روایات اور سیرت امام حسین علیہ السلام کی روشنی میں عوامل عزت
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
۲۔ تقوی الہی :
تقوی کی بنیاد پر یوں تو بہت سے بندگی کے گوہر نکھرتے ہیں اور پروردگار متقی کو بے شمار انعامات سے نوازتا ہے ، ان بہت سے انعاموں میں ایک معنوی انعام عزت ہے حدیث میں ہے’’ لاعزٌ اعز من التقویٰ‘‘،’’کوئی عزت تقویٰ سے زیادہ عزیز نہیں ہے۔‘‘[1] ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں : «من اراد ان یکون اعز الناس فلیتق الله عزوجل‘[2]جو لوگوں میں سب سے زیادہ عزت مند ہونا چاہتا ہے ضروری ہے کہ تقوی الہی اختیار کرے ۔ تقوی سے بڑی کوئی پناہ گاہ نہیں جس میں انسان جب داخل ہو جائے تو دشمن اسے ہرا نہیں کہہ سکتا اور اسے بے عزت نہیں کر سکتا جو تقوی کی پناہ میں آ گیا اسکے مقابل جس نے فسق فجور کیا وہ ذلیل خوار ہونے والا ہے چنانچہ امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں : «اعلموا عباد الله ان التقوی دار حصن عزیز والفجور دار حصن ذلیل; جان لو اے بندگان خدا تقوی ایسا قلعہ ہے جو انسان کو ناقابل شکست بناتا ہے اور فسق فجور ایسا محل ہے جو انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے [3] ایک تپتے بے آب و گیاہ میں صحرا میں شہید ہونے والے امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا آج شہید ہو کر بھی لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں حصار تقوی کی بنیاد پر اور محلوں میں رہنے والا یزید خوار و ذلیل ہے اپنے فسق و فجور کی بنیاد پر ۔
۳۔ قرآن کریم :
انسان کے لئے ایک بڑا وسیلہ خود قرآن کا ہے ، انسان اگر قرآن سے مانوس ہے تو ذلیل و خوار نہیں ہو سکتا اسلئے کہ یہ کتاب ، عزت بخشنے والی کتاب ہے ، آج دنیا میں مسلمان ذلیل و رسوا ہیں تو قرآن کو چھوڑنے کی بنیاد پر شاید اسی لئے ماضی میں جب مسلمان قرآن سے وابستہ تھا تو اسکی حالت اتنی غیر نہ تھی جتنی آج ہے کیا ہی خوب کہا تھا علامہ اقبال نے :
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
قرآن کی پناہ میں جو آ گیا کیونکر وہ ذلیل و خوار ہو سکتا ہے ، جبکہ خود قرآن اسکا محافط ہے امام علی علیہ السلام قرآن کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :
’’وعزا لا تهزم انصاره وحقا لا تخذل اعوانه‘‘[4] یہ ایسی (عزت بخشنے والی) کتاب ہے جو اپنے دوستوں کو ایسی طاقت دیتی ہے کہ وہ شکست نہ کھا سکیں اور ایسی حقیت ہے کہ اپنے دوستوں کو رسوا نہیں ہونے دیتی ۔
کتنے ذلیل و خوار تھے قرآن کو چھوڑنے والے اور کتنے عزیز تھے قرآن کو اپنے وجود میں اتارنے والے، کٹے ہوئے گلے نوک نیزہ پر بھی تلاوت قرآن کر کے اپنی شکست ناپذیری اور خدا کے حضور اپنے عزیز ہونے کا اعلان کر رہے تھے اور سروں کو کاٹنے و نیزوں پر چڑھانے والے اپنے جسموں پر سر ہونے کے بعد بھی ذلیل و رسوا تھے ، کس طرح قرآن سے تمسک عزت دیتا ہے اور کس طرح قرآن کے تعلیمات کو بھلا دینے سے انسان ذلیل ہوتا ہے یہ کربلا بتا رہی ہے ۔ آج بھی وہ حسین عزیز ہے جسے تلاوت قرآن پسند تھی اور اسکے چاہنے والے عزیز ہیں لیکن وہ یزید پلید جو جاہلیت کے اشعار پر ناز کرتا تھا آج لعنتوں کا طوق لئے گھوم رہا ہے ۔
۴۔جہاد فی سبیل اللہ :
اللہ کی راہ میں جہاد کرنا عزت و سربلندی کا سبب ہے، نہ صرف جہاد لوگوں کی ذاتی عزت کا سبب بلکہ دین کی عزت کا سبب بھی ہے چنانچہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :
فرض الله الجهاد عزا للاسلام; [5] اللہ نے جہاد کو اسلام کی شکست نا پذیری اور عزت کے سبب فرض کیا ہے ۔
ایک اور مقام پر جہاد کے سلسلہ سے ٹال مٹول کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’اف لکم لقد سئمت عتابکم! ارضیتم بالحیاة الدنیا من الاخرة عوضا؟ وبالذل من العز خلفا؟ اذا دعوتکم الی جهاد عدوکم دارت اعینکم کانکم من الموت فی غمرة‘‘ [6]وائے ہو تم پر میں تمہاری نا فرمانی سے تھک چکا ہوں کیا تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی سے بدل ڈالا ہے ،ذلت کو عزت کی جگہ قرار دے دیا ہے جب میں تمہیں جہاد کی طرف دعوت دیتا ہوں تو تمہاری آنکھوں کے دیدے خود سے یوں اندر کی طرف دھنس جاتے ہیں کہ جیسے موت کا خوف تمہاری عقلوں کو لے اڑا ہو ‘‘
آپ اپنے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں :
«قد استطعموکم القتال فاقروا علی مذلة، وتاخیر محلة او رووا السیوف من الدماء ترووا من الماء . فالموت فی حیاتکم مقهورین والحیاة فی موتکم قاهرین[7]
وہ تم سے جنگ کے لقمے طلب کرتے ہیں۔ تو اب یا تو تم ذلت اور اپنے مقام کی پستی و حقارت پر سرِ تسلیم خم کر دو۔ یا تلواروں کی پیاس خون سے بُجھا کر اپنی پیاس پانی سے بجھاؤ ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنا بھی جینے کے برابر ہے۔
جیتے جی مرنے اور غالب آکر مرنے کو کربلا سے بہتر کون بتائے گا، عام طور پر لوگ موت کے خوف سے ہی جہاد سے بھاگتے ہیں اور پھر جہاد کو ترک کرنے کی بنا پر ذلیل و خوار ہوتے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں موت و حیات کا ایک الگ ہی تصور پیش کر دیا چنانچہ ایک مقام پر جب حر نے آپکا راستہ روکا تو آپ نے فرمایا :
«افبا الموت تخوفنی؟ ! هل یعدو بکم الخطب ان تقتلونی وساقول کما قال اخو الاویس لابن عمه وهو یرید نصرة رسول الله صلی الله علیه و آله فخوفه ابن عمه وقال این تدهب؟ فانک مقتول . فقال:
سامضی فما با الموت عار علی الفتی
اذا مانوی حقا وجاهد مسلما
وواسی الرجال الصالحین بنفسه
وفارق مثبورا وخالف مجرما
فان عشت لم اندم وان مت لم الم
کفی بک ذلا ان تعیش وترغما;[8]
امام علیہ السلام کے فرمائے گئے ان مذکورہ جملوں کا مفہوم کچھ یہ ہے :
کیا تو مجھے موت سے ڈراتا ہے اور کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ مجھے مار دے گا تو موت سے بچ جائے گا ؟ میں تجھ سے وہی کہوں گا جو ہمارے بھائی اویسی نے اپنے چچا زاد بھائی سے اس وقت کہا جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد کے لئے جانے کی تیاری کر رہے تھے اور اویسی کا چچا زاد بھائی انہیں ڈرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہاں جا رہے ہو ؟ یقینا قتل کر دئیے جاوگے ،اسکے جواب میں اویسی نے کہا میں اسکے باوجود ضرور جاونگا کہ ایک جوان کو موت سے عار نہیں ہوتی اور ایسے میں عار ہونا بھی نہیں چاہیے جب کہ اس کی نیت حق ہو اور وہ مسلمان ہونے کی بنا پر اپنے رب کے سامنے تسلیم ہو ایسے میں سزاوار ہے کہ وہ اپنی جان دیکر صالح اور نیک لوگوں کی ہمراہی کرے اور مجرم اور مطرود لوگوں سے خود کو الگ کر لے ۔ کہ اگر میں زندہ رہوں تو اس میں پشیمانی کی کوئی بات نہیں ہے اور اگر جام شہادت نوش کر لوں تو مجھ پر ملامت نہیں کی جائے گی لیکن یہ تیرے لئے باعث ننگ و عار ہے کہ تو زندہ رہے اور ظلم و ستم کی ذلتوں کو اپنے کاندھوں پر ڈھوتا رہے ۔
جہاں امام حسین علیہ السلا م ایسی زندگی کو ننگ و عار سمجھتے ہیں جس میں سانسوں کی آمد و رفت تو ہو لیکن ظلم کے خلاف جدو جہد نہ ہو دین کی راہ میں جہاد نہ ہو وہیں آپ اس زندگی کو حیات جاوداں کا نام دیتے ہیں جو حصول عزت کی راہ میں ہو اور ساری دنیا کو اپنے تصور حیات سے یوں آشنا کرتے ہیں :
’’لیس شانی شان من یخاف الموت، ما اهون الموت علی سبیل نیل العز واحیاء الحق، لیس الموت فی سبیل العز الا حیاة خالدة ولیست الحیاة مع الذل الا الموت الذی لا حیاة معه …[9]
امام حسین علیہ السلام کے ان تاریخی جملوں کا مفہوم کچھ یوں ہے :
میری شان یہ نہیں کہ موت سے ڈر جاوں کتنا آسان ہے عزت کو حاصل کرنے کی راہ اور احیاء حق کے لئے انسان موت کو گلے لگا لے ، موت حصول عزت کی راہ میں حیات جاوداں کے سوا کچھ نہیں اور ذلت کے سایہ میں زندگی ایسی موت ہے جسکے بعد کوئی زندگی نہیں ۔
امام حسین علیہ السلام نے حیات کے تصور کو جس خوبصورت اندازمیں بیان کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مکتب حسینت میں ذلتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، وہ اور لوگ ہوتے ہیں جو اپنی جان بچا کر ذلتوں کے سایہ میں ہر قیمت پر جیتے ہیں لیکن مکتب حسینیت میں زندگی کی قیمت عزت ہے اور اگر یہ عزت نہیں تو زندگی موت سے عبارت ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ہر جہاد کا جو انداز امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب باوفا نے پیش کیا وہ پوری تاریخ انسانیت میں منفرد و بے نظیر ہے جہاں امام علی علیہ السلام جہاد کو سبب عزت بتاتے ہوئے اپنے لشکر والوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ تم کیوں نہیں جہاد کرتے وہاں امام حسین علیہ السلام کے بہتر ساتھی جہاد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے پر تولتے نظر آتے ہیں ۔
امام حسین علیہ السلام نے جس مقام پر حر کو اویسی مثال دیکر کر عزت کا مفہوم اور جہاد کی ضرورت سمجھائی وہیں اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ موت سے ہرگز ہرگز میں ڈرنے والا نہیں ہوں چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
افبالموت تخوفنی؟ ! . . . مرحبا بالقتل فی سبیل الله، ولکنکم لا تقدرون علی هدم مجدی ومحو عزتی وشرفی، فاذا لاابالی من القتل[10]
کیا تو مجھے موت سے ڈراتا ہے ؟ مرحبا اس قتل پر جو اللہ کی راہ میں ہو ، لیکن اتنا جان لو کہ تم میری عظمت میری عزت ، میرے شرف کو مٹا نہیں سکتے تو مجھے قتل ہو جانے سے کیا باک ۔
امام حسین علیہ السلام کا یہ اطمینان اور زندگی میں عزت و وقار کا یہ ہی تصور تھا کہ حر اپنی ذلت آمیز زندگی کو چھوڑ کر خیمہ عزت و وقار میں آگیا ۔
امام حسین علیہ السلام کا شوق جہاد و شہادت ہمیں بتا رہا ہے کہ بغیر جذبہ جہاد و شہادت کے عزتوں کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے ، شہادت کے ذریعہ کرامت و شرف کے حصول کے سلسلہ سے امام حسین علیہ السلام کے آخری وقت کے یہ جملے کس قدر قیمتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:
وایم الله لارجون ان یکرمنی الله بالشهادة،[11] خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ خدا شہادت کے ذریعہ مجھے کرامت و شرف بخشے گا ۔
یہ عشق شہادت امام حسین علیہ السلام ہی ہے جو ان دعائیہ فقروں کی صورت پھوٹتا ہے :
الهی وسیدی وددت ان اقتل واحیی سبعین الف مرة فی طاعتک ومحبتک سیما اذا کان فی قتلی نصرة دینک واحیاء امرک وحفظ ناموس شرعک[12]
میرے پروردگار میرے سید و سردار میں چاہتا اگر تیری اطاعت ومحبت پر مجھے ستر ہزار مرتبہ بھی قتل کیا جائے اور پھر مجھے زندہ کیا جائے تو گوارا ہے خاص کر جب میرا قتل تیرے دین کی نصرت کا سبب اورتیرے امر کے احیاء کا وسیلہ بنے، اور تیری ناموس شریعت کی حفاظت کا سبب بنے ۔
میدان کربلا میں آپکے خطبات و فرمودات نیز آپکے دعائیہ جملوں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپکا شوق شہادت کس منزل پر تھا اور خدا کی راہ میں جہاد کو آپ عزت و سربلندی کے لئے کتنا اہم سمجھتے تھے ، یقینا اگر ہمارے وجود میں خدا کی راہ میں اسکی دین کی خاطر مر مٹنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو موجودہ حالات کی ابتری سے خود کو نکال سکتے ہیں لیکن جب تک موت کے ڈر سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگتے رہیں گے اور مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کریں گے تب تک ذلتوں کو اپنا مقدر بنائے رہیں گے ۔ اس لئے کہ اللہ کی راہ میں جہاد و قربانی وہ عامل ہے جسے ہم آجکی دنیا میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں نے اس الہی فریضہ سے فرار نہ کیا اور اپنے دشمن کے سامنے ڈٹ گئے آج وہ عزیز ہیں چاہے وہ ایران کا اسلامی انقلاب ہو، یا عراق میں تکفیری عناصر سے جنگ یا شام و لبنان میں مدافعین حرم و حزب اللہ کی ملیشیا ہو ، ان سبھی کو اگر آج دنیا میں عزت و شرف سے دیکھا جاتا ہے تو انکے جذبہ شہادت و جہاد کی بنا پر ، اللہ کی راہ میں شہید ہو جانا تو جہاد کا ایک رخ ہے ، اگر شہادت نہ بھی ہو تو دشمن کے سامنے ڈٹا رہنا ہی عزت و وقار کے لئے بہت ہے ۔لیکن افسوس کے ذرا سا مشکلات بڑھتی ہیں تو ہمارے معاشرے میں خود کو سرینڈر کر دینا ہی مصلحت سمجھا جاتا ہے اس سے بے خبر کہ جس حسین ع کا ہم نام لیتے ہیں انکے مکتب میں وہ زندگی حقیقت میں زندگی ہی نہیں ہے جہاں ذلتیں دامن کے ساتھ آویزاں ہوں ۔ زندگی تو اسی وقت ہی زندگی کہے جانے کے لائق ہے جب عزت و شرف کے ساتھ ہو ۔
[1] نہج البلاغہ، کلمات قصار،۳۷۱۔
[2] ۔ بحارالانوار، ج 70، ص 285، حدیث 7
[3] ۔ نهج البلاغه، محمد دشتی، ص 292، خطبه 157
[4] ۔ نھج البلاغہ ، خطبه 198، ترجمہ دشتی ،ص 418
[5] ۔ نهج البلاغه، محمد دشتی، ص 682، حکمت 252
[6] ۔ نهج البلاغه، ص، ترجمہ دشتی ، 86، خطبه 34 .
[7] ۔ ایضا ، خطبہ ۵۱ ، ترجمہ مفتی جعفر حسین
[8] ۔ شیخ مفید الارشاد، ج 2، ص 82; ر . ک: شیخ عباس قمی، نفس المهموم، ص 116 و اعلام الوری، ص 230
[9] ، ایضا
[10] ۔ توفیق ابوعلم، کتاب اهل البیت (مصر، مطبعة سعادت)، ص 448 و ر . ک: ملحقات احقاق الحق، ج 11، ص 601
[11] ۔ نفس المهموم، ص 116.
[12] ۔ فاضل دربندی، اسرار الشهادة، ص 402 و ر . ک: شیخ محمد مهدی حائری، معالی السبطین، ج 2، ص 18 .
تبصرہ کریں