خلاصہ کلام یہ ہے کہ غزہ میں آج قحط کا شکار ہوکر مرنے والے بچے یقیناً یہ سوال کریں گے کہ ان کو کس جرم میں قتل کیا گیا۔ غزہ میں بھوک سے مرنے والے معصوم بچے عرب دنیا کے ان حکمرانوں سے ضرور سوال کریں گے کہ جب ہم بھوک کی شدت سے مرے جا رہے تھے تو تمھارے دستر خوانوں پر درجنوں کھانے کس طرح مزین تھے۔؟
اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان اقوام متحدہ کو بھی ہوا ہے، کیونکہ وہ اس جنگ کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا سب سے اہم کام عالمی امن قائم کرنا، برقرار رکھنا اور اسے پھیلانا ہے، لیکن ویٹو پاور کی وجہ سے اس کونسل کو غزہ میں جنگ روکنے کے حوالے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔
صہیونی قیدیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو اور ان کی کابینہ پر جھوٹ بولنے اور مذاکرات میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ حماس نے جنگ بندی کے مذاکرات میں فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے، حالات کو جانتے ہوئے نیز مزاحمتی گروپوں کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے، مذاکرات کے لیے اپنی شرائط طے کی ہیں۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق برہنہ حالت میں جاری کی جانے والی تصویر میں نظر آنے والا فلسطینی نوجوان حمزہ ابو حلیمہ کچھ دن صیہونیوں کی گرفت میں رہنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے، تاہم وہ شدید صدمہ میں ہے۔ کیونکہ اس کے والد اور اہلیہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ لہذا تاحال حمزہ نے کسی بھی میڈیا کے نمائندوں سے اپنی گرفتاری اور اس میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بات نہیں کی ہے۔
فاران: 7 اکتوبر اسرائیل کی تاریخ کا بدترین سانحہ تھا۔ حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کے بعد، اسرائیلی فوج نے انتہائی شدت سے جواب دیا۔ ہزاروں فلسطینیوں کو قتل اور غزہ کے تمام محلوں کو تباہ کر دیا۔ لیکن اسرائیل کو ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جس پر وہ بھروسہ نہیں کر […]
صیہونی حکومت کے چینل 12 نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کی جنگ سے واپس آنے والے ایک صہیونی فوجی نے جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے اپنے ایک دوست کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ صہیونی فوج کی اس صورتحال کی وجہ سے کئی اسرائیلی حکام نیتن یاہو اور انکی جنگی کابینہ کو جنگ جاری رکھنے کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔
اہل فلسطین کو اسرائیل جب چاہتا تھا روند دیتا تھا۔ فلسطینیوں کے پاس لڑنے کے لیے غلیل اور پتھر ہی ہوتے تھے۔ اب یہ اپنے میزائل اور راکٹ بنا رہے ہیں اور ان کے ڈرونز نے بھی تباہی مچا رکھی ہے۔ آپ کے خیال میں اہل فلسطین کو یہ اسلحہ اور یہ قوت مغرب یا خطے کے عرب ممالک نے اپنے تحفظ کے لیے دی ہے؟
آج اگر خطے کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بالکل درست ہے کہ سنہ 1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں آنے والا اسلامی انقلاب صرف ایران کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور ہر مظلوم کا انقلاب ہے۔ جہاں مظلوم ہوں گے، وہاں انقلاب اسلامی ان کے ساتھ ہوگا۔
گرم کپڑے اور کمبل بھی نہیں ہے۔ جن علاقوں میں بارش کا پانی جمع ہو، مسلسل کئی دن سے زہر آلود بنتا جا رہا ہے، اس کو نکالنے کا بندو بست بھی نہیں ہے۔ بیماریاں پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ لیکن ہم سب اپنی اپنی زندگی میں خوش ہیں اور ہر اس آسائش سے استفادہ کرنے میں مصروف ہیں