امریکہ میں سنہ ۲۰۱۵ع اور سنہ ۲۰۱۸ع کے درمیان انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کو انسانی حقوق کے رپورٹروں اور ماہرین سمیت بین الاقوامی ماہرین، نیز اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی آراء اور رپورٹوں کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہندوستان و اسرائیل کے باہمی تعلقات روز بروز بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے زمانے میں دونوں طرف ثقافتی، تعلیمی، سکیورٹی و سلامتی، علمی و دیگر میدانوں میں تعاون کو بے حد فروغ ملا ہے اور انکے درمیان ایک ایسا تعلق استوار ہوئے جسمیں جدائی و شگاف بہت ہی مشکل ہے
صہیونی تجزیہ نگار راگل آلپر (Rogel Alper) نے ہاآرتص کے لئے لکھی یادداشت میں لکھا ہے کہ "اسرائیلی ریاست نے اپنی موت کے سرٹیفیکٹ (Death certificate) پر دستخط کر لئے ہیں اور اب اسے وقت کا انتظار کرنا چاہئے"۔ آلپر نے بعدازاں اپنے دعوے کے اثبات کے لئے کئی دلیلیں پیش کی ہیں۔
ایک صہیونی تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ صہیونی ریاست اور صہیونی فوج، بستی نشین اور اقلیتی انتہاپسند اور نسل پرست یہودیوں کی باندیاں ہیں؛ چنانچہ یہ ریاست اپنی قبر خود کھود رہی ہے۔
رچرڈ بائیڈ برٹ کا کہنا تھا: "فلسطینیوں پر غاصب اسرائیلی ریاست کے مظالم اور اذیت و آزار کو کئی عشرے ہو رہے ہیں اور پندرہ سال کے طویل عرصے سے غزہ کی ناکہ بندی ہوئی جو ہنوز جاری ہے اور غزہ پر اسرائیل کے حملے بھی جاری ہیں؛ فلسطینیوں کی اراضی کو غصب کیا جارہا ہے، نسلی بنیادوں پر فلسطینی آبادی کا صفایا کیا جارہا ہے، آپارتھائیڈ اور نسلی تعصب پر مبنی اسرائیلی اقدامات جاری ہیں مگر تم [یورپی حکمران] نسلی امتیاز اور آپاتھائیڈ کا الزام پیوٹن پر لگا رہے ہو اور روس پر جنونی انداز سے پابندیاں لگا رہے ہو مگر کسی صورت میں بھی اسرائیل کے مظالم و جرائم کا تذکرہ نہیں کرتے ہو، ان کی مذمت نہیں کرتے ہو اور اسرائیل پر پابندی لگانے کی بات نہیں کرتے ہو"۔
فلسطینی اسیران کلب نے تصدیق کی کہ 2015 کے بعد سے قابض اسرائیلی حکام نے 8,700 سے زائد انتظامی حراست کے احکامات جاری کیے جن میں فلسطین میں سماجی، سیاسی اور علمی طور پر سرگرم ہر فرد کو نشانہ بنایا گیا۔
راقم الحروف کی درخواست ہے کہ عقائد کا معاملہ انتہائی حسّاس معاملہ ہے۔ جب ہم کسی کے عقیدے کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہوتے ہیں تو دراصل اس کے قتل کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں۔
کیا آج ہمیں واقعی اپنے یمن کے ان عزیز بھائیوں کا درد محسوس ہو رہا ہے؟ اس یمن کے عزیز بھائیوں کا درد کہ جن کا سربراہ عبد الملک حوثی کہتا ہے کہ اگر ہمارے پاس کھانے کو ایک روٹی میسر ہو تو ہم آدھی روٹی اپنے فلسطینی مظلوم بھائیوں کے ساتھ بانٹ لیں گے۔
اس واقعے پر بر صغیر سمیت دنیا بھر میں احتجاج ہؤا اور 14 فروری سنہ 1989ع کو فتویٰ جاری کرکے سلمان رشدی کو مرتد قرار دیا اور یوں اللہ کے سب سے بڑے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آنحضرت کی امت اور دین اسلام کے خلاف حملے کا مغربی کھیل ابتدائی مرحلے ہی میں درہم برہم ہوگیا۔