فاران: میزان یہ ہے کہ ہم دیکھ لیں کہ شیطان ہماری سرگرمیوں اور عزاداریوں سے خوش ہوتا ہے یا ناراض۔ طاغوت ہماری سرگرمیوں سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض؟ عالمی استکبار کے ذرائع ابلاغ ہمارے پروگراموں سے خوش ہوتے ہیں یا نہیں؛ چنانچہ ہمیں عاشورا کو میزان و معیار قرار دینا چاہئے۔ حوزہ و جامعہ […]
ڈیموکریسی کے دعویدار دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے بعد محض معذرت خواہی کر کے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کیونکہ اسلامی مقدسات کی بے حرمتی جیسے واقعات مسلمانوں پر گہرے منفی اثرات ڈالتے ہیں جو اتنی جلدی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔
جنین میں دو روزہ صیہونی جارحیت کے جواب میں دوہرے خودکش حملے تل ابیب میں کئے گئے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کا امن دن بہ دن کمزور اور تباہ کاری کی طرف گامزن ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کا سامنا ایسے نوجوانوں سے ہے جو جنگ کے میدان میں جوان ہوئے ہیں۔
صیہونی حکمرانوں نے فوج میں نافرمانی اور بغاوت کے آثار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ صیہونی رژیم نے حالات کنٹرول کرنے کیلئے ایک نفسیاتی ہتھکنڈہ بھی استعمال کیا ہے اور ان دنوں مسلسل حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے بارے میں ڈاکیومنٹریز نشر کی جا رہی ہیں جبکہ حزب اللہ لبنان کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔
عبرانی میڈیا نے اعتراف کیا کہ لبنان میں اسرائیل کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ 33 روزہ جنگ کے 17 سال گزرنے کے باوجود حزب اللہ کی طاقت میں روز بروز اضافہ ہوا ہے اور کوئی اقدام اس طاقت کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔
آج اگر مغربی کنارے میں موجودہ اسلحہ غزہ میں موجودہ ہتھیاروں سے زیادہ نہ ہو تو کم بھی نہیں ہے اور دوسری طرف سے جتنی آزادی عمل مغربی کنارے کے عوام کو حاصل ہے، غزہ کے گھرے ہوئے علاقے کو حاصل نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مغربی کنارہ بہت تیزرفتاری سے، صہیونی ریاست کے ساتھ جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن جو نسخہ جرائم پیشہ یہودی ریاست نے اس علاقے پے غلبہ پانے کے لئے تجویز کیا ہے، مؤثر نہیں ہے۔
آج جو مزاحمتی کاروائیاں انجام پا رہی ہیں وہ محض جنین کیمپ کے شہداء کے خون کا بدلہ نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی اور مضبوط ارادے کا نتیجہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو موجودہ فلسطینی نسل کو گذشتہ نسلوں سے ممتاز کرتی ہے اور صیہونی آبادکاروں کی وحشت مزید شدید ہونے کا باعث بھی ہے۔
صہیونی اخبار ہا آرتص نے فاش کیا ہے کہ سنہ 2023ع کے آغاز سے اب کے چھ مہینوں میں ہونے والے فلسطینی عوام اور صہیونی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 28 بچے اور کم عمر لڑکے اور لڑکیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔
غیر جانبدار رپورٹوں کے مطابق صہیونی فوج میں حشیش (چرس)، ماریجوانا اور سکون آور دوائیں وسیع پیمانے پر اور افیون، ہیروئین اور کوکین چھوٹے پیمانے پر رائج ہیں۔ شراب نوشی کی لت 45 فیصد اور سیگریٹ کی عادت 70 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔