سنہ 2010ع میں، بائیڈن ـ جو ایک تجربہ کار شخص تھا ـ جان گیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے بارے میں غیر محسوس مقابلہ، میز پر مکا مارنے سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس نے اسرائیل کا دوستانہ دورہ کیا اور اس کا منہ اس وقت کھلا کا کھلا رہ گیا جب اسے معلوم ہؤا کہ بنیامین نیتن یاہو نے مشرقی قدس میں نئے تعمیراتی منصوبوں کا وعدہ دیا ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کا اہتمام کیا۔
اے عزیز جوانو! مجھے امید ہے کہ آپ جھوٹ سے آلودہ اس ذہنیت کو بدلیں گے۔۔۔ میرا آپ جوانوں سے تقاضا ہے کہ آپ مسائل کی درست شناخت اور معاملات میں تحقیق و غور و خوض نیز ماضی کے تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمِ اسلام کے ساتھ عزت و وقار اور درست باہمی اشتراک کی بنیاد رکھنے کی تیاری کریں۔۔۔۔
فاران: ایسے وقت جب غاصب صیہونی رژیم بدستور مذاکرات میں واپسی کے دعوے کر رہی ہے اور گذشتہ روز عبری ذرائع ابلاغ بھی اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق اپنی نئی تجاویز ثالثی کرنے والے ممالک مصر اور قطر کے سپرد کر دی ہیں، فلسطین میں […]
درحقیقت صیہونی حکومت غزہ کے مختلف علاقوں پر بمباری اور گولہ باری کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں نسل کشی کو تیز کرنے کے لیے فاقہ کشی کا ہتھیار بھی استعمال کر رہی ہے اور اس علاقے میں خوراک اور ادویات کی ترسیل کو روک رہی ہے۔
اسرائیلی افواج انسانیت سے نکل چکی ہیں، رات کی اسرائیلی بمباری میں بھی دسیوں فلسطینیوں بچے اور خواتین شہید ہوگئی ہیں۔ یہ خواتین اور بچے اسرائیل کی طرف سے محفوظ قرار دیئے گئے علاقے میں اقوام متحدہ کے دیئے گئے خیموں میں رہ رہے تھے۔ یہ اسرائیل کی شکست خوردگی ہے۔
حالیہ دنوں میں بھی ایران کو مغربی حکومتوں کی جانب سے ایسے ہی منفی اور اوچھے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے، لیکن اس مرتبہ تو شہداء کے جنازوں میں عوام نے بہت بڑی تعداد میں شریک ہو کر مغربی دنیا کے تمام ناپاک عزائم کو پہلے ہی مرحلہ میں خاک میں ملا دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے زیادہ تر رکن ممالک کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبہ کے باوجود اسرائیل کی جارحیت مسلسل جاری ہے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ خود اقوام متحدہ کا کہنا یہ ہے کہ’’ انکے پاس غزہ کے تقریباً 20 لاکھ لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے خیمے اور خوراک ختم ہو چکے ہیں ، جبکہ یہاں کے رہایشیوں کی اکثریت اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکی ہے اور قحط کو روکنے کے لیے امداد پر انحصار کرتی ہے۔۔۔
ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ پتے کی بات یہ ہے کہ آیۃ اللہ رئیسی نے آذری عوام کی بات کی، حکومت کی بات نہیں کی، کیونکہ حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھتی ہے۔
حالات کی اس پیچیدگی نے عملاً ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ اسرائیل کو اس دگرگوں صورت حال سے بچانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ آج اسرائیل کا یہ حال ہے کہ اس نے ان تمام 76 سالوں میں اس طرح کی صورتحال کا کوئی تجربہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ نکبہ کا جشن منانے کے بجائے نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف زبردست مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔