مغربی ایشیائی ضابطہ بمقابلہ امریکہ
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مغربی ایشیا سے امریکہ کے انخلاء کے بارے میں قیاس آرائیاں کبھی تو تضادات تک بھی پہنچ جاتی ہیں۔
پہلی قیاس آرائی یہ ہے کہ اتنی ساری لشکرکشیوں، زمینی، فضائی اور بحری اڈوں کے قیام اور ان کے آس پاس بے شمار نفری کی تعیناتی سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ خداداد وسائل اور ثروت سے مالامال انتہائی اہم اور حساس تزویراتی خطے سے نکلنے کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ مالاگا، ہرمز، باب المندب کی آبناؤں، اور اہم بین الاقوامی بحری گذرگاہوں اور تیل، گیس اور دوسری اشیاء کی منتقلی کے راستوں کی موجودگی سبب بنی ہے کہ امریکہ عنقریب اس علاقے سے نکلنے کا ارادہ مؤخر کرتا رہے۔ جنگ یوکرین کے بعد امریکہ کا اگلا بحران تائیوان، بحرالکاہل کے علاقے اور مشرقی چین سے تعلق رکھتا ہے۔ نینسی پلوسی سمیت امریکی حکام اور کانگریس کے اراکین کے وفود – اس لئے کہ چین کو بائڈن انتظامیہ کے خلاف کوئی موقع فراہم نہ کیا جائے – امریکہ کے نمائندوں اور ایلچیوں کے طور پر تائیوان کے دورے کر رہے ہیں۔ بالکل واضح ہے کہ امریکیوں نے ذمہ داریاں تقسیم کرکے، چین کے خلاف اس طرح کی اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہؤا ہے۔ چینی بھی خاموش نہیں بیٹھے ہیں اور تائیوان کے آس پاس فوجی مشقوں میں مصروف ہیں؛ چنانچہ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کو یوکرین کی جنگ سے فارغ ہو کر اپنی کچھ افواج مغربی ایشیا سے نکال کر بحیرہ چین منتقل کرنا پڑیں گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دو “قدیم” اور “جدید” مسائل میں ایران کی پوزیشن کیا ہے: قدیم مسائل، جن کا تعلق اسلامی انقلاب سے قبل کے زمانے سے ہے۔ اور جدید مسائل کا تعلق سنہ 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے زمانے سے ہے۔
انقلاب اسلامی سے قبل تک، امریکی ایران کی طاقت، تزویراتی محل وقوع، اور خداداد قدرتی وسائل پر بہت “حساس” اور اس ملک پر تسلط جمانے کے خواہاں تھے۔ اور انقلاب اسلامی کے بعد دہشت گرد امریکی حکومت نے مختف کیفیتوں سے ہمیں بے انتہا نقصان پہنچایا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
امریکہ کا ایک اقدام – جس کا اس نے علاقے سے انخلاء کی صورت میں بھی اٹھانے کا اعلان کیا ہے – ایک ایران مخالف اتحاد بنانا ہے، جو درحقیقت اس کے حلیفوں کے ساتھ، اسلامی جمہوریہ ایران اور حلیف ممالک اور تنظیموں کی قیادت میں علاقائی مقاومت (مزاحمتی محاذ)، کے خلاف ایک استعماری امریکی توازن برقرار کرنے کی کوشش ہے۔
امریکی اقدامات نئے نہیں ہیں اور ایران کے فوج، سلامتی کے اداروں اور سیاسی، زعماء ان کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔ امریکی اور استکباری ممالک کے تصورات کے برعکس، کچھ ملک ہیں جو تباہی کی کھائی کے کنارے تک چلے جاتے ہیں، امریکہ کے ساتھ آگ کے ساتھ کھیل کا تجربہ بھی کر لیتے ہیں، لیکن آخر میں ان دوسرا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی وقت بھی خلیج فارس کی بعض ریاستیں – جن کی قیادت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس ہے – ایران کی طرف آنے کی رغبت رکھتے ہیں۔ وہ ایران میں اپنے سفارت خانوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ پائیدار اور مستحکم تعلقات قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ عمل عمومی توقعات کے برعکس ہے؛ یہ کہ خطے کے ممالک مزید امریکی احکامات کے تابع مہمل نہیں ہیں اور امریکہ زوال اور انحطاط کے دور سے گذر رہا ہے اور افغانستان، شام اور عراق کے حالات اس حقیقت کی تصدیق و توثیق کر رہے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل نامی جعلی ریاست بھی اس سلسلے میں نئی پالیسی سازیوں میں ناکام ہو چکی ہے۔ گوکہ غاصب ریاست کے حکام [عرب ریاستوں کے ساتھ] تعلقات کی بحالی، اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھانے اور ایران اور محور مقاومت (Axis of Resistance) کے خلاف اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھانے اور ایران کے خلاف نیا توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کے یہ عزائم ان کی توقعات کے مطابق، پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ انہیں حتیٰ توقع تھی کہ جو بائیڈن کے حالیہ دورہ مغربی ایشیا کے دوران – کم از کم – سعودی عرب غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا [اعلانیہ] آغاز کرے۔ لیکن ان کی یہ توقع بھی پوری نہ ہو سکی۔ اور غاصب ریاست اور بائیڈن کو بہت بڑا روحانی، اخلاقی اور نفسیاتی دھچکا لگا۔
ان ہی دنوں ایک فضائی اتحاد اور عربی نیٹو کی تشکیل کے بارے میں بھی بہت شور شرابہ ہؤا، اور یہ منصوبہ بھی ناکام ہؤا اور بہت سے ممالک نے – جنہیں عربی نیٹو کے ممکنہ اراکین سمجھا جاتا تھا – اپنا توبہ نامہ لکھ کر مذکورہ منصوبے سے بیزاری کا اعلان کیا؛ اور اسلامی جمہوریہ کے لئے خیرسگالی کے پیغامات بھجوا دیئے۔
امریکہ کی طرف کے ممکنہ خطرات کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مستحکم اور فیصلہ کن پالیسی، مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی بسا اوقات کہتے ہیں کہ “اگر ہم ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر سمجھوتے پر نہیں پہنچ پاتے، تو ہم دوسرے آپشنز استعمال کر سکتے ہیں!” اور امریکیوں کے آپشنز یا تو نفسیاتی اور تشہیری جنگ کا حصہ ہیں یا پھر سلامتی کے خلاف اقدامات اور دہشت گردانہ کاروائیوں سے عبارت ہیں؛ اور امریکی اور صہیونی حکام کی پردیس میں شیخیاں بگھارنے کے برعکس، فوجی کاروائی نہ تو امریکیوں کے ایجنڈے پر ہے اور نہ ہی صہیونی اس طرح کی کسی کارروائی کا خطرہ مولنے کی جرات کر سکتے ہیں۔
امریکہ ایران کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکانے کے درپے نہیں ہے، کیونکہ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اس صورت میں پورا علاقہ آگ میں جل کر راکھ ہو جائے گا؛ اور موجودہ صورت حال میں، جبکہ امریکہ اور مغربی ممالک کو اس علاقے میں یہاں سے تیل اور گیس کی ترسیل کے لئے امن و سکون کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ بعید از قیاس ہے کہ واشنگٹن ایران کے خلاف فوجی کاروائی کے بارے میں سوچے۔
لیکن ان حالات میں ہم بھی چین سے بیٹھ کر ان کی مسلسل مشقوں کا نظارہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ان کے اقدامات، خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں ہمیں نہ صرف جنگی اور دفاعی اور حتٰی کہ جارحانہ صلاحیتوں کو محفوظ اور جاری رکھنا پڑے گا۔ ہم ایک مرکب جنگ (Hybrid warfare) سے گذر رہے ہیں اور اس جنگ کے ہر محاذ کے اپنے تقاضے ہیں جن میں سے اہم ترین جنگی تیاری ہے۔ ان ہی ایام میں ایرانی افواج عظیم جنگی مشقوں میں مصروف ہیں، اور اس سے پہلے ڈرون طیاروں اور بحری افواج کی مشقیں ہو چکی ہیں۔ ہمیں کسی صورت میں بھی دشمن کے سامنے کمزوری نہیں دکھانا چاہئے اور ثابت کرکے دکھنا چاہئے کہ کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔
ہم امریکی اڈوں کے میزبان ہمسایہ ممالک سے کہتے ہیں کہ امریکہ جلدی یا بدیر اس خطے سے نکل جائے گا، [بالکل افغانستان سے فرار کی طرح]؛ لیکن ہمارے اور آپ کے مقدرات – سرزمین کے لحاظ سے بھی اور تزویراتی اور سلامتی کے لحاظ سے بھی – یہ ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہیں [یعنی پڑوسیوں کو بدلا نہیں جا سکتا؛ اور بقائے باہمی کے قواعد کا پاس رکھنا چاہئے]۔
تو آیئے، ایک ضابطہ متعین کریں اور ایک مشترکہ فضا فراہم کریں تاکہ ہم سب مل کر امن و سکون سے رہیں اور اپنے خطے کے عوام کی خدمت کے لئے منوبہ سازی کرسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر سید ہادی سید افقہی
تبصرہ کریں