انسانی زندگی کے تین بڑے سرمایے اور غم سید الشہداء علیہ السلام
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سرکار سید الشہدا (ع) کا غم محض غم نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں انسانوں کی تربیت ہوتی ہے، عزائے سید الشہداء سے منسوب ان ایام میں جو معنوی رزق ہمیں ملتا ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ یوں تو پورے سال ہی ہم ذکر سید الشہدا ء کرتے ہیں سال بھر ہی مجالس کا سلسلہ کسی نہ کسی عنوان سے رہتا ہے جو کسی عزیز کی مجلس ترحیم ہو یا شب جمعہ کی مجالس یا پھر معصومین علیھم السلام کی شہادت کی مناسبت سے رکھنے والی مجالس، یہ سب اپنی جگہ ہیں لیکن دو مہینہ آٹھ دن ہم جس طرح کربلا والوں کا غم مناتے ہیں وہ بہت اہم ہیں، دنیا بھر میں عاشقان رسول ص مجالس کا اہتمام کرتے ہیں ، لنگر کا انتظام ہوتا ہے ، دور دور سے لوگ اپنے وطن محرم کرنے آتے ہیں کربلا کی یاد رشتوں میں دوبارہ حرارت ڈال دیتی ہے ، اعزا و اقربا سے ملاقات ہوتی ہے ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے ایک دوسرے کے حالات سے آشنائی ہوتی ہے یہ سب ذکر حسین علیہ السلام کی برکت ہے ۔ یہ سید الشہداء کی یاد اور ان کا تذکرہ ہے کہ جو ہمارے دل کو مردہ نہیں ہونے دیتا ہے اس لئے مالک کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے ہمیں ایسے ماحول میں پیدا کیا جہاں ذکر حسین (ع) اور یاد کربلا کی خوشبو ہے ۔
ذکر سید الشہداء دلوں کی حیات کا سبب:
روایت میں ہے کہ جو بھی ہماری ایسی مجلس میں آتا ہے اور بیٹھتا ہے جس میں ہمارے امر کو زند ہ کیا جا رہا ہو تو ایسے انسان کا دل قیامت کے دن ہرگز مردہ نہیں ہوگا ۔
مجالس سید الشہداء سے بڑھ کر اور کونسی جگہ ہے جہاں پر احیاء امر اہلبیت اطہار علیھم السلام ہوتا ہو ، یہ ایام عزا ہی کی برکت ہے کہ ہم حق کے آئینہ پر پڑی گرد کو ان ایام میں صاف کرتے ہیں ، باطل کے چہرے سے نقاب نوچی جاتی ہے ،ان دو مہینہ ۸ دن میں ہر جگہ ایک ہی جیسا ماحول ہوتا ہے ، ہر طرف سیاہ پرچم ہوتے ہیں ، امام حسین ع کے اقوال زریں پر مشتمل پوسٹر اور بینر ہوتے ہیں ، دو مہینہ ۸ دن ہمارے یہاں کوئی خوشی کی تقریب نہیں ہوتی ہے ، شادی بیاہ کے معاملات کو ۸ ربیع الاول کے بعد تک ٹال دیا جاتا ہے یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ کیا ہر سال محض ایک رسم منانے کے لئے ہرگز نہیں ہم ان دنوں میں کوشش کرتے ہیں کہ اپنی روح کو ان ایام میں ایسی غذا فراہم کر دیں کہ وہ تیزی کے ساتھ اوج حاصل کرتی رہے ۔ ہم سب ان ایام میں ایک سفر طے کرتے ہیں کمالات کا روح کی ارتقاء کا ۔
سماج کے تین طبقات اور ہم :
اگر دیکھا جائے تو معاشرے میں تین طرح کے گروہ پائے جاتے ہیں :
۱۔ وہ لوگ جو رشد و ہدایت کی راہ پر آگے بڑھتے ہیں اور دن بدن معنوی طور پر ترقی کرتے جاتے ہیں۔
۲۔ وہ لوگ جو بالکل ٹھس ہوتے ہیں ، اپنی جگہ سے ہلنا بھی انہیں بھاری پڑتا ہے ۔
۳۔ وہ لوگ جو ترقی تو دور کی بات ہے جہاں ہیں وہاں بھی نہیں ٹہر پاتے ہیں اور مسلسل پیچھے کی طرف جاتے ہیں گراوٹ کا شکار ہوتے ہیں ۔
انسان اگر آگے کی طرف بڑھ رہا ہے تو اسے رشد کہا جاتا ہے، اگر پیچھے کی طرف آئے تو یہ انحطاط ہے کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو جہاں ہیں وہیں پڑے رہتے ہیں ان کے وجود کی حرکت دوری ہوتی ہے بس وہ ایک چکر پورا کرتے ہیں ایک دور پورا کرتے ہیں پھر اپنی پرانی جگہ پہنچ جاتے ہیں جیسے کولہو کا بیل جو چکر کاٹتا ہے لیکن کسی منزل کو طے نہیں کرتا ہاں اس کے گھومنے سے کسی اور کو فائدہ ضرور ہوتا ہے ، مختصر یہ کہ انسان یا آگے بڑھتا ہے یا پیچھے کی طرف آتا ہے یا جہاں ہے وہی ٹہرا رہتا ہے ، ہمیں بھی ان ایام عزا میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہاں ہیں ، پچھلے سال سے کچھ آگے بڑھے وہیں پر ہیں یا جہاں تھے اس سے بھی پیچھے رہ گئے ،کربلا در حقیقت ہمارے سامنے تین میدان رکھتی ہے ، آگے بڑھنے والا ، پیچھے رہ جانے والا ، جوں کے توں پڑے رہ جانے والا ہمیں دیکھنا ہے ہم کس کیٹگری میں آتے ہیں ۔
اب دیکھیں آگے بڑھنے والوں میں رشد حاصل کرنے والوں میں حر کا ایک بڑا مقام ہے ، حر نے کتنی تیزی کے ساتھ اپنے سفر کو طے کیا یہ بات قابل غور ہے ۔ جوں کے توں پڑے رہنے والوں میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو نہ امام حسین ع کے لشکر کا حصہ بن سکے اور نہ ہی یزید کے لشکر کا ، گرچہ یہ اپنے آپ میں ایک انحطاط ہے لیکن اسکا تعلق نسبی ہے ، نسبی طور پر یہ گروہ بہرحال اتنا برا نہیں جتنا یزید کا لشکر ، انسان امام حسین ع کے مقابل آ جائے اس سے بڑھ کر کم مائگی اور کیا ہوگی ایسے لوگوں میں جو نہ یزید کے ساتھ تھے نہ امام حسین ع کا ساتھ دینے پر خود کو تیار کر سکے ایک نام ہے عبد الرحمن کا جس سے مولا نے خود اپنی نصرت کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا میری نصرت کو ترک نہ کرنا جبکہ عبد الرحمن کا جواب تھا یہ سب ہمارے بس کی بات نہیں ہے مجھے ان معاملات میں نہیں پڑنا ہے ، ایسے افراد کم نہیں ہیں ، ابن عباس، عبد اللہ ابن عمر، حر جحفی یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے بنی امیہ کا ساتھ بھی نہیں دیا اور امام کا ساتھ بھی نہیں دیا ، اب کچھ ایسے تھے جو جہاں تھے خود کو وہاں بھی نہ رکھ سکے اور نیچے لڑھک گئے خود کو ایسا تباہ کیا کہ تاریخ میں داخل دشنام ہو گئے نہ دنیا ہی میں کچھ ملا نہ آخرت میں ایسے لوگوں میں بڑا نام پسر سعد کا ہے جو دونوں طرف گھاٹے میں رہا نہ تو اسے رے کی حکومت ہی نصیب ہوئی اور آخرت تو خیر اس نے خود ہی برباد کر لی تھی ۔
یہاں پر غور کرنے کی بات ہے کہ انسان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وہ اپنی تباہی کی سطور خود ہی لکھنے بیٹھ جائے
اس کے لئے ہمیں اللہ کی جانب سے دئیے گئے انسانی سرمایے پر غور کرنے کی ضرورت ہے اللہ نے انسان کو بہت بڑا سرمایہ دیا ہے ہم اس سرمایے کو تین شکلوں میں بیان کر سکتے ہیں :
۱۔ جسمی سرمایہ :
ہم سب کے پاس بدن ہے جسم ہے کوئی خوبصورت ہے کوئی بد صورت ہے کوئی کالا ہے کوئی گورا ہے کسی کے پاس طاقت زیادہ ہے کسی کے پاس کم ہے کوئی طویل القامت ہے کوئی پستہ قد ہے، کوئی قوی حافظے کا مالک ہے کسی کو صبح ناشتہ کر کے یہ بھی یاد نہیں رہتا اس نے کیا کھایا تھا یہ سب ہمارے جسم کا سرمایہ ہے ۔
۲۔ غرائز و خواہشات کا سرمایہ :
خواہشیں اگر اپنے حدود میں رہیں تو انسان آگے بڑھتا ہے ، انہیں لگام نہ دیا جائے تو تباہی ہے حیوانوں کے اندر بھی خواہش ہے انکے وجود میں بھی غرائز ہیں بلکہ ہم سے آپ سے بہت زیادہ ہیں ، آپ گائے کو لے لیں، بیل بھینسے اور سانڈھ و گوسفند و بکرے کو لے لیں ان سب کے اندر شہوت بھی زیادہ ہے کھانے کی خواہش بھی زیادہ ہے ۔
۳۔ معنویت و عقلانیت کا سرمایہ :
ہمارے وجود میں اللہ نے عقل کو رکھا ہے معنویت کی جانب رجحان کو رکھا ہے لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے استعمال کریں یہ وہ سرمایہ ہے کہ جسے جتنا استعمال کیا جائے گا اتنا ہی اس میں اضافہ ہوگا ،جتنا انسان غور کرے گا سوچے گا اتنا ہی اس کے مسائل حل ہوں گے جتنی فکر عمیق ہوگی اتنا ہی انسان مضبوطی سے آگے بڑھے گا
اب یہ تینوں سرمایے وہ ہیں جنہیں انسان کو معتدل انداز میں ساتھ ساتھ لیکر چلنا ہے اب اگر کوئی ان تین میں سے دو کو استعمال کرے اورآخری کو چھوڑ دے تو آپ کیا کہیں گے ؟ قرآن ایسے لوگوں کو چوپاوں کی صورت دیکھتا ہے ایسے لوگ حقیقت میں قرآن کی نظر میں چو پائے ہیں جو عقل و شعور رکھتے ہوئے استعما ل نہیں کرتے ان کے پاس دل ہے لیکن اس سے سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ مولانا رومی نے بڑی اچھی مثال دی ہے کہ ایک گاوں میں ایک بڑا سا کھیت تھا گو کہ سمجھیں ایک سرسبز جزیرہ ہو اس میں صرف ایک گایئے رہتی تھی اس بڑے سے جزیرے میں جو ایک کھیت کی شکل میں تھا ہر طرح کی ہری بھری گھاس تھی گائے روز صبح اٹھ کر دور تک جاتی اور خوب خوب چرتی اور رات تک چرتے چرتے موٹی ہو جاتی دیر رات گئے جب واپس آتی تو اسی کھیت نما جزیرہ کے خیالات میں کھوئی رہتی جہاں اسکی پسند کی ہر طرح کی گھاس تھی ، اسی کے بارے میں سوچتے ہوئے اس کے ذہن میں طرح طرح کے وہم و خیالات آنے لگتے کبھی وہ سوچتی کہیں ایسا نہ ہو اس جزیرہ میں سیلاب آ جائے اور سب کچھ ختم ہو جائے کبھی سوچتی اچانک کچھ مصیبت نہ آجائے کہ پورا ہرا بھرا جزیرہ سوکھ جائے سب کچھ خشک ہو جائے ، کبھی اس کے ذہن میں آتا کوئی دوسری گائے نہ آ جائے یہی سب چیزیں سوچ وہ خود کو ہلکان کرتی لیکن جب صبح ہوتی تو پھر اسی کھیت میں چرنے پہنچ جاتی اور سب کچھ اپنی جگہ پا کر مست ہو جاتی اس طرح وہ دن میں موٹی رہتی اور رات ہوتے ہی پتلی ہونے لگتی مولانا روم نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ گائے درحقیقت ہمارا نفس ہے اور یہ دنیا ہمارا سرسبز جزیرہ ہے ہم سب ایک دوسرے سے یہاں بھڑے ہوئے ہیں کہ مجھے یہ مل جائے وہ کہیں لے کر چلا نہ جائے روز ہم کھا بھی رہے ہیں پی بھی رہے ہیں لیکن رات ہوتے ہوتے ہمارے خیالات ہمیں گھلا دیتے ہیں کہ آج کا دن تو گزر گیا کل کیا ہوگا اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ انسان سوچتا ہے سب کچھ اس کے ہی ہاتھ میں جب کہ اسے غور کرنا چاہیے کہ تدبیر اسکی ہے لیکن حقیقت میں تقدیر لکھنے والا تو رب ہی ہے ۔
عزائے سید الشہدا ء کا ایک فائدہ یہی ہے کہ ہمیں تینوں سرمایوں کے درمیان اعتدال برتنے کا ہنر ان مجالس و سید الشہدا ء کی یاد سے سیکھنے کو ملتا ہے ، اگر ہمارے پیش نظر کربلا رہے تو ہرگز اس دنیا کے کھیت میں ہمارے نفس کی گائے بے لگام نہیں گھومے گی کیونکہ کربلا بندگی کی اوج کا نام ہے ۔
تبصرہ کریں