ایک عالمی تحقیقی مرکز نے اس بات کا انکشاف کرتے ہوئے انتباہ دیا ہے کہ اسرائیل شام میں طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھا کر اس کی عسکری قوت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اب، جبکہ اسد کے جانے کے بعد بعث پارٹی کا معاملہ ختم ہو گیا ہے، مزاحمت کا اصل مقصد باقی ہے، یعنی حرم کا دفاع اور صیہونی غاصبوں کے خلاف جنگ اور یہ جنگ جاری رہے گی
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے چار دن پہلے، انہوں نے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت فوجیوں کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود فوج سے سپاہیوں کا فرار جاری رہا اور نتیجہ سقوط دمشق کی صورت سامنے آیا۔
اردگان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو جوا انہوں نے شروع کیا ہے، جس نے آج شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہ مستقبل قریب میں ان کی حکومت کے لیے وہی انجام لے کر آ سکتا ہے جو بشار الاسد کے لیے سوچا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ حالیہ دنوں میں حملوں کے دوران جنگی طیاروں ہیلی کاپٹر، اسکڈ میزائل، کروز میزائلوں، ساحل سے سمندر میں مار کرنے والے میزائلز، راڈار، اور دیگر ہتھیاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیل نے یکطرفہ طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جبل الشیخ اور اس کے ارد گرد کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیلی حکمت عملی کے مطابق، جو بھی اس پہاڑ پر قابض ہوگا، وہ پورے خطے پر کنٹرول رکھے گا۔
ترکی کا معاشرہ، گذشتہ چند عشروں اور خاص طور پر گذشتہ چند سالوں میں لادینیت اور اسلام، روایت اور جدیدیت نیز سیکولر اسلام اور حقیقی اسلام کے درمیان ٹکراو کا مرکز بن چکا ہے۔ ترکی کے سماجی اور سیاسی شعبوں میں اس ٹکراو کے جنم لینے کے نتیجے میں یہ ملک پینڈولم والی حالت اختیار کر چکا ہے۔
فاران تجزیاتی خبرنامہ: بشار الاسد کا سقوط اور دہشت گرد گروہوں کا شام پر قبضہ وسیع نتائج کا حامل ہے، جن میں شدت پسندی کا فروغ، غیر ملکی جنگجوؤں کی واپسی، اور خطے میں بڑھتے ہوئے سیکورٹی و امن و سلامتی سے متعلق خطرات شامل ہیں۔ مہر نیوز ایجنسی کے بین الاقوامی شعبہ کی رپورٹ کے […]
شام کی سرزمین، اس ملک کی فوج کے 11 دن میں ہتھیار ڈالنے کے بعد دہشت گردوں اور اسرائیل کے نسل پرست حکومت کے قبضے میں چلی گئی اور اس کے فوجی ڈھانچے کو بھی صرف 3 دن میں تباہ کر دیا گیا۔