سید حسن نصر اللہ نے امارات سے مطالبہ کیا کہ یمن کی سرزمین سے نکل جائے قائد حریت نے متحدہ امارات کو متنبہ کرتے ہوئے نصیحت کی " اس مسئلہ کا حل بہت ہی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ میدان جنگ سے نکل جاو اور اس جنگ میں مداخلت نہ کرو۔
اگر امارات پر مسلط قبیلہ بنی نہیان تصور کرتا ہے کہ یمن کے جوابی حملوں کے جواب کے لئے اس کے پاس کئی آّپشن ہیں تو وہ یقینا غلطی ہے۔
آپ ولایت کی رائج سیاسی تفسیر سے زیادہ اسکی حقیقی تشریح پر یقین رکھتے "دین میں سیاست" کو مانتے تھے "سیاست میں دین" کو ناقابل برداشت جانتے تھے ۔
جماعت انصاف و ترقی کے مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی قربتیں حاصل میں کامیابی حاصل کرنے کی صورت میں بھی، انہیں اندرون سطح پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کے بےشمار ساتھی انہیں چھوڑ سکتے ہیں اور ترکی کے عوام اور جماعت کے راہنما اور اندر کے وہ لوگ ان پر منافقت کا الزام لگا کر انہیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ سکتے ہیں.
الشامی نے کہا: سات سالہ امریکی-سعودی جارجیت کے نتیجے میں 47 ہزار افراد شہید ہوچکے ہیں، ملکی ڈھانچہ، اسپتال، اسکول، سڑکیں، سرکاری دفاتر اور عمارتیں، مکانات، منڈیاں اور بازار تباہ ہو چکے ہیں؛ حتی کہ مساجد اور جیلوں کو تباہ کیا گیا ہے، شادیوں پر حملے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ قبرستانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایک طرف تہذیب، ترقی، دولت کی ریل پیل، اسلحہ کے انبار، اکتالیس ممالک کی فوج اور امریکہ، اسرائیل کی چھتری تلے آل سعود کے عیاش حکمرانوں کے چہروں پر شکست کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف پا برہنگی، حمیت، غیرت، جرائت، استقامت، اتحاد و وحدت، اپنی سرزمین اور اپنے اصولوں سے عشق و محبت، کو فتح کا نقارہ بجاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اہل یمن فتح مند ہیں
ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت شدید پیچیدہ اور خوفناک صورتحال سے روبرو ہیں۔ انہیں گذشتہ تیس برس سے سلمان رشدی کی خوف کی حالت میں خفیہ زندگی پر نظر ڈالنی چاہئے جس نے اسلام کی توہین کی اور ایسے انجام سے دوچار ہوا۔ سلمان رشدی گذشتہ تیس سال کے دوران کسی عوامی مقام پر دیکھا نہیں گیا اور بھاری سکیورٹی کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کرتا۔ شاید اس کی نظر میں موت ان تیس سالوں کے خوف اور وحشت سے کہیں زیادہ آسان دکھائی دیتی ہو گی۔
مسلم دنیا کے ممالک اگر اسلامو فوبیا کیخلاف ایک نکتہ پر جمع ہو جائیں تو اس قابل ہوسکتے ہیں کہ آئندہ زمانے میں مشترکہ کرنسی، مشترکہ پارلیمنٹ اور سرحدوں سے آزاد ہو جائیں۔ ان اقدامات کے نتیجہ میں یقیناً مسئلہ فلسطین بھی منصفانہ انداز میں حل ہو جائیگا اور ساتھ ساتھ کشمیر سمیت مسلم امہ کے دیگر ایسے تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
شاید ایسا اس لئے ہے کہ گاندھی جی کا چشمہ کسی میوزیم میں پڑا دھول کھا رہا ہے اور لوگ سرمایہ داری کا چشمہ لگا کر ملک چلا رہے ہیں جسکی وجہ سے غریب و مزدور انہیں دکھ ہی نہیں رہے ہیں ہر طرف سرمایہ دار ہی نظر آ رہے ہیں