تل ابیب کی غاصب ریاست کی حدود کا تعین کر دیا حزب اللہ کے ڈرون طیاروں نے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کسی زمانے میں یہودی ریاست اور اس کے مغربی حامیوں کے خوف سے عرب ممالک کو تل ابیب کے ساتھ عجیب و غریب قسم کے معاہدوں پر مجبور کیا جاتا رہا ہے جس کی مثالیں سینا سے اردن، اور سوڈان سے سعودیہ اور امارات و بحرین تک دیکھی جا سکتی ہیں، لیکن اس بار اس ریاست – جو اندرونی تنازعات اور بدامنیوں، سیاسی اختلاف اور ساختیاتی کمزوریوں سے دوچار ہے – تحریک حزب اللہ کے ساتھ لڑائی سے بچنے کے لئے لبنان کے ساتھ بحری سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے پر دستخط کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔
لبنان کے ساتھ یہودی ریاست کے بحری سرحدی اختلافات کا آغاز مورخہ 5 جون 2022ع سے ہؤا جب لبنانی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی کہ ایک اسرائیلی بحری جہاز گیس نکالنے کے لئے کاریش گیس فیلڈ میں داخل ہوئی ہے جو ایک متنازعہ سرحدی علاقہ ہے۔
لبنانی اخبار “النہار” نے لکھا کہ کاریش گیس فیلڈ میں اسرائیلی مائع قدرتی گیس کی پیداوار اور ذخیرہ کرنے والے “انرجیئن پاور” (Energean Power) نامی جہاز کی تعیناتی کو ممکن بنانے کے لئے کام شروع ہو گیا ہے۔ مذکورہ گیس فیلڈ میں یہودی ریاست کے سرگرم عمل ہونے کے ساتھ ہی تحریک حزب اللہ نے انتہائی مضبوط موقف اپنایا اور جارحانہ اقدامات کے حوالے سے تل ابیب کو متنبہ کیا۔
اس واقعے کے چار روز بعد حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل جناب سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہا: “صہیونی ریاست کی طرف سے گیس نکالنے والے جہاز کا کاریش گیس فیلڈ کی طرف بھیجنا، لبنان کی سالمیت اور خودمختاری کی پامالی کے زمرے میں آتا ہے۔ جو کچھ رونما ہو رہا ہے در حقیقت لبنان پر اسرائیلی جارحیت اور لبنان کو مشکل حالات سے دوچار کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ان اقدامات کا بلاواسطہ مقصد کاریش گیس فیلڈ سے اسرائیل کے ہاتھوں گیس اور تیل حاصل کرنا ہے۔ لبنان کے محاذ مقاومت (مزاحمت) صہیونی دشمن کو اس علاقے سے تیل اور گیس نکالنے سے روکنے کی بھرپور عسکری صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم جنگ کے خواہاں تو نہیں ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ لبنان کے تیل اور گیس کے ذخائر لبنان کے پاس باقی رہیں۔
مقاومت کا فیصلہ کن جواب؛ تل ابیب نے واشنگٹن کا سہارا لیا ثالثی کے لئے
یہودی ریاست کے اقدام پر لبنانی مقاومت کے فیصلہ کن اور فوری جواب کے ایک ہفتے بعد، جعلی ریاست کے عبوری وزیر اعظم یائیر لاپید نے واشنگٹن کا دامن پکڑا اور امریکی انتظامیہ کو بیروت اور تل ابیب کے درمیان سمندری حدود کے تعین کے حوالے سے مذاکرات میں ثالثی کے لئے بلایا۔ سید حسن نصر اللہ کے خطاب کے ایک ہفتہ بعد اعلیٰ امریکی مشیر برائے تحفظ عالمی توانائی آموس ہوچسٹین (Amos Hochstein) نے بیروت کا دورہ کرکے صدر میشل عون کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی۔ ذرائع نے اعلان کیا کہ اس ملاقات میں بیروت میں مقیم امریکی سفیر ڈورتھی شیا (Dorothy Shea) بھی موجود تھی اور لبنان اور صہیونی ریاست کے درمیان بحری سرحدوں کا تعین اس ملاقات کا اصل مقصد تھا۔
کچھ مبصرین کا کہنا تھا کہ چونکہ یائیر لاپید عسکریت کی طرف زیادہ مائل نہیں ہے چنانچہ اس نے مذاکرات کا سہارا لے کر اس مسئلے کے حل کی کوشش کی؛ اور اسے البتہ یہ بھی معلوم تھا کہ چونکہ بحری سرحدوں کے تعین کا معاملہ بین الاقوامی اداروں تک بھی پہنچ چکا تھا لہذا اسے یقین تھا کہ اس معاملے میں غاصب ریاست کو ضرور شکست ہوگی؛ کیونکہ جنوبی لبنان کے تکنیکی-عسکری مذاکرات یے کے سابق لبنان مذاکرات کار بسام یاسین کے کہنے کے مطابق “اگر کوئی صہیونی یا لبنانی جہاز کاریش کے شمال یا جنوب میں لنگر انداز ہوجائے تو یہ عمل ایک جارحیت شمار ہوگا، کیونکہ یہاں واقع گیس فیلڈ فلسطین اور لبنان کی مشترکہ ملکیت ہے؛ چنانچہ لبنانی یا صہیونی فریقین کو یہاں سے گیس نکالنے کا حق حاصل نہیں ہے”۔
اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 6433 بھی قرار دیتی ہے کہ لبنان کی بحری سرحدیں غاصب ریاست اور لبنان کے فوجی نقشوں کے مطابق بارڈر لائن نمبر 29 ہے جس کے تحت کسی بھی جارح جہاز کا تعاقب لبنان کے لئے مجاز ہے۔
“سمجھوتہ”، صہیونیوں کے وزیر اعظم کی انتہائی خواہش
ابتدا ہی سے واضح تھا کہ یائیر لاپید لبنان کے ساتھ بحری اختلافات میں سیاسی فیصلہ کرنے کا خواہاں ہے، اور حزب اللہ کے ساتھ عسکری چپقلش کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ اس نے صہیونی حلقوں کی طرف سے شدید مخالفتوں اور تنقیدوں کے باوجود، سمجھوتے کے عمل کو آگے بڑھایا یہاں تک کہ 11 اکتوبر 2022ع کو اس نے لبنان کے ساتھ بحری اختلافات کے سلسلے میں امریکہ کے آخری منصوبے کو تسلیم کیا اور اس کو صہیونی ریاست کے لئے ایک تاریخی فتح قرار دیا! اور دعویٰ کیا کہ یہ سمجھوتہ اقتصادی اور سلامتی کے لحاظ سے یہودی ریاست کے تمام مقاصد کی تکمیل کرتا ہے!
آخرکار مورخہ 15 اکتوبر 2022ع کو لاپید نے اس سمجھوتے کی منظوری کے لئے [عبوری] ریاست کی عبوری کابینہ کا اجلاس بلایا اور صہیونیوں کی داخلی امور کی انتہاپسند صہیونی وزیر آیلیت شاکد (Ayelet Shaked) کے سوا، کابینہ کے دیگر ارکان نے سمجھوتے کے مسودے کو منظور کیا۔
اس کے باوجود کہ عبرانی-صہیونی ذرائع ابلاغ نے اس سمجھوتے کی دفعات اور شقوق کو شائع نہیں کیا ہے، لیکن قبل ازیں موساد کے سابق اہلکار اور غاصب ریاست کی اندرونی سلامتی کونسل کے سربراہ ایال حولاتا (Eyal Hulata) نے دعویٰ کیا تھا کہ “بحری سرحدوں کے تعین میں اسرائیل کے تمام مطالبات پورے ہوئے ہیں اور ہم لبنان کے ساتھ ایک تاریخی مفاہمت نامے پر دستخط کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں”۔ اس نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ “صہیونی ریاست کے بعض مطالبات میں تبدیلی یا نرمی کی گئی ہے”۔
مقاومت کی فوجی قوت، صہیونیوں کے خوف کا سبب اور تسدیدی عنصر
تزویراتی امور کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حزب اللہ لبنان کی فوجی قوت اور کاریش کے میدان میں کاروائی کے لئے اس تحریک کی طرف سے بھیجے جانے والے ڈرون طیاروں نے تل ابیب کو مقاومت کی عسکری قوت ثابت کرکے دکھا دی؛ چنانچہ صہیونیوں نے مہنگے پڑنے والی کھوکھلی نعرے بازی ترک کردی اور حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے لئے تیاری جیسی ڈینگیں مارنے سے پسپائی اختیار کی اور لبنان کی مرضی سے سمجھوتے کے مسودے میں لائی جانے والی تمام تبدیلیوں کو تسلیم کیا۔
اخبار رأی الیوم نے اس حوالے سے لکھا: “اس صورت حال نے صہیونی ریاست کی اندرونی صورت حال اور عدم استحکام سے جنم لیا ہے؛ یہ عدم استحکام تین سال قبل شروع ہؤا تھا، آج بھی جاری ہے اور طویل عرصے تک جاری رہے گا؛ مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل کرنے کے سلسلے میں صہیونیوں کی تمام تر کوششیں کمزور سے کمزورتر ہو چکی ہیں؛ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل کے مقررہ نشری تقریر سے چند ہی گھنٹے پہلے، صہیونی ریاست نے اپنی تمام تر سابقہ چالوں اور دھمکیوں وغیرہ سے پسپائی اختیار کی اور اعلان کیا کہ کاریش گیس فیلڈ سے گیس اور تیل نہیں نکالے گی؛ یعنی یہ کہ اس نے لبنان کے تمام تر مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک لئے ہیں”۔
لندن سے چھپنے والے اس اخبار نے حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کے درمیان ایک نئے تعامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تعامل اور یہ نیا قاعدہ، تنازعے کے قواعد کی تبدیلی، جدید نوعیت کی جنگوں کی طرف پیشرفت، اور طویل المدت جنگ کے آغاز کے لئے ضروری وسائل جمع کرنے پر استوار ہے، جس میں جدید ترین وسائل کو بروئے کار لائے جائے گا۔ حزب اللہ کے پاس اس نوعیت کی جنگ کے لئے تمام تر جدید وسائل موجود ہیں؛ صہیونی کابینہ کے اندر بھی یہی اندازے لگائے گئے تھے اور صہیونی تجزیہ کاروں کا بھی کہنا تھا کہ حزب اللہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی جھڑپ، چاہے وہ چند ہی گھنٹوں تک محدود کیوں نہ ہو، تل ابیب کے لئے ناقابل تصور نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہو گی”۔
پورا لبنان، حزب اللہ کے دوش بدوش
لبنانی صدارتی دفتر نے 11 اکتوبر کو ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا: “جنوب میں سمندری سرحدوں کی تعین کے سمجھوتے کے بارے میں امریکی ثالث اموس ہوچسٹین کی طرف سے پیش کردہ سرکاری، حتمی اور نظر ثانی شدہ نسخہ پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر الیاس بوصعب سے موصول ہؤا؛ “اس سمجھوتے کا حتمی نسخہ لبنان کے لئے تسلی بخش ہے، یہ لبنان کے مطالبات کو پورا کرتا ہے اور قدرتی دولت کے حوالے سے اس کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔”
صدر میشل عون نے بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا: “یہ سمجھوتہ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کی شراکت کے مترادف نہیں ہے کیونکہ لبنان اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر تسلیم نہیں کرتا اور اس کو سرکاری طور پر اپنا دشمن سمجھتا ہے”۔ لبنان کے وزیر توانائی ولید فیاض نے بھی سمجھوتے کے بارے میں کہا: “لبنان نے جو کچھ بھی چاہا ان بالواسطہ مذاکرات سے حاصل کیا اور “قانا” گیس فیلڈ لبنان کے لئے بہت زیادہ اقتصادی قدر کا حامل ہے”۔ حزب اللہ کی پولیٹیکل کونسل کے سربراہ سید ابراہیم امین السید نے اس فاتحانہ سمجھوتے کے بارے میں کہا: “اسرائیلیوں کو یقین ہے کہ اگر لبنان میں مقاومت (یعنی تحریک حزب اللہ) نہ ہوتی تو ہمارا ملک (لبنان) تیل کی دولت کا مالک نہیں بن سکتا تھا”۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کی رقیب جماعتیں بھی حزب اللہ کے موقف کو تسلیم کرتی تھیں چنانچہ انھوں نے سمجھوتے کے انجام کو پہنچنے تک اس جماعت کے ساتھ اختلاف نہیں کیا؛ یہاں تک کہ سوشلسٹ ترقی پسند جماعت کے سربراہ اور لبنان میں حزب اللہ کے اہم ترین مخالف سیاستدان ولید جنبلاط نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: “بحری سرحدوں کے تحفظ کے لئے میں کہنا چاہوں گا کہ یہ مسئلہ کسی مشکل یا کسی بھی جنگ کے بغیر “ڈرونز ڈپلومیسی” کے ذریعے حل ہؤا، جس کا میں نے [بھی] مشورہ دیا؛ اب قومی کمپنی کو اپنا کام شروع کرنا چاہئے تکہ لبنان بیرونی مداخلت اور اندرونی اختلافات کے بغیر اپنے [قدرتی] سرمایوں سے فائدہ اٹھائے”۔
صہیونیوں کے شکست قبول کرنے کا تاریخی واقعہ؛ صہیونیوں کے جماعتی اختلافات؛ لاپید پر شدید نکتہ چینیان
جس قدر کہ یہ قومی سمجھوتہ لبنان کے لئے اتحاد و یکجہتی کا باعث تھا، اتنا ہی صہیونیوں کے درمیان اختلاف و انتشار کا باعث بنا؛ کیونکہ تل ابیب کابینہ کے مخالفین اور عبرانی ذرائع ابلاغ نے یک صدا ہوکر عارضی ریاست کی کمزور عبوری حکومت کو وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ عارضی ریاست کے عبوری وزیر اعظم نے سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے کے مسودے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ “یہ سمجھوتہ حزب اللہ کے ساتھ لڑنے بھڑنے کے خطرے کو دور کرتا ہے اور اب اس کو مخالفین اور اپنے ہی ذرائع ابلاغ کی تنقید کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ سابق صہیونی وزیر اعظم اور صہیونی اپوزیشن راہنما بنیامین نیتن یاہو، ناقدین میں سر فہرست ہے جس نے کہا ہے: “لاپید کابینہ کمزور ہے اور لاپید نے حزب اللہ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں”۔ اخباری ویب گاہ آئی 24 نے ایک طرف تل ابیب اور بیروت کے درمیان سرحدوں کے تعین کے سمجھوتے، اور دوسری طرف سے مشرقی قدس میں تشدد آمیز جھڑپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نیتن یاہو نے جمعرات 13 اکتوبر کو ایک بیان جاری کرکے لاپید کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا اور اس سے مخاطب ہو کر کہا: “جب تم لبنان میں نصر اللہ کے آگے ہتھیار ڈالتے ہو، قدس میں بھی بغاوتیں بپا ہوتی ہیں”۔
اخبار معاریو نے بھی اسی سلسلے میں لکھا: “لاپید نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران تین اہم تزویراتی فیصلے کئے ہیں جن میں سیاسی دانشمندی کا فقدان ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ اس صورت حال نے اسرائیل کو الجھنوں میں ڈال دیا ہے اور یہ صورت حال ایک بےرحمانہ جنگ پر منتج ہو سکتی ہے، ایسی جنگ جس کا انتظام و انصرام لاپید کے لئے ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ وہ ایک فوجی شخص نہیں ہے۔ بلا شبہ لبنان کے ساتھ سمجھوتہ ایک ایسی تاریخی خطا ہے جو اسرائیل کو زد پذیری سے بچانے کے سلسلے میں لاپید کابینہ کی کمزوری اور ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے”۔
صہیونی اخبار ہاآرتص نے بھی اپنی رپورٹ کے ضمن میں لکھا: “ایک واضح حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کے سامنے ایک تسدیدی قوت ہے؛ نصراللہ کا بیان بہت محتاطانہ ہے؛ وہ کوئی چیز کا خاتمہ کرنے کے لئے عجلت سے کام نہیں لیتے، یہاں تک کہ متعلقہ مسئلہ اختتام کو پہنچے”۔
جعلی ریاست کے ایک ریزرو فوجی افسر بریگیڈیئر جنرل ریزرو امیر آویوی (Amir Avivi) – جو حال حاضر میں اسرائیلی سلامتی فورم کا سربراہ بھی ہے – بھی لبنان کے ساتھ آبی سرحدوں کے مخالفین کی صف میں شامل ہؤا اور اس سلسلے میں تل ابیب کی طرف کی رضامندی کو کمزوری، عاجزی اور شکست سے تعبیر کرتے ہوئے کہا: “حزب اللہ نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اس پر قابو پا لیا ہے۔ ہم یہاں ایک خطرناک تاریخی واقعے کو واضح طور پر دیکھ رہے ہیں، جس میں حزب اللہ ہمیں دھمکی دیتی ہے اور دوسری طرف سے ہم اس موقف کو تیزرفتاری کے ساتھ واپس لیتے ہیں جو ہم نے لبنان کے انتخابات سے قبل اخذ کیا تھا”۔
ادھر جعلی ریاست کی پارلیمان (کنیسٹ) کے رکن اسرائیل کاٹز (Israel Katz) نے وائی نیٹ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے لاپید پر تنقید کرتے ہوئے کہا: “جو کچھ لبنان کے ساتھ مفاہمت کی شکل میں وقوع پذیر ہو رہا ہے، نصر اللہ کے مقابلے میں اسرائیل کی کمزوری کی عکاسی کر رہا ہے”۔
واضح رہے کہ تل ابیب اور بیروت کے درمیان سمجھوتے کے انعقاد سے قبل، عبرانی ذرائع ابلاغ نے اس کو مورد تنقید قرار دیتے ہوئے صہیونی افواج کے خلاف حزب اللہ کے ڈرون طیاروں کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔ ان ذرائع نے صہیونیوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا: “حزب اللہ اپنے ڈرون طیاروں کو اسرائیلی فوج کے مقابلے میں تعینات کرے گی اور انہیں استعمال میں لائے گی، جیسا کہ روسی یوکرین میں بھی یہی کچھ کر رہے ہیں”۔
فرمان الٰہی:
وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ (سورہ آل عمران – 119)
اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غیظ اور کینے کے مارے آپ پر انگلیاں چبا ڈالتے ہیں۔ تو فرما دیجئے! کہ اپنے غصے میں مرجاؤ”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مترجم: ابو فروہ مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں