فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ہم نے پچھلی تحریر میں ارتداد کے معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے ارتداد کی تقسیم اور اسکے شرائط پر ایک اجمالی نظر ڈالی اور ارتداد کے تاریخی سابقے کو بیان کرتے ہوئے کوشش کی کہ مرتد کی سزا کا اجمالی جائزہ لیا جائے ، پیش نظر تحریر کے اس حصے […]
ارتداد کے لئے شریعت نے عقل، بلوغ، قصد و اختیار کو ارتداد کے تحقق کی شرائط میں ضروری جانا ہے یعنی اگر کوئی غیر بالغ کسی ایسی چیز کو زبان پر لائے جو ارتداد کا سبب ہے یا کوئی دیوانہ شخص قول و عمل سے کچھ ایسا کرے جس سے ارتدادلازم آئے تو وہ مرتد نہیں کہلائے گا اسی طرح اگر کسی کا اختیار و قصد نہ ہو اور وہ بغیر قصد و اختیار کے مجبوری میں ایسی باتیں کریں جس سے ظاہر ہو کہ اپنے دین سے پھر رہا ہے تو یہاں پر بھی اسے مرتد نہیں کہا جائے گا چنانچہ کسی مجبوری کی وجہ سے کوئی کفر بک رہا ہے تو وہ بھی مرتد نہیں کہلائے گا۔
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دوگنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو ۱۲ ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
آج کے معاشرے میں بھی عالمی صہیونیت اور امریکہ کے ظلم و جور کے مقابلے میں غیرجانب داری سے کام لینا ایک بہت بڑا المیہ ہے اور اس کا مقصد شیعہ مذہب کے چہرے کو مسخ کرنا ہے۔
یہودیوں کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں نے ان پر ظلم کیا ہے اسی وجہ سے وہ تمام اقوام عالم بالخصوص عربوں کی دشمنی اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔
دلچسپ یہ ہے کہ تاریخی مطالعات میں کبھی بھی صہیونیوں اور نازیوں کے درمیان پائے جانے والے اس گہرے رابطے کی طرف اشارہ نہیں ہوتا اور صرف نازیوں کے ظلم و ستم اور یہودیوں کی مظلومیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بجا ہے کہ جرمنی میں یہود دشمنی کی فضا بھی خود صہیونیوں کے ذریعے وجود میں لائی گئی تھی۔
«يُخْرِجُونَ» کا مصداق دنیا میں اس وقت فلسطین ہے کہ ۷۰ سال کے زیادہ عرصہ سے مظلوم عوام کو ان کی سرزمینوں سے باہر نکالا ہوا ہے۔ اور «يذبحون» کا مصداق وہ قتل عام ہے جو سعودی اتحاد یمن میں انجام دے رہا ہے۔ کیا یہ فرعون سے بدتر نہیں ہیں؟
پوری تاریخ میں یہودیوں کی شناخت اس لئے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں ان کی استبدادیت اور باقی انسانوں پر تسلط [کی خواہش] ان کی ذاتی خصوصیت ہے جس کی پہچان ان کے آج کے رویوں کا بہتر تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ دوسروں کو انسان بھی نہیں سمجھتے، چنانچہ انھوں نے اپنی یہی فوقیت ثابت کرنے اور اپنے دلی اعتقاد کی خاطر، کسی بھی ابلاغی اقدام سے دریغ نہیں کیا ہے۔
جو طاقتیں وسیم رضوی کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور اس سے کام لے رہی ہیں سب کے سب مذمت کے لائق اور مجرم ہیں جنہیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے، البتہ یہ معاملہ عین اس موقع پر سامنے آیا جب اترپردیش کا الیکشن قریب ہے وسیم رضوی کا نہ علمی حلقہ سے کبھی متعلق رہاہے نہ اسکی کوئی سماجی حثیت ہے جسے کوئی اہمیت دی جائے۔