صیہونی رژیم دراصل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور اسے اپنی بقا کو خطرہ محسوس ہوا ہے۔ یہ خطرہ شہید قاسم سلیمانی کی میدانوں میں اتحاد پر مبنی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ اسلامی مزاحمتی بلاک کو شدید ضربیں لگی ہیں لیکن اس کا وجود باقی ہے اور وہ بدستور زندہ اور بیدار ہے۔ اسی حقیقت نے امریکی اور غاصب صیہونی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔
کسی نے جولانی سے اس بات کو نقل کیا ہے کہ اس کے صیہونی حکومت کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں، لیکن بعض اوقات یہ بھی کہا گیا ہے کہ شام کی جولانی حکومت کو اسرائیلی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، یا ہم اسرائیل کے ساتھ جنگ نہیں کرنا چاہتے۔
جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی بابرکت زندگی کے دوران ایک ایسی میراث چھوڑی جو دنیا کی اقوام کے لیے ایک قطبی عالمی نظام کی تبدیلی کے سفر میں مشعلِ راہ بن گئی۔
اگر اقوام متحدہ کو اس غیر مؤثر حالت سے نکال کر دوبارہ فعال اور مؤثر بنانا ہے، تو پہلا قدم ویٹو کے اس فرسودہ اور جمہوریت مخالف حق کو ختم کرنا ہوگا۔
اگر اس نئے سال کی آمد پر ہلڑ ہنگاموں اور تفریح کے پروگراموں آتش بازیوں سے وقت نکال کر ہم ایسی گفتگو کا اہتمام کر سکیں جس میں، مسلمان اور عیسائی دونوں ہی مکاتب فکر کے افراد جناب عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات پر روشنی ڈالیں اور اس بات پر اظہار خیال ہو کہ جناب عیسیی علیہ السلام نے کس مقصد کے تحت زندگی گزاری اور ہم کیونکر انکے مقاصد کی آبیاری کر سکتے ہیں
اس وقت کچھ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ھیئت تحریر الشام اسرائیل کے غاصبانہ قبضے پر ردعمل ظاہر کرتے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ واضح ہو گیا کہ اس تکفیری دہشت گرد گروہ کا سربراہ خود بھی اس صیہونی کھیل کا حصہ ہے اور شام میں اس کے مہرے کے طور پر سرگرم عمل ہے۔
الیکٹرونک جریدے رائے الیوم نے خالد الجیوسی کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں شام کے داخلی مسائل، دیگر ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات اور مستقبل کے چیلنجوں کے تناظر میں صورتحال کا تجزیہ کیا گیا ہے۔
گزشتہ 14 ماہ سے بھی زائد عرصے سےجب عرب اور اسلامی ممالک غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے مظالم پر خاموشی اور بے اعتنائی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں، آئرلینڈ کے تنقیدی موقف نے اسرائیل کو مجبور کر دیا کہ وہ اس ملک میں اپنا سفارت خانہ بند کر دے
ابوغریب، گوانتانامو اور کمپ بوکا، عراق میں امریکہ کی قائم کردہ جیلیں، ابوبکر البغدادی اور ابومحمد الج جبولانی کے لیے خوفناک مقامات نہ تھیں، بلکہ یہ ایک سنہرا موقع تھا جس نے داعش اور بعد میں تحریر الشام جیسے گروہوں کے قیام کی راہ ہموار کی