حالیہ واقعات اور لبنان کے حالات کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ حزب اللہ کی کارروائیوں میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا اور شدت بھی۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ غاصب اسرائیل معصوم شہریوں کو زخمی کرنے اور نقصان پہنچا کر اپنے ناپاک عزائم کا حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت کے باوجود اس حکومت نے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
مختصر یہ کہ حوثی مجاہدین کی جانب سے اس شاندار اور فخرآمیز فوجی کاروائی نے صیہونی رژیم کی کمزوری عیاں کر دی ہے اور اب صیہونی رژیم شدید اسٹریٹجک، علاقائی اور جنگی ڈیڈلاک کا شکار ہو چکی ہے۔
یو ایس ایس رسل" ایک اور تباہ کن تھا، جو اب خطے سے نکل کر بحیرہ جنوبی چین میں داخل ہوا ہے۔ اس صورتحال میں اب صرف طیارہ بردار بحری جہاز USS ابراہم لنکن باقی رہ گیا ہے، جو خلیج عمان میں تعینات ہے۔
یقیناً اس نئے عالمی نظام میں صیہونی رژیم، اس کے مغربی حامیوں اور اس سے سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کی حقیقی ہار اور شکست ہو گی۔ یہ حقیقت ہر زمانے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔
آج فلسطینی حریت اور آزادی کا مظہر بن گئے ہیں جبکہ اسرائیل ایک قابض قوت جانی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں اس تبدیلی کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیں گے۔
درحقیقت امریکہ کی جانب سے مرعوب کرنے والی سفارتکاری اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں بے اثر ہو چکی ہے۔ پیسفک سمندر امریکہ کیلئے اسٹریٹجک اور سکیورٹی کے لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے۔
امریکہ نے اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا استعمال نہیں کیا۔ دریں اثنا، غزہ جنگ میں جنگ بندی کے لیے قطر اور مصر کے ساتھ ساتھ امریکہ کو اس ثالثی گروپ کا تیسرا رکن سمجھا جاتا ہے۔
عرب ممالک کے بعض حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ وہ امن معاہدے کرکے صہیونیوں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ صیہونی "نیل سے فرات تک" کے ہدف کے حصول کی تلاش میں ہیں اور نیتن یاہو کو امید ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آجائیں گے تو صیہونی حکومت اپنے منصوبے کے اگلے مرحلے میں پڑوسی ممالک کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔