کہ یہ کونسی نماز ہے جو ہو رہی ہے؟ وہ کون سے لوگ تھے جو یہ کام کر رہے تھے ، ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی مسلمان نماز پڑھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ ہو وہ بھی اسکا جو دوسروں کو نماز پڑھا رہا ہے ، اس حادثہ پر ایکشن نہ لیا جانا بھی خطرناک ہے اب تک تو ان لوگوں کو گرفتار ہو جانا چاہیے تھا جنہوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے یہ مذموم حرکت کی ہے ، یہ خاص طور پر مسلمانوں کے در میان بے چینی پیدا کرنے کے لئے اور آگے بڑے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کیا گیا ہے جس میں کچھ یوں حاصل ہو گئے کہ اب اسٹیشنز پر عام جگہوں پر مسلمان نماز پڑھنے سے بچ رہے ہیں کہ کوئی نیا وبال نہ کھڑا ہو جائے کتنے افسوس کی بات ہے ایک جعلی نماز جعلی امام کے ساتھ ایک بڑے مال کی ویڈیو کو کچھ شر پسند عناصر جان بوجھ کر وائرل کرتے ہیں اور اس چیز کو مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیا کوئی ایسی نماز ہے جسے ۱۸ سیکنڈ میں ادا کر دیا جائے کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلمان اس بات کو بھی واضح نہیں کر پا رہے ہیں کہ اس نماز کا تعلق ہم سے نہیں ہے ۔ ہم سب کو مل کر اس طرح کی چیزوں کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ایک زنجیر کے حلقوں کی صورت اس طرح کی بہت سی چیزیں سامنے آ سکتی ہیں جنکا سد باب ملک کی سالمیت و ملک میں امن و چین کے لئے ہر ایک ہندوستانی پر فرض ہے ۔
حواشی :
https://www.nationalheraldindia.com/india/lulu-mall-miscreants-had-no-clue-about-how-to-offer-namaz[1]
[2] ۔ https://www.dnaindia.com/india/report-lucknow-mall-row-how-recently-opened-lulu-mall-became-a-political-hotbed-controversy-explained-2969807
[3] ۔ https://www.thelallantop.com/news/post/in-lucknow-lulu-mall-namaz-offering-in-wrong-direction-completed-namaz-in-just-18-seconds
[4] ۔ https://www.bbc.com/urdu/regional-62215835
[5] ۔ https://www.bbc.com/urdu/regional-62215835
[6] ۔ https://www.bbc.com/urdu/regional-62215835
تبصرہ کریں