گذشتہ کچھ عرصے سے اسرائیل لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ دھکمیاں کس مقصد کیلئے انجام پا رہی ہیں اور اسرائیل کس حد تک سنجیدہ ہے، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع ہونے سے شدید خوفزدہ ہے
غزہ کے حامی امریکی طلبہ کے نام امام خامنہ ای کے خط کا ابلاغیاتی مقاطعہ خود بخود مغربی تہذیب کی ابلاغیاتی کمپنیوں ـ خاص طور پر امریکی ذرائع ابلاغ ـ کے بہت سارے حقائق کو عیاں کرتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ نے امریکہ اور مغربی حکومتوں کے ان تمام ناپاک عزائم اور منصوبوں کو خاک میں ملا کررکھ دیا ہے جو ایشیائی ممالک بالخصوص ایشیاء میں مسلمان ممالک کے خلاف تیار کئے گئے تھے۔فلسطینیوں نے عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک نیا نقش چھوڑ دیا ہے جسے آج آٹھ ماہ گزر جانے کے باجود مغربی دنیا کی حکومتیں مٹانے سے قاصر ہیں۔
اس مزاحمت نے مشرق وسطی کے امریکی ورلڈ آڈر کو برباد کردیا ہے۔ اب ایک نیا اور زمین زادوں کا خطہ ابھرے گا۔ اس جنگ نے دنیا کی سیاسی اور سماجی اقدار کو بھی بے نقاب کیا ہے، اس سے پتہ چلا ہے کہ عام آدمی ظلم و جبر کو برداشت نہیں کرتا وہ اس کے خلاف ہوتا ہے، یہ حکمران ہوتے ہیں جو مفادات کے اسیر بن کر بے گناہوں کا قتل عام کرتے ہیں۔
صیہونی حکمرانوں نے غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت کے بعد اعلان کیا کہ وہ تین اہم اور بنیادی اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہیں: الف) حماس کا مکمل خاتمہ، ب) غزہ پر فوجی قبضہ اور ج) جنگ بندی کے بغیر اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی۔ لیکن اب تک وہ ان میں سے ایک مقصد بھی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔
ایران کے حوالے سے بائیڈن کے حالیہ موقف کا سب سے بنیادی اور واضح پیغام ایران کی قابل ذکر طاقت کا اعتراف ہے۔ برسوں سے صیہونی یہ فرسودہ بیانیہ دنیا کو بیچ رہے ہیں کہ وہ مضبوط ترین فوجی اور انٹیلی جنس اداروں اور جدید ترین آلات سے مسلح ہیں۔ تاہم آپریشن وعدہ صادق کے حوالے سے بائیڈن کا حالیہ اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح کے دعوے کس قدر بے بنیاد ہیں۔
امریکہ، جرج ڈبلیو بش کے دوران صدارت سے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے ایک "روڈ میپ" پیش کرتا آیا ہے جو دو، یہودی اور فلسطینی، خودمختار ریاستوں کی تشکیل پر مبنی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہر امریکی صدر نے، ریپبلکن پارٹی یا ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہونے کے ناطے اس بارے میں مختلف پالیسی اپنائی ہے۔
امام خمینی ؒ کی فکر جہاں مزاحمتی تحریکوں کی طاقت کا باعث بن رہی ہے، وہاں عوامی بیداری میں بھی امام خمینی ؒ کی وہی فکر کارفرما ہے، جو انہوں نے ہمیشہ بیان کی اور اس پر عمل کیا۔ لہذا یہ کہنا درست ہے کہ امام خمینی ؒ ایک ایسی عظیم ہستی ہیں کہ جنہوں نے فلسطینی مزاحمت کو پیدا کیا، زندہ کیا اور جلا بخشی۔
آج کل رفح میں یہی سب کچھ تو ہو رہا ہے، مگر اس سب پر ہم سب مل کر فقط آنسو بہانے میں مصروف ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ میزائلز کی زبان ہے، وہ زبان طاقت کی زبان ہے، وہ زبان جو ایران نے اسے دکھائی ہے، وہ زبان جو لبنان نے مزاحمت سے اسے سمجھائی ہے، وہ زبان جو اہل یمن اسے دکھا رہے ہیں۔