نو لیبرالیت (Neoliberalism) ایک “عسکری شدہ” اوزار ہے، جس کو ـ حکمران اشرافیہ اپنے کنٹرول کے تحفظ کے لئے، معاشرے کو پارہ پارہ اور منتشر کرنے اور لوٹ مار نیز معاشرتی عدم مساوات کی رفتار تیز کرنے کے لئے ـ استعمال کررہی ہے۔ حکمران آئیڈیالوجی ـ جو مزید کسی طور بھی معتبر نہیں ہے ـ اپنی جگہ فسطائیت اور عسکری استبدادیت کو دے دیتی ہے۔
آج، اسلامی مزاحمت عالمی سلامتی، معیشت اور سیاست کے شعبوں سے متعلق فیصلہ ساز اداروں میں بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے، اس نے مزاحمت مخالف فیصلہ سازیوں کو روکا ہے اور اپنے اراکین کے لیے اقتصادی، سیاسی، اور دیگر شعبوں میں کامیابیوں کے راستے کھول لئے ہیں۔
قرآن میں یہودیوں کے کھوکھلے خیالات اور بےبنیاد نعروں کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ کے چہیتے ہیں اور قیامت کو جہنم کی آگ ہمیں چند گنے چنے دنوں کے سوا، چھو تک نہيں سکے گی۔
مسلمان فلسطین کو بھول گئے ہیں کیا وہ قدس اور مسجد الاقصیٰ کو بھی بھول جائيں گے؟ / بیت المقدس کے یہودیانے کا دس سالہ عرصہ گذر چکا مگر بیت المقدس آج بھی بیت المقدس اور ایک مسلم اکثریتی شہر ہے۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ پیریز نے اس منصوبے کے اصولوں کو "آیالون منصوبے" (Ayalon Plan) سے مستعار لیا ہے اور اس نے اس منصوبے پر عملدرآمد کو "عرب ریاستوں" کے سرمائے اور "صیہونی ذہانت" کے درمیان "اتحاد و یگانگت!" کی ایک علامت گردانا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس سے اسرائیل کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔
درحقیقت، آکساگون شہر صاف ستھری اور جدید صنعت کا مرکز بننے کی کوشش کر رہا ہے، اور وہ یوں کہ شہر میں ہونے والی تمام سرگرمیاں صاف توانائی (Clean energy) اور زیرو کاربن کے اخراج کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام پائیں۔
"ایسا شہر جو کرہ ارضی میں کسی بھی شہر کی طرح نہیں ہے ۔۔۔ ایسی کمپنیوں اور گھرانوں کا مسکن ہے جو ما وراء الارضی اور نہایت خاص قسم کی زندگی کے در پے ہیں۔۔۔"
جو منصوبہ شمعون پیریز نے غزہ کے بارے میں پیش کیا ہے جو ہمیں ابو دیس کی یاد دلاتا ہے جس کا نام قدس کے متبادل کے طور پر [فلسطینی دارالحکومت کے طور پر] پیش کیا گیا۔
صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں شمعون پیریز پروجیکٹ اور محمد بن سلمان اسمارٹ سٹی پروجیکٹ کے درمیان واضح مماثلت واضح ہوجانے کے بعد، عرب ممالک کی رائے عامہ زمانہ حال اور مستقبل قریب میں صہیونی ریاست کے ساتھ "تعلقات معمول لانے کے عمل" کے مرکزی نقاط (Pivots) کے آثار و تفصیلات کو دیکھ سکتی ہے۔