ایران کے حملے کے دوران میزائلوں سے نشانہ بننے والے ایئربیس پر خوف اور تشویش کا راج رہا۔ ہزاروں فوجی بنکروں میں گھس گئے۔ بی بی سی فارسی کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے ایرانی میزائلوں کو روکنے یا مار گرانے کے دعوے میں خود کو فاتح قرار دیا، لیکن متعدد معاملات میں اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ایرانی میزائلوں کو روکنے سے ناکام رہا ہے۔
آج یہودیوں کے بے شمار جرائم کے باعث یہودیوں کا مسئلہ ایک بار پھر منظرعام پر آ چکا ہے لیکن اس بار وہ مظلومیت کی علامت نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مظلوم نمائی کا بھانڈا پھوٹ رہا ہے اور ان کا جھوٹ، منافقت اور فریب کھلتا جا رہا ہے۔ جی ہاں، یہودیوں نے اقتصادی، فکری اور ثقافتی سامراجیت کے ذریعے انسانیت کو تباہ کر ڈالا ہے اور یہ صرف مسئلہ فلسطین تک محدود نہیں ہے۔
امریکہ اسرائیل کو ہر سال تقریباً 500 ملین ڈالر مشترکہ میزائل دفاعی نظام کے لیے امداد دیتا ہے۔ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی امداد اس کے علاوہ ہے۔امریکہ کی اس حمایت نے صیہونی حکومت کی توسیع پسندی اور من مانی میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اہم عنصر اس امر کا باعث رہا ہے کہ صیہونی حکومت نے دو ریاستی حل کو تسلیم نہ کرنے اور مشرق وسطیٰ کے بحران کو طول دینے جیسے اقدامات انجام دیئے ہیں۔
ایران اسرائیل کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی اسرائیل کو ہزیمت ہی اٹھانا پڑی ہے، جبکہ اب امریکہ سمیت صیہونی ریاست کے تمام سرپرست اسے دوبارہ ایران پر حملہ نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ میں عالمی برادری سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل اور اس کی حواری سامراجی قوتیں ہوش کے ناخن لیں۔ ایران کے ردعمل کے جواب میں مزید کوئی کارروائی نہ کریں۔ اگر پہلے والی حماقت دہرائی گئی تو اس کا ازالہ اور نقصان ناقابل برداشت ہوسکتا ہے۔
فلسطین کا فتنہ وہ آتش فشاں ہے، جو آج پھٹ چکا ہے اور اس کے بطن سے ”طوفان اقصیٰ“ جیسے طوفان جنم لے چکے ہیں۔
امریکی تجزیہ نگاروں نے بھی ایران کی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسرائیل کے لئے ایک بڑی مشکل اور شکست سے تشبیہ دیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں تجزیہ نگاروں کی جانب سے ہونے والی گفتگو میں کہا گیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کی نواتیم ایئر بیس کو کامیابی سے نشانہ بنا کر نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کو بھی پیغام دیا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ مہم جوئی کی جائے گی تو ایران تمام حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ میں عام شہریوں کے قتل عام کا مقصد غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف اکسا کر اس پر دباو ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ صیہونی فوج مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہر حملے سے پہلے اچھی طرح جان سکتی ہے کہ اس میں کس تعداد میں عام شہری مارے جائیں گے۔
اسرائیل کےخلاف جنگ ایک طویل جنگ ہے، یہ امت مسلمہ اور انسانیت کی جنگ ہے، یہ اسلام و مسلمین کی جنگ ہے، یہ مظلومین فلسطین کی جنگ ہے، یہ ایران کی جنگ نہیں ہے، معرکہ حق و باطل ہے۔
صیہونی اخبار ہارٹز: صیہونی فوجی ایسی حالت میں جنوبی غزہ ترک کر رہے ہیں کہ اپنے مطلوبہ اہداف سے حتی قریب بھی نہیں پہنچے۔ فتح اتنی بھی قریب نہیں جس طرح نیتن یاہو کہہ رہا ہے۔ صیہونی فوج کے چند افسران نے کہا ہے کہ غزہ سے پسپائی کی وجہ جنگ میں شدید تھکاوٹ ہے اور اس کا مقصد حسن نیت یا قیدیوں کا تبادلہ نہیں ہے۔