یہودی بھنئے؛

ملٹن فریڈمان اور نیولبرل آمریت

نو لبرل معیشت ایک قسم کی نو لبرل سیاسی آمریت کی معاشی بنیاد ہے، جو آزادی کے نعرے کے پیچھے چھپ کر رہتی ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: نو لبرل معیشت ایک قسم کی نو لبرل سیاسی آمریت کی معاشی بنیاد ہے، جو آزادی کے نعرے کے پیچھے چھپ کر رہتی ہے۔
ملٹن کا فریڈمان کا مختصر تعارف
ملٹن فریڈمان (Milton Friedman) امریکی ماہر اقتصادیات تھے جنہیں 1976ع‍ میں اقتصادی سائنس کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ ملٹن فریڈمان نئولبرلزم کے نظریہ سازوں میں سے ہیں اور ایک جدید مانیٹرزم یا شکاگو مانیٹرزم نامی اقتصادی دھارے کے سرکردہ فرد اور کتاب “ریاستہائے متحدہ کی مالیاتی تاریخ، 1867 تا 1960″ (A Monetary History of the United States, 1867–1960) کے شریک مصنف ہيں۔
فریڈمان کا گھرانہ انیسویں صدی ميں امریکہ نقل مکانی کے بعد بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی برسوں میں انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا اور فریڈمان سنہ 1912ع‍ میں، بروکلن نیویارک میں پیدا ہوئے۔
وہ بچپن میں ہی باپ کے سائے سے محروم ہوئے اور ان کی ماں نے بہت مشکل سے اپنے چار بچوں کا پیٹ پالنے اور تعلیم دلانے کے اخراجات برداشت کئے۔ انہیں تعلیم کے ایام میں ریستوران کے بیرے، دکان کے معاون اور اس طرح کے پیشے بھی اختیار کئے۔
عجب یہ کہ فریڈمان نے غربت اور ناداری اور سرمایہ دارانہ نظام کے ظالمانہ استحصال سے جنم لینے والی نا انصافیوں کی تلخیاں چکھنے کے باوجود، معاشیات کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے استکباری اور ظالمانہ سرمایہ داری کی خدمت میں مصروف ہوئے اور ایک خادم نظریہ ساز اور نیولبرل استکبار کے سپاہی بن گئے۔
فریڈمان شکاگو یونیورسٹی میں جیکب ونر (Jacob Viner)، ہنری شولتز (Henry Schultz)، ہنری سائمنز (Henry Simons) اور فرانک نائٹ ( Frank Knight) سے متاثر ہوکر مکمل طور پر لبرلزم کے قابو میں آگئے اور اس کے گرویدہ ہو گئے۔
فریڈمان اپنے زیادہ تر یہودی اسلاف کی طرح اقتصادی مسائل سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے سنہ 1946ع‍ میں معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی اور سنہ 1953ع‍ میں اثباتی معاشیات کا طریقۂ کار (The Methodology of Positive Economics) کے نام سے اپنے مضامین کا مجموعہ شائع کیا؛ اور شکاگو یونیورسٹی میں، رفتہ رفتہ آزاد منڈی کی وکالت اور سیکولر سرمایہ داری کے معاشی نظریئے کے لیڈر بن گئے۔
ملٹن فریڈمان کی نظری اور عملی کارکردگی استکباری تسلط پسندی کی خدمت گزاری اور استبدادیت اور انصاف پسندانہ تحریکوں کے ساتھ دشمنی کے سیاہ دھبوں سے بھرپور ہے۔
ملٹن فریڈمان نے کلی معاشیات (Macroeconomics) اور جزئی معاشیات (Microeconomics) اور اعداد و شمار کے حوالے سے جدید نظریات میں اہم کردار ادا کیا اور منڈی کی معیشت (Market economy) نیز طبقاتی امتیاز کے زبردست حامی تھے۔
فریڈمان اپنی سیاسی زندگی میں ریپلکن پارٹی اور امریکی قدامت پسندوں کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ 1975ع‍ میں چلی میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لئے چلے گئے۔ اور چلی کے اقتصاددانوں کے گروپ ” شکاگو بوائز” کے پروگراموں کے لئے ماحول سازی کی۔
ملٹن فریڈمان نے آمر جنرل آگسٹو پنوشے (Augusto Pinochet) اور اس کی فوجی حکومت کے اعلیٰ حکام سے بات چیت کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ نے کچھ ہی عرصہ قبل اپنے حمایت یافتہ غدار جرنیل اگسٹو پینوشے کے ذریعے خونریز فوجی بغاوت کروا کر سلواڈور آلندے (Salvador Allende) کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ فریڈمان کی ملاقات، چلی کے دانشوروں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں کی ناراضگی کا سبب بنی۔
انھوں نے – دنیا میں کروڑوں انسانوں کی بربادی کا سبب بننے والی تباہ کن نولبرل پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے – شاک ڈاکٹرائن (Shock doctrine) نامی نظریہ پیش کیا۔
شاک ڈاکٹرائن کے نفاذ کی صورت میں ایک معاشرہ اس قدر انفعالیت اور بے بسی سے دوچار ہوجاتا ہے کہ نولبرل پالیسیوں کے تباہ کن معاشی دباؤ کے تحت مزاحمت کی قوت کو کھو دیتا ہے اور اس کے تمام تر ڈھانچے شکست و ریخت سے دوچار ہوجاتے ہیں، اور یہ پٹا ہؤا معاشرہ نولبرل معیشت دانوں کے منظور نظر تبدیلیوں کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے۔ [کسی ملک کو مغرب کے سامنے جھکانے کے لئے، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی پالیسیاں، اس ڈاکٹرائن کا مصداق ہیں]۔
ملٹن فریڈمان کے فکری منظومے کے مطابق “آزادی کے لبرل تصور کا تحفظ” ہے۔ ان کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ اگر لبرل نوعیت کی آزادی کے نتیجے میں سماجی اور اقتصادی ناانصافیوں کو فروغ ملے، اور عوام کی اکثریت غربت اور افلاس سے دوچار ہوجائے (جیسا کہ لبرل مغربی نظام کے تسلط کے آغاز سے ہی دنیا کا حال وہی ہے جو فریڈمان جیسوں نے چاہا ہے)۔
فریڈمان کے نزدیک لبرل نوعیت کی آزادی کو ہر قیمت پر نافذ اور محفوظ رہنا چاہئے؛ جبکہ اس قسم کی آزادی درحقیقت نفس امارہ کی آزادی (یعنی جدید انسان کی نفسانی آزادی) ہے جو منافع پرستی کی بنیاد پر ناجائز اور مادر پدر آزاد سیکولر انسانیت پرستی (Secular Humanism)، غیر مشروع اور لامحدود لذت پرستی اور زیادہ روی کا پیش خیمہ ہے۔
جدید سرمایہ داری کا ڈھانچہ کچھ اس طرح سے ہے کہ جس کے تحت صرف سرمایہ دار طبقہ لبرل آزادی سے بہرہ ور ہوتا ہے، کیونکہ لبرلزم اور نولبرلزم در حقیقت ایک سرمایہ دارانہ نظریہ اور بڑے جدید اور سیکولر سرمایہ داروں کے عظیم تر مفادات کا محافظ ہے اور فریڈمان درحقیقت ایک نولبرل شخص اور بڑے سرمایہ داروں کے ترجمان اور محافظ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تاریخی تجربے سے ثابت ہؤا ہے کہ نولبرل معیشت کے تسلط، – یا اصطلاحاَ اس کی مطلوبہ معاشی آزادیاں – آمرترین اور مطلق العنان ترین حکومتوں کے ساتھ عرصۂ دراز متحد ہو سکتی ہیں۔
علاوہ ازیں، نولبرل معیشتیں انجمنوں اور یونینوں جیسے اداروں کو تباہ اور سماجی-معاشی سرگرمیوں کی بربادی کے بعد ہی اقتدار تک پہنچی ہیں اور ان معیشتوں نے عملی طور پر – حتیٰ کہ بعض سماجی جمہوری لبرلزم کی کھوکھلی مگر گمراہ کن صورتوں تک کو نیست و نابود کرکے، بڑے سرمایہ داروں (Macro-capitalists) کی ننگی اور بے رحم مطلق العنانیت نافذ کیا ہے۔
چنانچہ درست یہی ہے کہ ہم نو لبرل معیشت کو، ایک قسم کی نو لبرل سیاسی آمریت کی معاشی بنیاد قرار دیں، جو آزادی کے نعرے کے پیچھے چھپ کر رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر شہریار زرشناس