کتاب "جاسوس بازی 2" سے اقتباس؛

سید حسن نصر اللہ اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹر کو کھڑکی سے دیکھتے رہے

کتاب "جاسوس بازی 2" میں لکھا ہے: ہیلی کاپٹر شوریٰ کی عمارت کے سامنے پہنچا، سب کا خیال تھا کہ اس کا نشانہ سید حسن نصر اللہ کا دفتر ہی ہے، اتفاق سے سید بھی عمارت کے اندر کھڑکی کے پیچھے کھڑے ہو کر ہیلی کاپٹر پر نظر گاڑھے ہوئے تھے، جو راکٹ چلانے کے لئے تیار تھا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کتاب “جاسوس بازی 2” ان افراد کی جاسوسی کے حقیقی رودادوں کا مجموعہ ہے، جو اپنا مقصد حاصل کرنے کی راہ میں معمولی سی معلومات کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ کتاب شہید کاظمی اشاعتی ادارے نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب حقیقی مگر مختصر قصوں کا مجموعہ ہے۔ ان ہی مختصر قصوں میں سے ایک حسب ذیل ہے:
“موسم گرما سنہ 2006ع‍ سے قبل تک، جب 33 روزہ جنگ لڑی گئی، حزب اللہ پورے لبنان میں علی الاعلان سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہی تھی۔ ہر علاقے میں ایک جانی پہچانی عمارت تھی جن میں سے بعض پر بورڈ بھی نصب کئے گئے تھے اور معلوم تھا کہ یہاں گویا حزب اللہ کے شعبہ نشر و تبلیغ کا دفتر ہے۔
دارالحکومت بیروت کے جنوب میں ضاحیہ کا شیعہ علاقہ ہے؛ یہاں شارع الغُبَیری میں ایک “ساحۃ الشوریٰ” نامی چوراہا ہے۔ یہ چوراہا اپنے وسط میں ایک پرانے تناور درخت کے لئے مشہور ہے۔ چوراہے کے ایک گوشے میں ایک بارہ منزلہ عمارت تھی جس میں حزب اللہ لبنان کی انتظامی کونسل کا دفتر واقع تھا۔ حزب اللہ کے تمام شعبوں کے دفاتر اسی عمارت میں تھے اور سید حسن نصراللہ کا دفتر بھی اس کی چھٹی منزل میں واقع تھا۔
شوریٰ کی عمارت کے بالکل سامنے ایک اپارٹمنٹ تھا جس کی دوسری منزل میں شہید عماد مغنیہ کا دفتر سلامتی سے متعلق امور کا مرکز واقع تھا۔
مارچ 1997ع‍ سے قبل حزب اللہ اور جعلی اسرائیلی ریاست کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیلی ہیلی کاپٹر معمول کے مطابق، بیروت کے ساحلوں کے قریب تعینات صہیونی بحری جہازوں سے اڑ کر بڑی آسانی سے بیروت میں داخل ہوکر، اس شہر پر راکٹ برسانے لگے۔
ایک آپاچی ہیلی کاپٹر ایک بہت اہم مرکز کو نشانہ بنانے کی غرض سے اسرائیلی جہاز کے عرشے سے اڑا اور انتہائی کم بلندی پر پرواز کرتا ہؤا شہر میں داخل ہؤا۔ بیروت کے اتنی کم بلندی پر پرواز کرتا ہؤا ہیلی کاپٹر دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور اس کا نشانہ کیا یا کون ہے؟
ہیلی کاپٹر شوریٰ کے دفتر کے بالکل سامنے پہنچا، لوگوں کا خیال تھا کہ اس کا نشانہ سید حسن کا دفتر ہے۔ اتفاق سے سید بھی کھڑکی کے اندر سے ہیلی کاپٹر کو دیکھ رہے تھے جو راکٹ چلانے کے لئے تیار تھا۔
صہیونی ہیلی کاپٹر نے اچانک گائیڈڈ راکٹ چلایا۔ راکٹ جاکر سامنے والی عمارت کی دوسری منزل میں عماد مغنیہ کے دفتر پر لگا۔
راکٹ فائر ہونے سے ٹھیک دو منٹ پہلے عمارت خالی کر لی گئی تھی۔ صہیونی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ سید حسن نصر اللہ سامنے والی عمارت کی چھٹی منزل میں کھڑکی سے ان کے ہیلی کاپٹر کو دیکھ رہے ہیں، چنانچہ ہیلی کاپٹر نے مڑ کر واپس چلا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ عماد مغنیہ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر چکے ہیں، چنانچہ پلٹ کر چلے گئے۔ اس عمارت میں ایک معمر باورچی شہید ہؤا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔