عزت و ذلت قرآن کریم کی روشنی میں

عزت اگر استحکام و پائداری و ناقابل شکست ہونے کے معنی میں کبھی بیان ہوتی ہے اور یہ وہی عزت ہے جو باطل کے مقابل مومنین کو حاصل ہے  اور یہی عزت کبھی مذموم  بھی واقع ہوتی ہے  اور یہ اس وقت ہے جب حق کے مقابل باطل کے اندر سختی کے کو بیان کر رہی ہو 

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عزت کا واقعی مفہوم اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئے گا جب تک حقیقی عزت اور اس کے سرچشمہ کی وضاحت نہ ہو اس لئیے کہ قرآن و روایات کی روشنی میں عزت دو طرح کی ہے ایک حقیقی عزت ایک جھوٹی اور بناوٹی عزت اب ان دونوں میں فرق کیا ہے یہ یا تو قرآن کریم کی وضاحت سے سمجھ میں آئے گا یا روایات کی روشنی میں ،علاوہ از ین عزت کو قرآن و روایات نے کس انداز سے اور کن پہلووں کے ساتھ پیش کیا ہے یہ جاننا بھی بہت اہم ہے اس لئیے قرآن و راویات کی روشنی میں مفہوم عزت اخذ کرنے کے بعد ہی یہ بات مکمل طور پر واضح ہو سکتی ہے کہ حسینیت کیوں کر عزت و سربلندی کا راستہ ہے ؟

قرآن کریم میں عزت کا مفہوم

۱۔ تمام عزتیں اللہ سے مخصوص  :

قرآن کریم تمام طرح کی عزتوں کو مالک حقیقی سے مخصوص جانتا ہے  اور اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ جو عزت چاہتا ہے وہ سمجھ لے کہ اپنے رب کی اطاعت کے بغیر عزت حاصل نہیں کر سکتا کہ ساری عزتیں اسی کے لئے ہیں  ، اس مقام پر عزت  کو ذاتا رب کریم نے خود سے جوڑا ہے گرچہ بعض دیگر موارد میں اسکا دائرہ بڑھا کر رسول و مومنین کو بھی اس میں شامل کیا ہے جو کہ اسی کے طول میں آتے ہیں ارشاد ہوتاہے :

مَن كانَ يُريدُ العِزَّةَ فَلِلَّهِ العِزَّةُ جَميعًا ۚ إِلَيهِ يَصعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَمَلُ الصّالِحُ يَرفَعُهُ ۚ وَالَّذينَ يَمكُرونَ السَّيِّئَاتِ لَهُم عَذابٌ شَديدٌ ۖ وَمَكرُ أُولٰئِكَ هُوَ يَبورُ”جوکوئی بھی طالب عزت ہے ( وہ جان لے )کہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب عزت ہے اسی کے حضور میں پاکیزہ کلمے بلند ہوتے ہیں اورنیک عمل بھی کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کوبلند کرتا ہے اورجولوگ برائیوں کی تدبیر کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اوران کی خفیہ تدبیر کا انجام تباہ و بربادی ہے ،،[1]

فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا۔  بیشک تمام کے تمام عزت اللہ کے لئیے ہے [2]

۲۔ عزت  کا وسیع دائرہ :

گزشتہ آیت میں جہاں عزت کو پروردگار نے بلکہ تمام تر عزتوں کو خود سے منسوب کرتے ہوئے  فا ن للہ العزۃ  جمیعا کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی کہ راہ  توحید پر چل کر ہی عزت کو حاصل کیا جا سکتا ہے وہیں ذیل کی آیت میں راہ توحیدی پر چلنے والے عزت کے حامل کچھ  مومنین اور رسولوں عمومی مصادیق کو قرآن بیان کرتے ہوئے یہ واضح کر رہا ہے کہ جس نے اللہ سے اپنا رابطہ بنا لیا وہ عزت مند ہے چاہے البتہ یہ ضرور ہے کہ منافقین اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ.

’’وہ کہتے ہیں اگرہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے توجو زیادہ عزت دار ہے وہ اس میں سے ذلیل کو ضروربالضرور نکال دے گا اورعزت اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولؐ اورمومنین کے لئے ہی ہے لیکن منافقین اس بات سے بے خبر ہیں۔  [3]

بالذات تو یقینا عزت خداوند متعال ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور اگر یہ مومنین کو کہیں ملے تو سمجھ لینا چاہیے اسی کی جانب سے ہے جس کے لئے ساری عزتیں ہیں یہ ایک ایسی عطا ہے جو فقط مؤمنین کو نصیب ہوئی ہے اوراس کے علاوہ کسی کو بھی اس جیسی عطا سے فیض یاب نہیں کیاگیا اسی لئے اللہ نے  مومن کو ہر چیز کا اختیار دیا ہے لیکن ذلیل ہونے کی اجازت اسے نہیں ہے کہ خود کو ذلیل و خوار کرتا گھومے  حضرت امام جعفرصادقؑ فرماتے ہیں:(ان اللہ عزوجل فوّض الی المؤمن امورہ کلّھا ولم یفوض الیہ ان یکون ذلیلاً:اما استمع قول اللہ عزوجل یقولُ ’’وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین‘‘فالمؤمن یکون عزیزاً ولایکون ذلیلاً۔ ثم قال ان المؤمن اعز من الجبل۔ ان الجبل یستقل منہ بالمعاول والمؤمن لایستقل من دینہٖ شیء) ’’بے شک خداوندمتعال نے اپنے تمام امور مومن کوعطا کیئے ہیں البتہ اسے اجازت نہیں دی کہ وہ ذلیل ہو کیا آپ نے نہیں سنا کہ خداوندمتعال فرماتا ہے:عزت اللہ ،اس کے رسولؐ اورمومنین کے لئے ہے پس مؤمن تو ہمیشہ عزیز ہوتا ہے اورکبھی بھی ذلیل نہیں ہوتا پھرآپ نے فرمایا مؤمن پہاڑ سے زیادہ عزیز(سخت) ہوتا ہے کیونکہ پہاڑ کو ریزہ ریزہ کیا جاسکتا ہے لیکن مومن کے دین سے کوئی چیز کبھی بھی کم نہیں ہوسکتی۔‘‘[4] اسی لئے روایت میں ہے کہ مومن کو خدا اس کے ایمان کے سبب عزیز دیکھنا چاہتا ہے اور ذلت اسکے لئے سزوار نہیں ہے[5] اب ایک مومن  کے اوپر فرض ہے کہ جس طرح اپنے مال جان اور اپنی اولاد و ناموس کی حفاظت کرتا ہے ویسے ہی اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرے  شیخ  حر عاملی رحمہ اللہ  نے  وسائل الشیعہ، میں  ابواب امر بالمعروف کے ذیل میں ایک پورا باب ذکر کیا ہے جس کے اندر کافی حدیثیں ہیں جن کا مشترکہ مضمون یہی عزت نفس ہے ۔ امام صادق ـ کی مذکورہ حدیث وہاں بھی ذکر ہوئی ہے کہ مومن کو ہر چیز کا اختیار ہے لیکن ذلیل ہونے کا اختیار نہیں ہے یعنی وہ جو چاہے کھا سکتا ہے، جو چاہے پہن سکتاہے، جہاں چاہے سو سکتا ہے۔ البتہ قیود شرعی اور حلال و حرام لحاظ کرتے ہوئے۔ تفویض امور کا مطلب یہی ہے کہ مومن کے اپنے شخصی اعمال و امور کو خدا نے اس کے سپرد کر دیا لیکن ایک چیز کا اختیار اسے نہیں دیا گیا اور وہ اپنے نفس کو ذلیل و پست و رسوا کرنا ہے کیونکہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے اسکو ایمان کی بنا پر عزیز قرار دیا ہے  ۔

۳۔ عزت و ذلت مشیت پروردگار کے تابع ہے

تُعِزُّ مَنْ تَشاءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشاء

وہ جس کو چاہتا ہے عزت دینا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت دیتاہے [6]

قرآن کریم میں عزت مثبت معنی میں ہے لیکن جب یہی لفظ منافقین و کافروں کے لئیے استعمال ہوتا ہے تو بڑھائی اور نخوت اور غرور کے معنی میں اس کا ترجمہ کیا گیا  چنانچہ جہاں ارشاد ہوتا ہے : بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ حقیقت یہ ہے کہ یہ کفاّر غرور اور اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں [7]

وہاں اسکے مثبت معنی نہیں ہیں بلکہ یہ منفی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

علامہ طباطبائی اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں :  عزت اگر استحکام و پائداری و ناقابل شکست ہونے کے معنی میں کبھی بیان ہوتی ہے اور یہ وہی عزت ہے جو باطل کے مقابل مومنین کو حاصل ہے  اور یہی عزت کبھی مذموم  بھی واقع ہوتی ہے  اور یہ اس وقت ہے جب حق کے مقابل باطل کے اندر سختی کے کو بیان کر رہی ہو  جیسا کہ قرآن کریم حق کے سامنے باطل کی سختی کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ [8]

[1]  ۔ فاطر ۱۰

[2]  ۔ آل عمران ـ۱۳

[3]  ۔ منافقون؍۸۔

[4]  ۔ کافی،محمدیعقوب کلینی،تصیح وتعلیق علی اکبرغفاری،ج۵،ص۶۳۔

[5]  ۔ انّ اللّٰہ عزوجلّ فوّض الی المؤمن امورھ کلھا ولم یُفوّض اِلَیہ أن یُذِلَّ نَفَسہ، ألَم تَسمَع یَقُول اللّٰہ عزّوجلّ: وَللّٰہ العِزةُ و لِرسُولہِ ولِلمُؤمنین فالمُؤمن یَبنغِی أن یَکُونَ عَزِیزاً وَلَا یَکون ذَلیلاً یعِزُّہُ اللّٰہُ بِا الایمان و الاسلام ”. اصول کافی،ج٥،ص٦٣

[6]  ۔ آل عمران ، ۲۶

[7]  سورہ ۔ص۔ ۲، رجوع کریں ۔ ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی ،شیخ محسن علی نجفی ، صفدر نجفی ،  ترجمہ آیت اللہ مکارم شیرازی، الہی قمشہ ای ، صادقی تہرانی ، فولاد وند ، و دیگر مترجمین

[8]  ایضا