ہمیں ہر ایک سے دشمنی بھی مول لینے کی ضرورت نہیں ہے دشمنی انہیں سے مول لینا ہے جو ہمارے دین کے مخالف ہوں یا ہمیں تباہ و برباد کرنے دینے پر تلے ہوں اب ایسے میں سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ حقیقت میں دشمن ہوتا کون ہے تاکہ اس کے معنی کے روشنی میں ہم اس کی تطبیق اس طرح کر سکیں جو حقیقت مبنی ہو۔
ہمیں غفلت کا شکار نہ ہو کرہمیشہ بیدار اور ہوشیار رہنا ہوگا، ہمیں چاہیئے کہ دشمن کی سازشوں کو عملی جامہ پہننے سے پہلے بھانپ لیں اور انہیں پہچان کر ناکام بنا: امام خمینی (رہ)
شیخ نمر نے اس منصوبے اور منشور کو ’’عریضۃ العزۃ و الکرامۃ‘‘ (عزت و وقار کی عرضداشت) کے عنوان سے سعودی عرب کی حکومت کو پیش کیا اور اس کے بعد اپنے اس ایجاد کردہ منشور کو عملی جامہ پہنانے کے طریقہ کار کو نماز جمعہ کے خطبوں میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔
اگر کسی کو یہ وہم تھا بھی کہ یہ قوانین اور امریکی ورلڈ آرڈر - وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے سوا کسی اور شخص کے کرسی صدارت پر براجماں ہونے کی صورت میں - دوبارہ بحال ہوسکتا ہے، تو اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ سنہ 2021ع ایسا سال تھا جس میں مغرب کی طرف سے کسی بھی مسلط قانون کی عدم موجودگی بالکل واضح ہوگئی اور روس، چین اور ایران اس حقیقت پر متفق ہیں۔
امریکی میگزین فارن پالیسی نے لکھا: جہاں سعودی ولی عہد ایم بی ایس (محمد بن سلمان) سعودی عرب کی ثقافت اور عقائد و افکار بدلنے کی کوششیں کررہے ہیں وہیں سعودی عرب کی حدود میں منشیات کے استعمال میں بےتحاشا اضافہ ہؤا ہے۔
صورت احوال یہ کہ حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے کچھ یہودی ربیوں نے انقرہ کے صدارتی محل میں ترک صدر رجب طیب اردگان سے بات چیت کی جس پر ملا جلا رد عمل سامنے آیا۔
بھارت میں سالانہ دس لاکھ افراد علاج و معالجے کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اس ملک کی آدھی سے بھی زیادہ آبادی (ستر کروڑ انسانوں) کو سپیشلسٹ ڈاکٹر تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
ناخواندہ ہندوستانیوں کو کلینیکی تجربات سے متعلق رضامندی فارم کے مندرجات سے آگاہ نہیں کیا جاتا / بیرون ملکی طبی تحقیقات کی نگرانی میں امریکی محکمہ خوراک وادویات کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے/ امریکی کمپنیاں بھارتی ڈاکٹروں کو بڑی رقوم بطور رشوت دیتی ہیں اور اپنی دولت بڑھانے کے لئے غریب ہندوستانی عوام کا استحصال کرتی ہیں۔
امریکہ کے اندر کے حکمران اور امریکہ کے باہر کے لبرل ازم اور معاشی آزاد مشربی سے متاثر سوچوں کے مالک لوگ ـ بالخصوص لبرل ازم کو بطور فیشن اپنانے والے مسلم دنیا کے مقتدر بھنئے یا منفعل سیاستدان ـ جو امریکی زوال کو اپنے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں، کہتے ہیں کہ اعداد و شمار جعلی ہیں اور امریکہ خود ہی ایسی معلومات دنیا کو دے رہا ہے تا کہ اس کے حریفوں کو معاشی نقصان پہنچا سکے۔