خدمت خلق اور تعلیمات حضرت سید الشہداء علیہ السلام
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہمارے سماج میں ایک بڑی قدر جس پر توجہ کی ضرورت ہے وہ خدمت خلق ہے ، لوگوں کی خدمت کا جو جذبہ ایام عزا میں ہوتا ہے وہ اور دنوں میں دیکھنے میں نہیں آتا ، ماہ مبارک رمضان اور ایام عزا یہ دو ہی ایسے مواقع ہیں جہاں دین کی بھی تبلیغ ہوتی ہے اور خلق خدا کے سلسلہ سے بھی انسان کے وجود کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے لہذا ضروری ہے کہ مخلوق پروردگار کے لئے اگر کسی کے دل میں کچھ کرنے کا جذبہ ہے تو اسے صحیح نہج اور صحیح راہ پر لگایا جا ئے تاکہ معاشرے کی صلاحیتوں کو ایک تعمیری و مثبت راہ میں صرف کیا جا سکے ۔
قرآن و اہلبیت اطہار علیھم السلام کے تعلیمات میں ایک اہم تعلیم لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا انکی مشکلات کو حل کرنا ہے جہاں تک خدمت خلق کا تعلق ہے تو دینی مفاہیم سے واضح ہوتا ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے کہیں پر یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اس مرحلے پر جا کر اب خدمت خلق کی سرحد ختم ہو جاتی ہے ، دوسروں کے سروں سے بوجھ اٹھانا اس کے مختلف راستے ہیں خدمت خلق کا ایک شعبہ مالی امداد اور اقتصادی طور پر کسی کی مدد کرنا ہے ورنہ اس خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے خدمت خلق کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہے کہ اسے رنگ و نسل مذہب و مسلک و جغرافیہ میں قید نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ہر مشکل انسان مال سے حل کرے کچھ مشکلات ایسی ہوتی ہے جنکا تعلق مال سے نہیں ہوتا ہے ، اگر انسان مال نہ بھی دے سکے تو کم از کم اپنے اخلاق کے ذریعہ کسی کی ڈھارس تو بن سکتا ہے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :
تم سب کو مال کی بخشش و عطا سے راضی نہیں کر سکتے ہو اور مال کے ذریعہ لوگوں کی زندگی میں آسانیاں نہیں لا سکتے ہو لیکن اپنے اچھے اخلاق سے انہیں اپنے سے راضی کو خوش رکھ سکتے ہو ۔
لوگوں کی حاجتیں ایک نعمت :
لوگوں کی حاجت روائی اور مشکلات کو دور کرنے کا جہاں بڑا اجر ہے وہیں یہ حاجتیں اور ضرورتیں اللہ کی جانب سے ایک نعمت ہیں جو ایک حاجت روا انسان کے لئے اللہ کی جانب سے رکھی گئی ہیں انہیں نیک دل انسان ایک بہترین موقع کی شکل میں دیکھتے ہیں وہ کسی کی حاجت کے سامنے پریشان نہیں ہوتے انکے سامنے جب مسائل آتے ہیں تو وہ چڑھتے نہیں ناراض نہیں ہوتے بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ مالک نے اس لائق جانا اور صلاحیت و طاقت دی کہ کسی کی مشکل میں اس کے کام آ سکیں حضرت امام حسین علیہ السلام اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ جان لو کہ لوگوں کا تمہاری طرف رجوع کرنا اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے پس نعمت تمہارے لئے افسردگی کا سبب نہ بنے کہ یہ ایسی نعمت ہے جو کفران نعمت کی وجہ سے دوسروں تک منتقل ہو جائے گی ‘‘ ۔
کیوں نہ ہو حسین علیہ السلام وارث انبیاء ہیں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وارث ہیں جنہوں نے فرمایا: ہر ایک مسلمان جو دوسرے کی خدمت کرتا ہے اسے بہشت میں اتنے ہی خدمت گزار ملتے ہیں جتنی اس نے خدمت کی ہے ۔
اگر ہم ائمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی کو دیکھیں تو متوجہ ہوں گے کہ ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام کی ایک بڑی آرزو یہی تھی کہ لوگوں کی خدمت کر سکیں ، خلق خدا کی مشکلات دور کر سکیں چنانچہ ہمارے یہاں دعاوں میں بھی اس مفہوم کو بیان کیا گیا ہے امام سجاد علیہ السلام ایک دعاء میں فرماتے ہیں :
’’خدایا لوگوں کے نیک کاموں کو میرے ہاتھ سے انجام پذیر فرما اور میری خدمات کو منت رکھنے کے ذریعہ ضائع ہونے سے بچا لے ‘‘ ۔
لوگوں کی مشکلات کا حل انکی پریشانیوں کی برطرفی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے احادیث کی کتب میں مستقل باب میں بیان کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ فقہی مآخذ و روایی کتب میں ہمیں مستقل طور پر ایسے ابواب ملتے ہیں جنکا تعلق لوگوں کی خدمت سے ہے جیسے ’’باب قضاء حاجۃ المومن‘‘’’ خدمۃ المومن ‘‘ الاہتمام بامور المسلمین ‘‘ الطاف المومن و اکرامہ ‘‘ ان تمام ابواب میں ان احادیث کو بیان کیا گیا ہے جس میں لوگوں کی خدمت کے نتائج و آثا رکو بیان کیا گیا ہے حضرت سید الشہدا علیہ السلام ایسی ہی وارد ہونے والی ایک روایت میں فرماتے ہیں : جو بھی کسی مومن بھائی کے دل سے غم و اندوہ کو دور کرے خدا اسے آخرت کے غم و اندوہ سے نجات دے گا ۔
سید الشہداء یتیموں کی بہار و پناہ گاہ :
جہاں خلق خدا کی خدمت کی بڑی اہمیت ہے وہیں اس خدمت میں ایک خاص خدمت جس کی بڑی تاکید کی گئی ہے یتیم نوازی ہے امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف نے امام حسین علیہ السلام کو یتیموں کی پناہ گاہ اور انکی بہار کے طور پر پیش کیا ہے چنانچہ زیارت ناحیہ میں ملتا ہے ’’ ائے جد بزرگوار !آپ یتیموں کی بہار، لوگوں کی پناہ گاہ ، اسلام کی سرافرازی کا سبب ، احکام و معارف الہی کا سرچشمہ اور عہدو پیمان پر قائم و بخشش و عطا کرنے والے تھے ‘‘ ۔
سید الشہدا ء علیہ السلام محض لوگوں کی خدمت ہی نہیں کرتے بلکہ ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے وقت انکی عزت نفس کا خاص خیال رکھتے تھے چنانچہ ملتا ہے کہ ایک دن انصار کا ایک شخص اپنی ایک مشکل لے کر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ابھی اس نے منھ نہیں کھولا تھا کہ اس کے چہرے کی پریشانی و اس کے غم و اندوہ کو اما م حسین علیہ السلام نے پڑھ لیا اور اس سے کہا :’’ ائے میرے انصاری بھائی تم اپنی مشکلات کو میرے سامنے بیان نہ کرو بلکہ ایک رقعہ پر مرقوم کر دو تاکہ میں اسے پڑھ کر تمہاری مشکل کو برطرف کر دوں اور تمہاری خوشی کے اسباب کو فراہم کر سکوں ‘‘۔
اس نے ایک رقعہ میں لکھا : ائے ابا عبد اللہ الحسین ع میں فلاں کا پانچ سو درہم مقروض ہوں اور اس شخص کی جانب سے مسلسل مطالبہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مشکل میں گرفتار ہوں آپ اس شخص سے کچھ گفتگو کر لیں میری وساطت کر دیں کہ وہ مجھے مہلت دے دے امام علیہ السلام نے یہ پڑھا آپ گھر گئے ایک تھیلی نکالی جس میں ہزار دینار تھے لیکر آئے اور انصاری کے ہاتھ میں دے دی اور کہا اس میں سے پانچ سو درہم سے اپنے قرض کی ادائگی کرنا اور باقی کے بچے پانچ سو سے اپنی زندگی کے دیگر اخراجات کو ادا کرنا پھر اس کے بعد آپ نے اس انصاری کو نصحیت کی کہ اپنی حاجت کو تین طرح کے لوگوں کے علاوہ کسی سے بیان نہ کرنا ۱۔ دیندار لوگ ۔ ۲ جواں مرد ۔۳ وہ لوگ جو خاندی شریف ہیں اس لئے کہ دیندار انسان اپنے دین کو محفوظ رکھنے کے لئے تمہاری مدد کرے گا جواں مرد اپنی مردانگی کی بنا پر حیا کرے گا اور تمہارے کام کو انجام دے گا شریف و نجیب انسان چونکہ اس بات سے واقف ہے کہ تم نے اپنی آبرو اس کے سامنے رکھ دی ہے لہذا وہ تمہارے کام آئے گا اور تمہاری شخصیت اور تمہاری آبرو کو محفوظ رکھے گا ۔
اسی طریقہ سے ایک اور واقعہ آپ کی زندگی میں کچھ یوں ملتا ہے کہ ایک دن ایک بینوا و محتاج شخص جو اپنی پریشانیوں کو لے کر تھک چکا تھا ایک موہوم سی امید لیکر مدینہ آیا اور اس نے کہا مجھے مدینہ کی کریم و سخی شخصیت کا پتہ بتاو ، لوگوں نے اسے امام حسین ع کا پتہ بتا دیا ہے ، یہ شخص امام حسین علیہ السلام کو ڈھونڈتا ہوا مسجد میں آیا اور اس نے دیکھا امام علیہ السلام نماز میں مشغول ہیں اسی اثنا میں اس نے حال کو ان اشعار میں بیان کرنا شروع کیا :
’’ جس نے بھی آپ سے امید لگائی کبھی نامید نہیں ہوا جس نے بھی امید لگائی اور تمہارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس نے پایا کہ آپ بخشنے والے قابل اعتماد ہیں جب کہ آپ کے والد گرامی فاسقوں کو دھول چٹانے والے تھے امام حسین علیہ السلام نے جب یہ سنا تو قنبر سے کہا ’’ حجاز سے آنے والے اموال میں کچھ بچا ہے قنبر نے کہا جی مولا چار ہزار دینار آپ نے کہا قنبر سب لے آو اس لئے کہ یہ سامنے کھڑا ہوا شخص ہم سے زیادہ اس مال کا سزاوار ہے پھر امام علیہ السلام گھر میں گئے آپ کے بدن پر برد یمانی تھی اسے آپ نے اتارا دیناروں کو اس میں لپیٹا اور دروازے کی اوٹ سے اس ضرورت مند کو دے دیا اور یہ اشعار پڑھے :’’ یہ لے لو میں تم سے معذرت چاہتا ہوں اور تمہارے لئے شفیق و مہربان ہوں ، مجھ سے فی الحال اتنا ہی قبول کرو کہ اگر ہمارے پاس حکومت و طاقت ہوتی اور ہاتھ کھلے ہوتے تو آسمان جود رحمت کو تم پر برسا دیتے لیکن یہ زمانے کی ستم ظریفی ہے کہ زمانہ بدل رہا ہے اور ہمارے پاس بھی دینے کے لئے زیادہ نہیں ‘‘۔
جب اس شخص نے امام علیہ السلام سے اس ہدیے و تحفے کو لیا تو رونے لگا امام علیہ السلام نے پوچھا رو کیوں رہے ہو کیا یہ کم ہے تو اس نے جواب دیا ہرگز کم نہیں ہے بلکہ میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ یہ سخی و شفقت بھرے ہاتھ کس طرح سے زیر خاک جائیں گے ۔
یہ ہمارے اس امام کا کردار جس پر ہم گریہ کرتے ہیں روتے ہیں جس کے مصائب پر آنسو بہاتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اس امام مظلوم کی شخصیت سے واقف ہوں اس کے فضائل سے آشنا ہوں ، ایام عزا میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اس شخصیت کے ان پنہاں گوشوں کو لوگوں کے سامنے لائیں جن میں فضائل و کمالات کا ایک لا متاہی سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایام عزا میں امام حسین علیہ السلام کی سیرت و ان کی شخصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے امام علیہ السلام کا غم منائیں کربلا کے مصائب کے ساتھ ذکر کربلا کے ساتھ فکر کربلا سے آشنائی ہم سب کے لئے بہت ضروری ہے فکر کربلا سے آشنائی کے لئے ہم پر لازم ہے جس قدر بھی ہو سکے کربلا کے کرداروں کو کربلا میں شہید ہونے والی شخصیتوں کو بھی پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ آج کی کربلا میں آج کے موجودہ یزید کے سامنے حسینیت کے محاذ پر ڈٹ سکیں۔
تبصرہ کریں