تازہ ترین رپورٹس سے انکشاف ہوا ہے کہ خلیج فارس کے عرب ممالک صیہونی بستیوں کی تعمیر میں شریک ہیں۔
امریکہ اور حماس کے درمیان بے مثال اور براہ راست مذاکرات نہ صرف مختلف فریقوں، بشمول صہیونی ریاست، کے لیے کئی پیغامات رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے نیتن یاہو کو بھی مکمل طور پر بے بس کر دیا ہے۔
حکمت عملی Tnuva "تنووا" کے تحت اسرائیل صرف اپنی فوجی صلاحیتوں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
شام میں علوی فرقہ سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر ایک نشیب و فراز سے بھرپور تاریخ رکھتا ہے، جو عثمانیوں کے ہاتھوں قتل عام سے لے کر اقتدار تک پہنچنے اور پھر سلفیوں کے ہاتھوں دوبارہ قتل عام کا شکار ہوا۔
"یہ قتل و غارت ایک شیطانی سوچ اور انتہا پسند نظریے کا نتیجہ ہے۔ ہم عرب اور اسلامی دنیا کی خاموشی کی مذمت کرتے ہیں، جو شام کے عوام کے خلاف ان جرائم اور صیہونیوں کے بار بار کیے جانے والے حملوں اور زمینوں پر قبضے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔"
صہیونی ریاست کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی پر حزب اللہ کی خاموشی مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا سیاسی اور عسکری معمہ بن چکی ہے۔
سعودی عرب نے کئی ایسی مصنوعی ذہانت کی (AI) ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کی ہے جو اسرائیل کی 15 ماہ طویل جنگ کے دوران غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کا سبب بنی۔
فلسطینیوں کا رمضان کی آمد پر اسرائیلی صفحات کی مبارکبادی کے پیغامات پر ردعمل حیرت، غصے اور سوالات کے واضح نشانات کا امتزاج ہے کہ ایک قابض حکومت کی گستاخی کی حد کہاں تک ہو سکتی ہے۔
صیہونی حکومت تیسری بار "آلون منصوبہ" کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جسے وہ دروزیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کے طور پر پیش کر رہی ہے، لیکن درحقیقت اس کا مقصد جنوبی شام کو الگ کرنا اور اس ملک کی تقسیم کی راہ ہموار کرنا ہے۔