عالمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور طوفان الاقصی آپریشن کے بعد مغرب میں انسانی حقوق کے حامی افراد اور گروہوں کا ایک اہم حصہ صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف کھل کر احتجاج کر رہا ہے۔ ان قراردادوں کی منظوری اس لیے بھی اہم ہو جاتی ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد ممالک اور عالمی برادری غزہ میں جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے لیے پرعزم ہیں
غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست اور مطلوبہ اہداف یعنی حماس کا خاتمہ، غزہ پر فوجی قبضہ اور اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی، کے حصول میں ناکامی کے باعث تل ابیب انتہائی شدید اور گہرے بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ یہ بحران تین سطحوں یعنی اندرونی، علاقائی اور عالمی پر پایا جاتا ہے۔
ہٹلر قابل نفرت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے بے گناہ یہودیوں کے ساتھ زیادتی کی۔ ہم جنگ کی حالت میں بھی ہٹلر کے اس عمل کو قابل نفرت سمجھتے ہیں۔ ہٹلر نے بچوں کا قتل عام کیا، اگر ایسا ہی ہے تو آج اسرائیل کیا کر رہا ہے؟
اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد لازمی ہوتا ہے لیکن اقوام متحدہ کے پاس اپنی قرارداد کو لاگو کرنے کیلئے محدود اختیارات ہیں۔ سلامتی کونسل غاصب صیہونی رژیم کے خلاف تعزیری اقدامات انجام دے سکتی ہے ۔ اگر اس قرارداد پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا تو بلاشبہ سلامتی کونسل کے اعتبار اور حیثیت کو شدید ٹھیس پہنچنے کے ساتھ ساتھ اس کی عدم افادیت بھی ثابت ہو جائے گی۔
غزہ مستحکم کھڑا ہے۔ غزہ کی مزاحمت نے آج بڑی بڑی نام نہاد سپر طاقتوں کے پیر اکھاڑ دیئے ہیں۔ فلسطینی قوم ہر میدان میں کامیاب ہو رہی ہے۔ فلسطین کے دشمن ہر میدان میں ذلیل اور رسوا ہو رہے ہیں۔ سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری بھی حقیقت میں امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہے۔
حال ہی میں غاصب صیہونی حکومت نے اس مذہبی گروہ سے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ کے حالات میں وہ اپنے جوانوں کو فوج کی مدد کے لئے جنگ میں اتاریں۔ اس مطالبہ کے جواب میں صیہونی شدت پسند مذہبی گروہ نے نیتن یاہو کو واضح جواب دیا ہے کہ اگر ان پر زور زبردستی کی گئی تو وہ اسرائیل چھوڑ کر یورپ یا کسی مغربی ملک میں چلے جائیں گے
آہستہ آہستہ دنیا 2 گروہوں میں تبدیل ہورہی ہے، فلسطینی گروپ اور اسرائیلی گروپ، امریکہ تک میں فلسطین کی حمایت میں زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں، مسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہورہے ہورہے ہیں اور وہ مظاہرے غیر مسلم ہی پلان کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں غزہ کے جنوبی شہر رفح پر اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملے کے بارے میں جو بائیڈن اور بنجمن نیتن یاہو کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران تیار ہونے والی انٹیلی جنس رپورٹس حالیہ تناو سے پہلے تیار کی گئی تھیں۔
میرے خیال میں ہزاروں بے گناہ بچوں کو قتل کرنے، ہسپتالوں، مساجد اور چرچوں کو اڑانے اور مہاجر کیمپوں پر بمباری کرنے کے بارے میں امریکی قانون کچھ نہیں کہتا؟!! اس لیے اس پر امریکی سینیٹ میں کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور ہر سو خاموشی ہے۔