گذشتہ چند عشروں کے دوران اسرائیلی حکمرانوں سے متعدد ملاقاتوں اور اسرائیل کی جانب سے منعقدہ ٹیکنالوجی کانفرنسز میں اس کی شرکت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی عالمی صیہونزم کے حامیوں پر مشتمل وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہے۔
عالمی برادری بالخصوص عرب اور اسلامی ممالک نے غزہ کے بحران پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہ خاموشی نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ خاموش رہنے والا صہیونیوں کے جرائم میں بھی شریک ہے۔
صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، خاص طور پر نوجوان نسل کو نشانہ بنانے کے باعث، غزہ کی پٹی میں آبادی کی ساخت میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، جو آنے والے برسوں تک جاری رہیں گی۔
ایک بار پھر ہم ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ میں ایک ساتھ جمع ہو کر قدس کے لئیے آواز بلند کرنے کے لئیے آمادہ ہیں ۔
اگرچہ امریکہ کی فوجی طاقت کا یمن سے موازنہ ممکن نہیں، لیکن اگر ٹرمپ نے یمن میں جنگ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تو یہ امریکیوں کے لیے ایک نیا ویتنام ثابت ہو سکتا ہے۔
اردوغان، جو طوفان الاقصی کے بعد غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی جنگ سے فائدہ اٹھا کر شام میں "اسد" حکومت کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا، اب خود کسی نہ کسی طرح اس طوفان کے پس لرزوں کی زد میں آ چکا ہے۔
شام میں اس نئی سیکیورٹی فورس میں شامل دہشت گرد، جو 20 مختلف قومیتوں سے تعلق رکھتے ہیں، الجولانی حکومت کے لیے سیکیورٹی بازو بن چکے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں خطے میں دو انتہائی اہم پیش رفتیں دیکھنے میں آئیں، جو دونوں مزاحمتی محور سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ پیش رفتیں نہ صرف موجودہ حالات بلکہ خطے کے مستقبل پر بھی اس کے اثر و رسوخ اور پائیداری کو ثابت کرتی ہیں۔
بعض بین الاقوامی ذرائع ابلاغ، جو شام میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اس ملک کے لیے ایک آزاد اور خوشحال مستقبل کی تصویر کشی کر رہے تھے، اب محمد الجولانی کے عسکریت پسندوں کے جرائم کی داستانیں بیان کر رہے ہیں۔